سکھر ،چھوہارا مارکیٹ میں مزدور خواتین ہراسگی کے باعث ذہنی دبائو کاشکار
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-11-9
سکھر(نمائندہ جسارت)سندھ حکومت کی بے حسی کی انتہا، ایشیا کی سب سے بڑی چھوہارا مارکیٹ میں روزانہ مزدوری کرنے کیلیے آنے والی ہزاروں خواتین سات کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور، خواتین ہراسگی کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار، منڈی کے بااثر سیٹھ اور سرکاری ادارے تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آغا قادر داد چھوہارا مارکیٹ میں مزدوری کرنے والی بیشتر خواتین جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ نہ صرف ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام موجود ہے بلکہ خواتین کو چھوہارا منڈی کے ماحول میں مسلسل استحصال اور تذلیل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا قانون برائے انسداد ہراسگی 2010ء واضح طور پر کہتا ہے کہ کام کی جگہ پر خواتین کو ہر قسم کی بدسلوکی، ہراسگی اور غیر انسانی سلوک سے محفوظ رکھنا اداروں اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ، محکمہ لیبر، سوشل سیکورٹی اور ضلعی انتظامیہ سمیت وہ ادارے، جو اس قانون پر عملدرآمد کے پابند ہیں، خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔قانون کے تحت انتظامیہ پر لازم ہے کہ خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرے۔ہراسگی یا تذلیل کی شکایت پر فوری ایکشن لیا جائے۔خلاف ورزی پر ملوث افراد کو سخت سزا اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔مگر چھوہارا مارکیٹ میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ نہ صرف خواتین کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں بلکہ سات کلومیٹر روزانہ پیدل سفر کرکے کام پر پہنچنے والی خواتین کھلے عام استحصال کا شکار ہیں۔ سول سوسائٹی، این جی اوز اور انسانی حقوق کے دعویدار ادارے بھی اس انسانی المیے پر خاموش ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے قانون صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہو اور عملی طور پر خواتین کو انصاف دلانے والا کوئی موجود نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ اگر آئین اور قانون کے ہوتے ہوئے بھی خواتین کے ساتھ یہ رویہ روا رکھا جا رہا ہے تو پھر انصاف کہاں ہے؟۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خواتین کو
پڑھیں:
عجلت میں کی گئی چیزیں کشمیر کاز کو نقصان پہنچائیں گی: وزیرِ قانون
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ—فائل فوٹووزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے کشمیر کے آئین میں ریفرنڈم کی کوئی شق نہیں، عجلت میں یہ چیز کی جائے تو نہیں سمجھتا کہ آئینی، قانونی، سیاسی اور سماجی طور پر درست ہو گی، عجلت میں کی گئی یہ چیزیں ہمارے کشمیر کاز کو نقصان پہنچائیں گی۔
جاری کیے گئے بیان میں ان کا کہنا ہے کہ جب سیاست کی بات ہوتی ہے تو قانونی، آئینی نقاط پر ٹھنڈے دل سے بات کرنی چاہیے، ہمیں آئینی اور قانونی نقاط پر سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے اور حل تلاش کرنا چاہیے۔
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آزاد کشمیر کی ان 12 نشستوں کے حلقوں کے تمام ووٹرز کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، یہ لوگ بھارت کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اور پاکستان کی خاطر بے گھر ہوئے، ان لوگوں کو پاکستان نے مہمانوں کی طرح آباد کیا، ان کا تعلق کشمیر سے ختم نہیں کیا جا سکتا، کسی تحریک کے نتیجے میں یہ تعلق یک لخت تو بالکل بھی ختم نہیں ہونا چاہیے۔
پشاورخیبرپختونخوا اسمبلی نے مقبوضہ جموں و کشمیر...
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ایک جامع آئینی پیکیج اور سیاسی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے، اس اتفاقِ رائے میں تمام کشمیری قیادت شامل ہو، اس میں ان کے نمائندگان سے بھی بات ہونی چاہیے جن کا کہا جا رہا ہے کہ ان کو ووٹ کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
وزیرِ قانون کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا فیصلہ ہے جس میں اتفاقِ رائے بہت ضروری ہے، لوگوں کو یہ اعتراض بھی ہو سکتا ہے کہ منتخب لوگ یہ کام کیوں نہیں کر رہے، یہ اعتراض بھی ہو سکتا ہے کہ عجلت میں یہ کام کیوں کیا جا رہا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے یہ بھی کہا کہ آئینی ترمیم اور بنیادی حقوق پر فیصلے ایسے عجلت میں نہیں کرنے چاہئیں، اس میں بہت ساری قانونی موشگافیاں اور آئینی ایشوز ہیں۔