تل ابیب: اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے اور اگر وہ امریکی قیادت میں پیش کیے گئے جنگ بندی منصوبے کو قبول کر لیتی ہے تو یہ غزہ جنگ کے خاتمے کی شروعات ہوسکتی ہے۔

نیتن یاہو نے یورونیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ "ہم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرلیا ہے، اب فیصلہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اس پر عمل کرتی ہے تو امن قائم ہوسکتا ہے، ورنہ اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت کے ساتھ حماس کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔"

انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے دو اہم حصے ہیں۔ پہلے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جزوی انخلا شامل ہے، جبکہ دوسرے حصے میں غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنانا اور حماس کو غیر مسلح کرنا مقصد ہے۔

نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ حماس نے اس منصوبے پر نرمی اس لیے دکھائی کیونکہ اسرائیلی فوج نے حالیہ ہفتوں میں غزہ کے مرکزی علاقوں میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ ان کے بقول "ہماری کارروائی نے حماس کو احساس دلایا کہ اس کا انجام قریب ہے، اسی دوران صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ سامنے آیا جس نے صورتحال کو بہتر سمت دی۔"

اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ "سب جانتے ہیں کہ حماس دوبارہ غزہ پر حکومت نہیں کر سکتی۔ ہمیں ایک نئی سول انتظامیہ کی ضرورت ہے جو اسرائیل سے دشمنی نہ رکھے بلکہ امن کے ساتھ رہنا چاہے۔"

انہوں نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ نے اس مجوزہ سول اتھارٹی کی سربراہی کا عندیہ بھی دیا ہے، جس سے اسرائیل، غزہ اور پورے خطے کے لیے ایک نیا اور پائیدار مستقبل ممکن ہو سکتا ہے۔

نیتن یاہو نے الزام لگایا کہ حماس نے "غزہ کے لیے آنے والے اربوں ڈالر عوامی بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے زیر زمین دہشت گرد شہر بنانے پر لگا دیے۔" ان کے بقول "اب خود غزہ کے لوگ حماس کی جابرانہ حکومت کے خلاف ہیں۔"

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو مزید عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کر سکتے ہیں، جیسے ماضی میں ابراہیم معاہدوں کے تحت کیے گئے تھے۔


 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو نے کہ حماس

پڑھیں:

ٹرمپ منصوبہ اور اسرائیلی کابینہ میں اختلافات

اسلام ٹائمز: نیتن یاہو کی کابینہ میں یہ اختلافات انکے عہدیداروں کے بیانات میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک بیان میں اسرائیلی کابینہ کے ترجمان نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف حملوں اور بم دھماکوں کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ دریں اثناء، Ma'ariv پول سے پتہ چلتا ہے کہ 53 فیصد اسرائیلی اور 41 فیصد ووٹرز حکمران اتحاد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن دائیں بازو کے وزراء نے حکومت کو گرانے کی دھمکی دی ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بین گویر کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی قومی شکست کا حصہ نہیں بنیں گے، جو ا ابدی رسوائی ہو اور اگلے قتل عام کیلئے ٹائم بم بن جائے۔ تحریر: سید رضی عمادی

غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کے دوسرے سال کے اختتام کے موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کا دعویٰ کرتے ہوئے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے پر تحریک حماس نے مشروط آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلاء، غزہ کی تعمیر نو، عبوری حکومت کی تشکیل اور حماس کو غیر مسلح کرنا ٹرمپ کے غزہ سے متعلق منصوبے کی اہم شقوں میں شامل ہے۔ حماس کے اس منصوبے پر مشروط آمادگی کے بعد اسرائیلی کابینہ کے اندر اختلافات شروع ہوگئے ہیں۔

اگرچہ نیتن یاہو پہلے ہی ٹرمپ کے منصوبے سے اتفاق کرچکا ہے، لیکن اس معاملے میں اسرائیلی کابینہ کے اندر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلاف کئی محوروں کے گرد گھومتے ہیں۔ پہلا محور یہ ہے کہ کابینہ کے کچھ ارکان، بشمول بین گویر اور سموٹریج یعنی داخلی سلامتی اور مالیات کے وزراء، اس منصوبے کے شدید مخالف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ جاری رہنی چاہیئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ اس غلط تجویز پر اصرار کرتے رہتے ہیں کہ صہیونی قیدیوں کو جنگ کے ذریعے آزاد کرنا ممکن ہے اور حماس کے ساتھ سیاسی معاہدے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس معاہدے کو حماس کے لیے سیاسی رعایت سمجھتے ہیں۔

نیتن یاہو کی کابینہ میں اختلاف کا ایک اور محور اسرائیل کے غزہ پٹی سے انخلاء سے متعلق ہے۔ غزہ سے اسرائیل کے فوجی انخلاء کو نیتن یاہو کی کابینہ کے دائیں بازو کے وزراء کی مزاحمت کا سامنا ہے، جو حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو کی کابینہ کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ غزہ سے انخلاء اس پٹی پر مکمل قبضے کے منصوبے سے متصادم ہے۔ اس لیے وہ نہ صرف غزہ سے انخلاء بلکہ اس پٹی میں عبوری حکومت کی تشکیل کے منصوبے کی بھی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں غزہ میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ حماس نے اگرچہ غزہ کی انتظامیہ پر بین الاقوامی نگرانی کی واضح طور پر مخالفت نہیں کی ہے، لیکن اس نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

نیتن یاہو کی کابینہ میں یہ اختلافات ان کے عہدیداروں کے بیانات میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک بیان میں اسرائیلی کابینہ کے ترجمان نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف حملوں اور بم دھماکوں کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ دریں اثناء، Ma'ariv پول سے پتہ چلتا ہے کہ 53 فیصد اسرائیلی اور 41 فیصد ووٹرز حکمران اتحاد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن دائیں بازو کے وزراء نے حکومت کو گرانے کی دھمکی دی ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بین گویر کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی قومی شکست کا حصہ نہیں بنیں گے، جو ا ابدی رسوائی ہو اور اگلے قتل عام کے لیے ٹائم بم بن جائے۔

اسرائیلی کابینہ میں ان اختلافات کو دیکھتے ہوئے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ٹرمپ یا نیتن یاہو یا دونوں حماس کے ردعمل کا فائدہ اٹھا کر تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی لیے حماس کی بالواسطہ مخالفت کے باوجود امریکی صدر نے فی الوقت اپنے دیگر مطالبات کے حوالے سے  تحمل کا مظاہرہ کیا اور ہر طرح کے ردعمل کو قبول کیا۔ تاہم غزہ پر حملے روکنے کا دعویٰ کرنے والی صیہونی حکومت نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 65 فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، جس سے غزہ میں جنگ بندی کے قیام کے ٹرمپ کے منصوبے کی کامیابی غیر واضح نظر آرہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ منصوبہ اور اسرائیلی کابینہ میں اختلافات
  • ٹرمپ پلان نے نیتن یاہو کو مشکل میں ڈال دیا
  • دوحہ حملے پر دباؤ کے بعد نیتن یاہو نے غزہ امن منصوبے پر لچک دکھائی، نیویارک ٹائمز کا دعویٰ
  • اسرائیل، غزہ سے جزوی انخلا اور حملوں میں کمی پر رضامند، جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگئی، صدر ٹرمپ
  • حماس نے جنگ بندی نہ مانی تو غزہ پر حملے مزید بڑھیں گے، نیتن یاہو
  • ہم قیدیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کی تیاری کر رہے ہیں، اسرائیل
  • قطرحملے سے نیتن یاہو لچک دکھانے پرمجبورہوئے،نیویارک ٹائمز
  • قطرحملےکے بعد نیتن یاہو لچک دکھانے پرمجبورہوئے،نیویارک ٹائمز