Juraat:
2025-10-08@01:14:03 GMT

مودی سرکار کاکشمیری طلباء سے ناروا سلوک

اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT

مودی سرکار کاکشمیری طلباء سے ناروا سلوک

ریاض احمدچودھری

صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کا جائزہ لینے کیلئے ہم چند واقعات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے سی آئی ایم ایس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم کشمیری طلبا پر بھارتی انتہا پسند ہندووں نے حملہ کر کے کئی طلبا کو زخمی کر دیا ۔ ڈیرہ دھون اترا کھنڈ علاقے میں قائم سی آئی ایم ایس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طلبا کے بقول انہیں کالج میں گھس کر غنڈوں نے مارا پیٹا جس کی وجہ سے کالج میں کئی ایک طلبا زخمی ہو گئے ہیں۔ کشمیری طالب علموں کی ایک غیر کشمیری طالب علم کے ساتھ کسی بات پر توں توں میں میں ہوئی جس کو بعد میں کالج میں زیر تعلیم طلبا نے آپس میں مل بیٹھ کر معاملہ حل کیا۔ کشمیری طلبا کا کہنا تھا غنڈوںکی ایک جماعت کالج میں داخل ہو کر کشمیری طلبا کو چن چن کر مارنے لگی جس کے ساتھ ہی اکثر طلبا نے کمروں کے دروازے بند کر دئیے جبکہ کئی اساتذہ جو کشمیری طلبا کو بچانے کی کوشش کررہے تھے، کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پولیس نے تمام طالب علموں کو کالج سے نکال کر انکی عارضی رہائش گاہوں تک پہنچایا۔
بھارت میں مسلمانوں سے تعصب اور دشمنی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک کالج سے 23 کشمیری طلبا کو نکال دیا گیا ہے۔ کشمیری طلبا کواس بنا پرکالج چھوڑدینے کی ہدایت کی ہے کیونکہ انسانی وسائل و ترقی کی بھارتی وزارت نے وزیراعظم اسکالر شپ اسکیم کے تحت ان کی فیس ادا نہیں کی۔ نکالے گئے طلبا کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو وزیر اعظم اسکالر شپ کی بنیاد پرامبالہ کے کالج میں داخلہ دیا گیا تھا اور داخلے کے وقت طلبا کواس بات کی مکمل یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے تمام اخراجات بھارتی حکومت برداشت کر لے گی۔ اسی طرح بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے ایک پرائیویٹ کالج میں زیر تعلیم کم از کم 40کشمیری طالب علم دو طلباگروپوں میں جھڑپوں کے بعد مجبورا اپنی تعلیم ترک کر کے کشمیر واپس روانہ ہوگئے ہیں۔ کالج میں زیر تعلیم باقی کشمیر ی طلباء انتظامیہ کی یقین دہانی کے باوجود خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کٹھ پتلی انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ انہیں سیکورٹی فراہم کرے تاکہ وہ بھی اپنے گھروں کو واپس آسکیں کیونکہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ طالب علموں کاکہناتھا کہ انہیں بری طرح سے ہراساں کیا جارہا ہے۔بھارتی ریاست راجستھان کے شہرچتورگڑھ میں میوریونیورسٹی میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ پر ہندو انتہا پسندوں نے گائے کا گوشت کھانے کاالزام لگاکرحملہ کردیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ کچھ طلبا نے ہاسٹل میں ان کے کمروں اورسامان کی توڑپھوڑکی اوران پرپتھراؤکیا۔ اس کے بعد مقامی پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے4 کشمیری طلبا کو گرفتار کرلیا۔ یونیورسٹی کے انچارج طارق صوفی نے کہاکہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب مقامی لوگوں کے ایک گروپ کوپتہ چلاکہ کشمیری طلبانے گائے گا گوشت کھایاہے۔ کشمیری طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور ان پرحملہ ہوسکتا ہے کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوںمیں بھی گائے کا گوشت کھانے والوںکونشانہ بنایاجارہاہے۔ یہ ہندو کا تعصب ہے جس کی بنیاد پر بھارت کے اندر بھی مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں ہو پا رہا۔
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک کشمیری طالب علم آفتاب حسین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور ہندو جاگرن منچ کے دہشت گردوں نے نوراتری گربہ کی تقریب میں داخل ہونے پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے اور ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علم آفتاب حسین کو بے رحمی سے مارا پیٹا اور گھسیٹ کر باہر نکالا۔عینی شاہدین اور میڈیا رپورٹس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آفتاب کو شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور سرعام اس کی تذلیل کی گئی۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے کشمیری طالب علم آفتاب حسین پرہندوتوا دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مجرموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں کشمیری طلباء پر حملوں سے واضح ہوتاہے کہ بھارت ایک فرقہ پرست ریاست ہے جہاں کوئی کشمیری محفوظ نہیں ہے۔ حریت کانفرنس نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر سے اپنی قابض افواج اور بی جے پی کے بیوروکریٹس کو فوراً نکالے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے۔
بھارت مقبوضہ جموںوکشمیر میں طلبا ء کو تعلیم کے حق سے محروم کررہا ہے۔حال ہی میںجاری کی گئی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 7 دہائیوں سے زائد عرصے تک بھارت کے زیر قبضہ جموںوکشمیر میںنظام تعلیم مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ 5 اگست 2019 کوبھارت کی طرف سے مسلط کردہ غیر انسانی فوجی محاصرے سے تعلیمی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پہلے اسکول غیر معمولی فوجی محاصرے کی وجہ سے کئی مہینوں تک بند رہے اور پھر والدین اپنے بچوں کو اس خوف سے کہ بھارتی فورسز انہیں اٹھاکر نہ لے جائیں، اسکول بھیجنے سے کتراتے رہے جس سے مقبوضہ علاقے کے طلبہ کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔رپورٹ میں سوال اٹھایا گیاہے کہ جب کشمیری طلبا روزانہ کی بنیاد پربھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے پیاروںکو قتل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں تو وہ تعلیم پر کس طرح توجہ دے سکتے ہیں۔ علاقے میں بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی نے طلباء کو نفسیاتی طور پر متاثر کیاہے جبکہ متعدد طلباء بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائیوںکے دوران شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ قابض حکام کی طرف سے انٹرنیٹ کی باربار معطلی سے بھی مقبوضہ علاقے میں تعلیم کا بڑی حد تک حرج ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کالج میں زیر تعلیم کشمیری طالب علم کشمیری طلبا کو بھارتی ریاست کہ بھارت بھارت کے

پڑھیں:

مودی راج میں مسلمانوں پر مظالم کی انتہا، مساجد و قبروں کی توہین معمول بن گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بھارت میں مودی سرکار کے دور میں ہندوتوا نظریہ پوری شدت کے ساتھ غالب آ چکا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنتی جا رہی ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق اتر پردیش سے لے کر متھرا تک پولیس اور ریاستی ادارے ہندو انتہا پسند تنظیموں کے زیرِ اثر آ چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا دی وائر کی رپورٹ کے مطابق متھرا کو مقدس شہر قرار دیے جانے کے بعد سے وہاں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں گوشت کی دکانیں اور ہوٹل بند کر دیے گئے ہیں، جس کے سبب سیکڑوں خاندانوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔

ریاستی پولیس کو گائے کے تحفظ کے قوانین کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں، جنہیں صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ جھوٹے مقدمات، ناحق گرفتاریاں اور بلاوجہ تلاشیوں کا سلسلہ عام ہو چکا ہے۔

صورتحال اس قدر خوفناک ہو گئی ہے کہ مسلمان گوشت خریدنے یا کھانے سے بھی گریز کرنے لگے ہیں تاکہ انتہا پسندوں کے حملوں سے بچ سکیں۔

رپورٹ کے مطابق متھرا اور دیگر شہروں میں ہندو شدت پسند رہنما مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں، انہیں “دیمک” کہہ کر بلاتے ہیں جب کہ مسلم نوجوان خود کو محفوظ رکھنے کے لیے زعفرانی رنگ کے کپڑے پہننے پر مجبور ہیں۔ یہ سب اس بات کا مظہر ہے کہ بھارت میں ہندوتوا کے عروج نے مذہبی آزادی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔

مزید افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے قبرستانوں کے قریب کچرے کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں، جب کہ مساجد کے اردگرد بیت الخلا تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

کئی مقامات پر مساجد پر قبضوں، اذان پر پابندی اور مسلم آبادیوں میں گھروں کی مسماری کی کارروائیاں بھی تیز کر دی گئی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقدامات آر ایس ایس کے اُس ایجنڈے کا حصہ ہیں جو بھارت کو ’’ہندو راشٹر‘‘ میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔

سماجی ماہرین کے مطابق بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ ملک کے سیکولر آئین اور جمہوری تشخص کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ اقدامات، بھارتی طلبہ کی امریکا آمد میں ڈرامائی کمی
  • مودی کی بدلتی شناخت چائے والے سے راون تک
  • مودی کو کیسے ڈرا، دھما کر امن قائم کرایا، ٹرمپ نے ساری کہانی تفصیل سے بتادی
  • حیدرآباد ،جامشورو نرسنگ کالج کے طلبا وطالبات پیڈانٹرن شپ نہ ملنے کیخلاف احتجاج کررہے ہیں
  • بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جلسہ عام میں پاکستان سے شکست کا اعتراف کرلیا
  • مودی راج میں مسلمانوں پر مظالم کی انتہا، مساجد و قبروں کی توہین معمول بن گیا
  • تعلیم کا کارنامہ: بھارتی ٹیچر نے دولت میں شاہ رخ خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
  • یورپ میں تحریک خالصتان
  • دنیاانتہا پسند اسرائیلی وزیر کا فلوٹیلا کارکنوں کے ساتھ ناروا سلوک پر ’فخر‘ کا اظہار