وفاقی تعلیمی بورڈ کا نیا گریڈنگ سسٹم متعارف، پاسنگ مارکس بڑھاکر 40 فیصد کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ و سیکنڈری ایجوکیشن (ایف بی آئی ایس ای) نے پاسنگ مارکس کو موجودہ 33 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کر دیا ہے، ساتھ ہی ایک نیا گریڈنگ سسٹم بھی متعارف کرایا گیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیا نظام اگلے سال سے سالانہ امتحانات میں نافذ کیا جائے گا۔
ایف بی آئی ایس ای کے ایک عہدیدار کے مطابق فی مضمون موجودہ پاسنگ مارکس 33 فیصد ہیں لیکن اگلے سال سے 40 فیصد کو پاسنگ مارکس تصور کیا جائے گا۔
ایف بی آئی ایس ای نے اپنے پرانے گریڈنگ سسٹم (اے، بی، سی، ڈی، ای) میں بھی تبدیلی کی ہے اور اس کی جگہ نئی کارکردگی کے اشاریے متعارف کرائے ہیں، جن کی تعداد بھی بڑھا دی گئی ہے، پرانے نظام میں صرف 5 گریڈ تھے، جب کہ نئے نظام میں دس درجات (گریڈیشنز) شامل کیے گئے ہیں۔
یہ اقدام گزشتہ ماہ اسلام آباد میں انٹر بورڈ کوآرڈینیشن کمیشن (آئی بی سی سی) کے فیصلے کے بعد کیا گیا ہے۔
نوٹی فکیشن کے مطابق نظرِ ثانی شدہ گریڈنگ سسٹم پہلے سالانہ امتحانات 2026 سے سیکنڈری اسکول سرٹیفیکیٹ (ایس ایس سی-I ) اور ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفیکیٹ-I (ایچ ایس ایس سی-I ) کی سطح پر نافذ العمل ہوگا، جب کہ ایس ایس سی-II اور ایچ ایس ایس سی-II کی سطح پر یہ نظام 2027 کے پہلے سالانہ امتحانات سے نافذ العمل ہوگا۔
نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ وہ طلبہ جو 96 فیصد سے 100 فیصد نمبر حاصل کریں گے، انہیں ++A گریڈ دیا جائے گا، جسے غیر معمولی (Extraordinary) قرار دیا گیا ہے، اسی طرح 91 فیصد سے 95 فیصد تک نمبر لینے والوں کو +A گریڈ اور بہت اعلیٰ کیٹیگری (Exceptional) میں رکھا جائے گا۔
جو طلبہ 86 فیصد سے 90 فیصد نمبر حاصل کریں گے، انہیں A گریڈ دیا جائے گا، جسے نمایاں (Outstanding) کیٹیگری کہا گیا ہے۔
اسی طرح 81 فیصد سے 85 فیصد نمبر لینے والے طلبہ کو ++B گریڈ دیا جائے گا، جسے بہترین (Excellent) قرار دیا گیا ہے، جب کہ 76 فیصد سے 80 فیصد تک نمبر لینے والوں کو +B گریڈ (Very Good) اور 71 فیصد سے 75 فیصد والوں کو B گریڈ (Good) دیا جائے گا۔
61 فیصد سے 70 فیصد والے طلبہ کو +C گریڈ دیا جائے گا، جسے کافی اچھا (Fairly Good) کہا گیا ہے، جب کہ 51 فیصد سے 60 فیصد والے C گریڈ حاصل کریں گے جو اوسط سے بہتر (Above Average) کیٹیگری میں شمار ہوگا۔
جو طلبہ 40 فیصد سے 50 فیصد کے درمیان نمبر حاصل کریں گے، انہیں D گریڈ دیا جائے گا، جسے ابھرتا ہوا (Emerging) درجہ دیا گیا ہے۔
ایف بی آئی ایس ای کے ایک عہدیدار کے مطابق آئی بی سی سی کے اجلاس میں ملک کے تمام تعلیمی بورڈز نے اس نئے گریڈنگ سسٹم اور پاسنگ مارکس فارمولا کو اپنانے پر اتفاق کیا ہے، تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا تمام بورڈز اسے عملی طور پر نافذ بھی کریں گے یا نہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: گریڈ دیا جائے گا حاصل کریں گے گریڈنگ سسٹم پاسنگ مارکس ایس ایس سی کے مطابق فیصد سے گیا ہے ایف بی ایس ای
پڑھیں:
ٹرمپ پالیسیوں کے بعد بھارتی طلبہ کی امریکا آمد میں 44 فیصد کمی ریکارڈ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت اقدامات نے بھارت طلبہ کے تعلیمی پروگراموں کو شدید متاچر کیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق کئی دہائیوں سے امریکی یونیورسٹیاں بھارتی طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا سب سے بڑا مرکز سمجھی جاتی تھیں، لیکن اب صورتحال ڈرامائی طور پر بدل گئی ہے۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اگست 2024 میں 71 ہزار بھارتی طلبہ امریکا پہنچے تھے، جبکہ اگست 2025 میں یہ تعداد گھٹ کر صرف 41 ہزار رہ گئی ، یعنی 44 فیصد کی نمایاں کمی۔ یہ تبدیلی نہ صرف بھارت کے لیے تشویش کا باعث ہے بلکہ خود امریکی تعلیمی ادارے بھی مالی نقصان سے دوچار ہیں۔
گزشتہ برس بھارتی طلبہ نے امریکی یونیورسٹیوں کو صرف فیس کی مد میں تقریباً 8 ارب ڈالر (تقریباً 22 کھرب 48 ارب پاکستانی روپے) ادا کیے تھے، لیکن صدر ٹرمپ نے اپنی نئی امیگریشن اور تعلیمی پالیسیوں کے ذریعے اس “تعلیمی ہنی مون” کا خاتمہ کر دیا۔
اطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کو یہ اندازہ ہو گیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی چالاک سیاست اور سفارتی برتری کا فائدہ امریکا کے تعلیمی نظام کو مالی طور پر تو پہنچ رہا ہے، مگر اس کے بدلے میں امریکا کو روزگار اور ویزا پالیسیوں پر دباؤ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
ٹرمپ نے سب سے پہلے اعلان کیا کہ بھارتی گریجویٹس اب تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکی کمپنیوں میں آسانی سے ملازمت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس کے بعد بھارتیوں کے پسندیدہ “ٹیک ویزا” کی فیس بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر کر دی گئی۔
مزید یہ کہ اب امریکی یونیورسٹیوں کو صرف 15 فیصد غیر ملکی طلبہ داخل کرنے کی اجازت ہوگی اور کسی بھی ملک سے زیادہ سے زیادہ 5 فیصد طلبہ ہی داخل کیے جائیں گے۔ ان پابندیوں نے بھارتی طلبہ کے لیے امریکا کے دروازے تقریباً بند کر دیے ہیں۔
تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ان فیصلوں سے امریکا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے، کیونکہ بھارتی طلبہ ہمیشہ سے فیس کی ادائیگی کے لحاظ سے سرفہرست رہے ہیں۔ اب جب وہ یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا اور مشرقی ایشیا کی جانب رخ کر رہے ہیں تو امریکی یونیورسٹیوں کے مالی استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔
بھارتی میڈیا میں اس معاملے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے جب کہ ٹرمپ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی صرف بھارت ہی نہیں بلکہ تمام ممالک پر یکساں لاگو ہوگی تاکہ امریکی طلبہ کو زیادہ مواقع دیے جا سکیں، تاہم بھارتی طلبہ میں شدید مایوسی پائی جا رہی ہے، جو برسوں سے امریکا کو اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ خوابوں کی منزل سمجھتے آئے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مودی اور ٹرمپ کے تعلقات میں پیدا ہونے والی سرد مہری نے بھی اس پالیسی کو متاثر کیا ہے۔ مودی حکومت کی سفارتی کوششیں بھی اب تک اس پابندی کو نرم نہیں کرا سکیں۔
اگر یہی رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں امریکا میں بھارتی طلبہ کی تعداد تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ سکتی ہے — جو بھارت کے لیے تعلیمی اور معاشی دونوں حوالوں سے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔