ماحولیاتی تبدیلیوں سے آنے والی آفات کا تسلسل بڑھ رہا جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے ، خطرات سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں، سینیٹر شیری رحمان
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 اکتوبر2025ء) نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی آفات کا تسلسل بڑھ رہا ہے جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے ، ہمیں چاہیے کہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔ بدھ کو 8اکتوبر 2005کے ہولناک زلزلے کی 20ویں برسی پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ اس زلزلے کو بیس سال گزر گئے اور متاثرین آج بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں، مشکل وقت میں ہم نے ثابت کیا کہ ہم مضبوط قوم ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی آفات کا تسلسل بڑھ رہا ہے جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے ساڑھے چھ لاکھ لوگ متاثر ہوئے،مجموعی طور پر 3856ارب روپے کا نقصان ہوا،زرعی زمین اور گھر تباہ ہوئے، روزگار اور بنیادی سہولیات بھی متاثر ہوئیں، چاول کپاس اور گنے کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ۔(جاری ہے)
شیری رحمان نے کہا کہ مضبوط اور مزاحمتی انفراسٹرکچر بنانا ہماری حفاظت کی بنیاد ہے،ہمیں چاہیے کہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔ان کا کہنا تھا کہ ریلیف کے نظام کو مزید تیز اور موثر بنانے کی ضرورت ہے، محفوظ عمارتیں اور انفراسٹرکچر بنانے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کرے کہ ہمارا ملک ہمیشہ محفوظ اور خوشحال رہے۔\932
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ
پڑھیں:
دل کی اقسام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے دلوں کی چار قسمیں بیان کی ہیں: 1۔قلب اجرد، یعنی صاف شفاف دل۔ یہ مومن کا دل ہوتا ہے، اس سے چراغ کی طرح روشنی پھوٹتی ہے۔ 2۔قلب اغلف، یعنی ڈھکا ہوا دل۔ یہ کافر کا دل ہوتا ہے۔ 3۔قلب منکوس، یعنی اوندھا دل۔ یہ منافق کا دل ہوتا ہے۔ وہ حق کو جان پہچان کر اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ 4۔قلب مُصْفَح، یعنی مخلوط دل۔ اس میں ایمان اور نفاق دونوں پایا جاتا ہے۔ اس میں ایمان کی مثال اس پودے کی ہوتی ہے جو اچھے پانی سے سیراب ہوکر پروان چڑھتا ہے اور نفاق کی مثال اس زخم کی سی ہوتی ہے جس میں پیپ اور گندے خون کی وجہ سے تعفن پیدا ہوتا رہتا ہے (احمد)۔
بارگاہ الٰہی میں ’قلب سلیم‘ مطلوب ہے، یعنی وہ دل جو ہر طرح کی آلائشوں اور گندگیوں سے پاک ہو، جس میں کفر و شرک، نفاق، معصیت اور فسق و فجور کا شائبہ نہ ہو۔ روزِ قیامت ایسے ہی دل کی قدر ہوگی۔ اس دن نہ آل و اولاد کام آئیں گے اور نہ مال و دولت سے کچھ نفع پہنچے گا۔ اس دن صرف ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے یہاں باریابی ملے گی جو ’قلب سلیم‘ کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ قرآن مجید میں ہے:
’’اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بہ جز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘ (الشعراء: 89)۔
ہم میں سے ہر ایک نے کبھی نہ کبھی اپنے گھر کی صفائی ضرور کی ہوگی۔ دوچار سال کے بعد گھر کے تمام سامان نکال کر صفائی کی جائے تو کیسا کوڑا کرکٹ نکلتا ہے؟ ردی کاغذ، خالی ڈبے، ٹوٹی چپلیں، پھٹے ہوئے جوتے، ٹوٹے ہوئے بلب کی کرچیاں، رسّی کے ٹکڑے، پلاسٹک اور شیشے کی شیشیاں۔ یہ سب چیزیں نکال دی جائیں تو گھر صاف ستھرا ہوجاتا ہے اور اسے دیکھ کر بڑی راحت، سکون اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔
اللہ کے رسولؐ نے دل کی پاکیزگی کو ایسی ہی صفائی سے تشبیہ دی ہے۔ ایک مجلس میں ایک شخص نے آپؐ سے دریافت کیا: سب سے اچھا انسان کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کل مخموم القلب صدوق اللسان۔ خُمامۃ عربی زبان میں جھاڑو سے نکالے گئے کوڑا، مٹی، کنکر پتھر کو کہتے ہیں۔ گھر میں جھاڑو لگانے کے بعد جو کوڑا کرکٹ اکٹھا ہوتا ہے اسے خمامۃ البیت اور کنویں کی صفائی کرنے پر اس کے اندر سے جو کوڑا، کچڑا، کنکر، پتھر، لکڑی وغیرہ کے ٹکڑے نکلتے ہیں انھیں خُمَامۃ البئر کہا جاتا ہے۔ مخموم سے مراد وہ جگہ ہے جو ہر طرح کی گندگی سے پاک ہو۔ اس حدیث میں آگے ہے کہ صحابۂ کرام نے دریافت کیا: صدوق اللسان کا مطلب تو ہم جانتے ہیں، یعنی وہ شخص جو ہمیشہ سچ بولتا ہو۔ یہ مخموم القلب کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
اس سے مراد وہ متقی، پاکیزہ شخص ہے جس کے دل میں نہ گناہ ہو، نہ باغیانہ رویّہ، نہ کینہ کپٹ، نہ بغض وحسد (ابن ماجہ)۔
گناہ، باغیانہ رویہ، بدگمانی، کینہ، بغض، حسد وغیرہ کی وہی حیثیت ہے جو کنکر پتھر، کیچڑ، کیل، کانٹے وغیرہ کی ہوتی ہے۔ جس طرح یہ چیزیں فرش کو گندا کردیتی ہیں اسی طرح یہ رذائل اخلاق دل کو پراگندہ کرتے ہیں۔ جو شخص اپنے دل کو ان چیزوں سے پاک کرلے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بہترین انسان ہے۔
دل میں مختلف طرح کے امراض پیدا ہوتے ہیں اور اسے مختلف عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے دلوں کو ان امراض و عوارض سے بچانا ہے اور ان کی پاکیزگی اور طہارت قائم رکھنی ہے۔
مولانا رضی الاسلام ندوی
گلزار