بازاروں میں ملاوٹی خوردنی اشیاء کی کثیر مقدار بی جے پی حکومت کی بڑی ناکامی ہے، دیویندر یادو
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
کانگریس لیڈر نے کہا کہ اگرچہ دہلی پولیس نے 2000 کلو نقلی گھی کی کھیپ پکڑی ہے، لیکن اسکے پیچھے کون لوگ ہیں اسکا انکشاف ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی کانگریس کمیٹی کے صدر دیویندر یادو نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہلی میں کھلے عام نقلی گھی، ملاوٹ شدہ مسالے، نقلی پنیر، کھویا اور دودھ سے بنی اشیاء کی فروخت براہِ راست دہلی کے شہریوں کی صحت پر اثر ڈال رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے براہِ راست بی جے پی کی دہلی حکومت ذمہ دار ہے۔ ہریانہ کے جیند سے نقلی گھی کی سپلائی معروف کمپنیوں ملک فوڈ، مدھوسودن، امول، مدر ڈیری، پتنجلی، آنندا کے پیکٹس میں دہلی کے روہنی تک پہنچ رہی ہے۔ اس کے پیچھے بڑے ریکیٹ کا اندیشہ ہے جس کا نام سامنے آنا چاہیئے، کیونکہ ہریانہ اور دہلی دونوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بی جے پی سرمایہ داروں کو تحفظ دینے والی پارٹی ہے۔
دیویندر یادو نے کہا کہ اگرچہ دہلی پولیس نے 2000 کلو نقلی گھی کی کھیپ پکڑی ہے، لیکن اس کے پیچھے کون لوگ ہیں اس کا انکشاف ہونا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا "میں نے وزیراعلیٰ ریکھا گپتا سے سوال کیا ہے کہ دہلی حکومت کا خوراک و رسد سیکورٹی محکمہ آخر کیا کر رہا ہے، جب دہلی میں کھلے عام ملاوٹ شدہ گھی، مسالے، پنیر اور دودھ سے بنی دیگر اشیاء بازاروں میں فروخت ہو رہی ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ 2 ہفتے قبل نوراتری کے دوران ملاوٹ شدہ کُٹّو کے آٹے سے بُراری جہانگوری علاقے میں تقریباً 200 لوگوں کو اسپتال جانا پڑا تھا، تب بھی کانگریس پارٹی نے دہلی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ آنے والے تہواروں میں ملاوٹ شدہ غذائی اشیاء پر سختی سے روک لگائی جائے تاکہ عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ نہ ہو۔ لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور دہلی میں بڑے پیمانے پر ملاوٹ شدہ گھی، تیل، پنیر اور دیگر اشیاء کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔
دیویندر یادو کا کہنا ہے کہ ملاوٹ شدہ اور جعلی سامان کا بازار میں دستیاب ہونا ایک سنگین معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت یہ جانتی ہے کہ تہواروں کے موسم میں ملاوٹ شدہ گھی، پنیر، کھویا، جعلی مسالے اور دیگر اشیاء کی فروخت بڑھ جاتی ہے، تو پہلے سے اقدام کیوں نہیں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دہلی کے بازاروں میں اتنی بڑی مقدار میں نقلی گھی دستیاب ہے، تو اس کے لئے سیدھے طور پر بی جے پی کی دہلی حکومت ذمہ دار ہے۔ دیویندر یادو کے مطابق حکومت کو چاہیئے کہ ملاوٹ شدہ اور نقلی اشیاء کے کاروبار چلانے والے سنڈیکیٹ کے خلاف سخت قوانین بنائے۔ جب تک سخت قوانین نہیں بنیں گے، تب تک نقلی سامان کے تاجروں پر لگام نہیں لگائی جا سکے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ دیویندر یادو دہلی حکومت ملاوٹ شدہ نقلی گھی بی جے پی
پڑھیں:
اندھیر نگری چَوپٹ راج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حکومت سندھ نے موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965 کی شق 121-اے کے تحت بارہویں شیڈول میں ترمیم کرتے ہوئے صوبے بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے اور ڈی میرٹ پوائنٹس کا نیا نظام نافذ کردیا ہے۔ سندھ کے سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، غلط سمت میں گاڑی چلانے، اوور لوڈنگ اور بغیر لائسنس ڈرائیونگ سمیت دیگر خلاف ورزیوں پر سخت کارروائی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اوور اسپیڈنگ پر موٹر سائیکل کے لیے پانچ ہزار، کار کے لیے 15 ہزار اور ہیوی ٹرانسپورٹ کے لیے 20 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا جب کہ 8 ڈی میرٹ پوائنٹس بھی شامل ہوں گے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے پر 50 ہزار روپے تک جرمانہ اور 6 پوائنٹس مقرر ہیں۔ سینئر وزیر کے بقول یہ اقدامات شہریوں کی جانیں بچانے اور روڈ سیفٹی یقینی بنانے کے لیے کیے گئے ہیں، حکومت کا مقصد صرف جرمانے وصول کرنا نہیں بلکہ شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ہے۔ دوسری جانب کراچی کے نجی ہوٹل میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی سندھ جناب غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ شہریوں کو قوانین پر عمل درامد کرنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ اصل تجویز میں لائسنس کی خلاف ورزی پر 100,000 روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا تھا، لیکن سندھ حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیا نظام کئی سال کی درخواستوں اور روڈ سیفٹی بہتر بنانے کے بعد نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ کراچی میں ٹریفک خلاف ورزیوں کو کم کیا جا سکے۔ حکومت ِ سندھ کے ان اقدامات اور فیصلے کے بعد کراچی میں ٹریفک پولیس نے ای چالان شروع بھی کردیا ہے، حکام کا کہنا ہے کہ جہاں بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، فوراً چالان کٹ جائے گا۔ نئے نظام کے تحت شہر بھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرہ سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے فوری کمپیوٹر ای چالان ہوجائیں گے۔ اس حکم نامے کی تعمیل میں کراچی ٹریفک پولیس نے انتہائی مستعدی سے شہریوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا ہے۔ ٹریفک پولیس جگہ جگہ ناکہ لگائے شہریوں کا چالان کر رہی ہے۔ سندھ حکومت کے ان عوام دشمن اقدامات کی وجہ سے کراچی کے شہری شدید غم و غصے اور اضطراب کا شکار ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے تمام اداروں اور سرکاری محکموں میں میرٹ کو نظر انداز کر کے بھرتیاں کی گئی ہیں، کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوان مجبوراً بائیکیا اور فوڈ پانڈچلانے پر مجبور ہیں ان کی روزانہ کی آمدنی اتنی بھی نہیں ہوتی کہ ان کی روزمرہ کی ضروریات پوری ہوں ایسے میں بھاری بھرکم جرمانہ کسی تازیانہ سے کم نہیں۔ ادھر سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے والدین کو پولیو ویکسین سے انکار کرنے پر سخت کارروائی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیو ویکسین سے انکار کرنے والوں کی موبائل سم، قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس منسوخ کردیے جائیں گے، انہوں نے چیف سیکرٹری کو سم، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا پلان تیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ ہے کہ سندھ حکومت کو عوام کے مسائل و مشکلات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں، کراچی کے عوام کے استحصال کے لیے سندھ حکومت کے تمام ہی ادارے باہم شیر و شکر ہوگئے ہیں، اگر وہ ایسی ہی چابکدستی اور مستعدی کا مظاہرہ کراچی کے تعمیر و ترقی، انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے دکھاتے تو آج کراچی کھنڈرات کا منظر نہ پیش کر رہا ہوتا اور نہ ہی پورے ملک میں ان کی کارکردگی کی بھد اڑائی جارہی ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کراچی مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے، امن و امان کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتی جارہی ہے، دن دہاڑے شہریوں کو لوٹا جارہا ہے، یہاں کی سڑکیں حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا منظر پیش کر رہی ہیں، انفرا اسٹرکچر تباہ وبرباد ہوچکا ہے، نہ ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہے نہ ہی شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے، ٹریفک کا پورا نظام درہم برہم ہے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہیں جن سے تعفن اٹھا رہا ہے، صفائی ستھرائی کی صورتحال انتہائی دگر گوں ہے۔ اس صورتحال پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر کا یہ کہنا بجا ہے کہ کراچی کی سڑکیں تباہ ہیں، ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں، مگر شہریوں کا چالان ہوگا اور بھاری جرمانے بھی، یہ سندھ حکومت کی کراچی دشمنی ہے، انفرا اسٹرکچر دیہات کے معیار کا بھی نہیں مگر جرمانے بین الاقوامی معیار کے! سندھ حکومت صرف کراچی کو نوچنا جانتی ہے کچھ دینا نہیں۔ شہر کراچی آج اندھیر نگری چوپٹ راج کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بااختیار افراد کا شہر کی تعمیر و ترقی سے دلچسپی کا حال یہ ہے کہ اگست کے مہینے میں میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اعلان کیا تھا کہ بارشوں سے متاثرہ 106 سڑکوں کی پیوند کاری اور استرکاری کا کام یکم ستمبر سے شروع کردیا جائے گا، جو 60 دن میں مکمل کر لیا جائے گا، اس کام کے لیے 75 کروڑ روپے بھی مختص کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ عوام بجٹ، ترقیاتی اسکیموں اور کام کے دائرۂ کار سے متعلق سوالات کے جوابات کے لیے کے ایم سی کی آفیشل ویب سائٹ کا معائنہ کر سکتے ہیں جہاں 106 سڑکوں کی تفصیلات، ٹھیکیداروں اور انجینئرز کے نام، کمپنی کی تفصیلات، حتیٰ کہ ایکس ای این کے واٹس ایپ نمبرز بھی موجود ہیں۔ مگر کراچی کی سڑکوں کی زبوں حالی مرتضیٰ وہاب کے تمام تر دعوؤں کی نفی کر رہی ہیں۔ آج بھی کئی اہم شاہراہیں استرکاری کے نام پر ادھیڑ کر تو رکھ دی گئی ہیں مگر پیوند کاری کا نام ونشان تک نہیں ہے، شہر کے اہم سڑکیں اور شاہراہیں بزبانِ حال میئر کراچی کی کارکردگی کا نوحہ پڑھ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے ہر کچھ ماہ بعد استرکاری کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ سڑکوں کی تعمیر یا پیوند کاری میں ناقص میٹریل استعمال ہی کیوں کیا جاتا ہے، آخر اس کے چیک اینڈ بیلنس کا ذمے دار کون ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ حکومت جان بوجھ کر شہریوں کو اذیت سے دوچار کر رہی ہے۔ روڈ سیفٹی یقینی بنانے کے اقدامات یقینا خوش آئند ہیں مگر یہ قوانین صرف جرمانے وصول کرنے اور شہریوں کو تنگ و حراساں کرنے کے لیے نہیں ہونے چاہییں، روڈ سیفٹی سے قبل سڑکیں بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، شہر کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی تعمیر و بحالی، امن وامان کی صورتحال کو بہتر اور شہریوں کو ٹرانسپورٹ، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں فراہم کیے بغیر ترقی یافتہ ممالک کی طرح محض قوانین کا نفاذ عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے، عوام پہلے ہی ان گنت مسائل سے دوچار ہیں اور یہ مسائل خود حکومت کے پیدا کردہ ہیں، عوام کے بنیادی مسائل حل کیے بغیر نئی جکڑ بندیاں پیدا کرنا دانشمندی نہیں اشتعال انگیزی ہے حکومت کو ایسی اشتعال انگیزی سے گریز کرنا چاہیے۔