پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنے مسائل حل کرکے آگے بڑھنا چاہیے، رانا ثناء اللہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے وفاقی اتحادی جماعتوں، (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی ، پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو ختم کریں اور سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے درمیان جاری تنازعے سے آگے بڑھیں۔
نجی ٹی وی سے گفتگوکرتےہوئے انہوں نے کہاکہ موجودہ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایک میز پر بیٹھ کر اپنے سیاسی اختلافات حل کرے، اور اُنہیں حل کر کے آگے بڑھنے کا راستہ نکالے۔
انہوں نے بظاہر اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ ادھر سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی’ اور مزید کہا کہ اگر سیاستدان اپنے معاملات خود حل کریں تو ’ وہ فریق مدد فراہم کرے گا‘۔
اس دوران اہم شخصیات — وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری — نے بھی تنازعات کم کرنے کی کوششوں میں کردار ادا کیا ہے۔ صدر زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے بھی کہا ہے کہ وہ مفاہمت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
جب رانا ثناء اللہ سے پوچھا گیا کہ آیا یہ تنازع اس حالیہ قیاس آرائی سے متعلق ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر ملک کے صدر بن سکتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ’ متعلقہ حلقوں’ نے ایسی تمام باتوں کو پہلے ہی ’رد ‘ کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کا ’ کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے، اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ اُن کی کوئی اور نیت یا منصوبہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ’ گھر چلے جائیں گے‘ اور ’ان کا وزیراعظم ہاؤس یا ایوانِ صدر آنے کا کوئی ارادہ نہیں‘۔
آرمی چیف نے بھی خود اس قسم کی قیاس آرائیوں کو مسترد کیا ہے کہ صدارتی یا وزارتی تبدیلیاں ہونے والی ہیں، اور ان افواہوں کو حکومتی نظام کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کی کارستانی قرار دیا ہے۔
جولائی میں یہ افواہیں زور پکڑ گئی تھیں کہ صدر آصف علی زرداری مستعفی ہو سکتے ہیں، جس سے ممکنہ طور پر آرمی چیف کے صدر بننے کا راستہ کھل سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام کو ختم کر کے صدارتی نظام لانے پر کام ہو رہا ہے۔ بعض رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ صدر زرداری نے اپنے استعفے کے لیے ایک شرط رکھی ہے کہ اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو نئے سیٹ اپ میں اہم کردار دیا جائے۔
تاہم، ان تمام افواہوں کو محسن نقوی نے دو مرتبہ اور فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ’ بے بنیاد ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا رمی چیف انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
ہم مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرینگے، بھارتی وزیر خارجہ
ایس جے شنکر نے کہا کہ ہمیں ایسی مفاہمتی زمین تلاش کرنی ہے، جہاں بھارت کی پالیسی حدود کا احترام ہو، مارچ سے ہی اس پر بات چیت جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کے بیچ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے واضح کیا کہ کسی بھی ممکنہ تجارتی معاہدے میں بھارت کی "لکشمن ریکھا" یعنی خودمختاری، قومی مفادات اور پالیسی حدود کا احترام کیا جانا لازمی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مفاہمت کی بنیاد تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جے شنکر نے کوٹیلیہ اکنامک انکلیو میں "افراتفری کے دور میں خارجہ پالیسی کی نوعیت" پر ایک پروگرام سے خطاب کر رہے تھے۔ بعد ازاں پریس کانفرنس میں انہوں نے بھارت-امریکہ تجارتی تعلقات میں درپیش مسائل اور حل کی کوششوں پر تفصیل سے بات کی۔
ایس جے شنکر نے کہا کہ آج ہمارے امریکہ کے ساتھ کچھ مسائل ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی تجارتی بات چیت میں کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں، اور ایسا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے، ہندوستان پر ایک مقررہ ٹیرف عائد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ایک دوہرا ٹیرف ہے، جسے ہم عوامی طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہم اسے انتہائی غلط سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیرف ہمیں روس سے خام تیل خریدنے کے لئے نشانہ بنایا جارہا ہے، جب کہ بہت سے دوسرے ممالک بھی ایسا ہی کر رہے ہیں، جن میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کے روس کے ساتھ اس وقت ہمارے مقابلے میں ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔
نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات اس وقت سے سخت تناؤ کا شکار ہیں جب امریکی صدر ٹرمپ نے ہندوستانی اشیاء پر محصولات کو دوگنا کرکے 50 فیصد کردیا تھا۔ اس میں ہندوستان کی روسی خام تیل کی خریداری پر اضافی 25 فیصد ٹیرف شامل ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حالیہ مہینے میں نریندر مودی اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد، دونوں ممالک نے تجارتی معاہدے پر پیشرفت کی کوششیں دوبارہ شروع کی ہیں۔ ایس جے شنکر نے کہا کہ ہمیں ایسی مفاہمتی زمین تلاش کرنی ہے، جہاں بھارت کی پالیسی حدود کا احترام ہو، مارچ سے ہی اس پر بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ تجارتی مسائل کا تعلق باہمی تعلقات کے ہر پہلو سے نہیں ہے۔