پاکستان میں لاکھوں بچے آج بھی تعلیم کے حق سے محروم ہیں، سرکاری اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق ملک بھر میں قریباً 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہ تعداد نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ شمار کی جاتی ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے، جو سماجی رکاوٹوں، غربت، رسومات اور بنیادی سہولیات کی کمی کے باعث تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔

ایسے حالات میں ایک نام جو بار بار سامنے آتا ہے وہ ملالہ یوسف زئی کا ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کی۔

یہ بھی پڑھیں: جنوبی وزیرستان میں 90 فیصد سرکاری اسکول بند

2012 میں طالبان کے حملے کے بعد جب ملالہ کو عالمی توجہ ملی، تب سے انہوں نے اپنی آواز کو تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل انعام یافتہ بنیں اور ان کی جدوجہد نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔

’ملالہ یوسف زئی نے 2013 میں ملالہ فنڈ کے نام سے تنظیم قائم کی‘

ملالہ یوسف زئی نے 2013 میں ’ملالہ فنڈ‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد دنیا بھر میں بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کو 12 سال کی معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کرنا ہے۔

پاکستان میں یہ فنڈ مختلف منصوبوں کے ذریعے سرگرم عمل ہے، جن میں مقامی سطح پر تعلیمی کارکنوں کی مالی اور فنی معاونت، اسکولوں کی بحالی اور تعلیمی پالیسیوں پر تحقیق شامل ہے۔

ملالہ فنڈ کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، سندھ اور پنجاب میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے کئی منصوبے جاری ہیں۔

فنڈ نے ایسے علاقوں میں اسکولوں کی تعمیر نو اور اساتذہ کی تربیت میں مدد دی ہے جہاں تعلیمی ڈھانچے کو شدت پسندی یا عدم توجہی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ فنڈ لڑکیوں کے لیے تعلیمی وظائف اور سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی کام کررہا ہے۔

کورونا وائرس کے دوران جب اسکول بند تھے تو ملالہ فنڈ نے ڈیجیٹل تعلیم کے فروغ پر بھی کام کیا تاکہ لڑکیاں گھروں میں رہتے ہوئے تعلیم جاری رکھ سکیں۔ اس میں آن لائن کلاسز، ریڈیو پروگرامز اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع شامل تھے۔

اگرچہ ملالہ اور ان جیسے دیگر افراد کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں، مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ صرف انفرادی یا غیر سرکاری سطح پر کی جانے والی کوششیں اس بحران کا مکمل حل نہیں ہو سکتیں۔

پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو ایک مضبوط، مربوط اور طویل مدتی حکومتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ صرف اسکول بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، جب تک وہاں معیاری تعلیم، تربیت یافتہ اساتذہ اور ضروری سہولیات موجود نہ ہوں۔

تعلیم ہر بچے کا حق ہے، ملالہ یوسف زئی کا زور

ملالہ کئی بار اس بات پر زور دے چکی ہیں کہ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے، اور اس حق کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک بچی، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو بدل سکتے ہیں، تو ہمیں ان کے لیے راستہ ہموار کرنا ہوگا۔

پاکستان میں لاکھوں بچوں کا تعلیمی مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔ لیکن اگر حکومتی ادارے، سماجی تنظیمیں اور مقامی کمیونٹیز مل کر کام کریں تو یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا حکومت کا ’علم پیکٹ پروگرام‘ کیا ہے؟

ملالہ نے جو شمع جلائی ہے، اسے ہر گاؤں، ہر بستی اور ہر گھر تک پہنچانا وقت کی ضرورت ہے۔ تعلیم صرف ایک ذاتی کامیابی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی فلاح کا راستہ ہے، جو صرف کوشش نہیں بلکہ عزم اور عمل مانگتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسکولوں سے باہر پاکستان بچے تعلیمی ادارے تعلیمی ایمرجنسی حکومت پاکستان ملالہ فنڈ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسکولوں سے باہر پاکستان بچے تعلیمی ادارے تعلیمی ایمرجنسی حکومت پاکستان ملالہ فنڈ وی نیوز ملالہ یوسف زئی پاکستان میں ملالہ فنڈ تعلیم کے کے لیے

پڑھیں:

ماحولیاتی بحران اور اس کے عالمی مضمرات

دنیا کے شمالی نصف کُرے میں وہ خطے، جنھیں کبھی صنعتی ترقی، ٹیکنالوجیکل برتری اور حکمرانی کے عالمی ماڈل کی حیثیت حاصل تھی، آج موسمیاتی تبدیلی کے ایسے بحران سے گزر رہے ہیں جس سے ان کے اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام ہل کر رہ گئے ہیں۔

امریکا سے لے کر یورپ، اور برطانیہ سے آرکٹک تک، موسمیاتی تبدیلی اب کسی مستقبل کا خطرہ نہیں رہی، یہ ایک روزانہ کی حقیقت ہے، جو انسانی زندگی، قومی سلامتی، معیشت اور عالمی توازن تک کو تبدیل کر رہی ہے۔

اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ جب احتساب کا وقت آیا ہے توکیا مغربی دنیا خود اس بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اگر نہیں، تو اس کے جھٹکے پاکستان اور گلوبل ساؤتھ کو کس طرح متاثر کریں گے؟

 امریکا میں 2024/25کے تین برس مسلسل ایسے رہے کہ کئی ریاستیں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت کو ریکارڈ کرتی رہیں۔ ’’ ہیٹ ڈوم ‘‘ ناقابلِ برداشت گرمی کو کئی دنوں تک علاقے پر جما دیتا ہے اور نہ بجلی کا نظام اسے برداشت کر پاتا ہے، نہ ہی انسانی جسم۔

یہ تین حقائق امریکا کے بحران کو واضح کرتے ہیں کہ شدید گرمی سے اموات جنگلاتی آگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس سے کم آمدنی والے طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ایئرکنڈیشننگ کی سہولت نہ رکھنے والے لوگ ان ’’ خاموش ہلاکتوں‘‘ کا بڑا حصہ بنتے ہیں۔

کیلیفورنیا، اوریگن اور نیواڈا میں جنگلاتی آگ اب سیزن کے تابع نہیں رہی، وہ سال کے کسی بھی مہینے پھوٹ پڑسکتی ہے۔ تازہ ترین تحقیق بتاتی ہے کہ انسانی سرگرمی نے مغربی امریکا میں’’ میگا فائرز‘‘ کا خطرہ تین گنا بڑھا دیا ہے۔

خشک سالی، شدید گرمی، تیز ہوائیں مل کر ایک ایسا ماحولیاتی ’’پرفیکٹ اسٹورم ‘‘ تشکیل دے رہی ہیںجو قابو سے باہر ہے۔

یہ ماحولیات کا مسئلہ کم اور ماحولیاتی انصاف (Climate Justice) کا مسئلہ زیادہ بنتا جا رہا ہے،کیونکہ بدترین گرمی غریب اور پسماندہ آبادیوں کو نشانہ بناتی ہے جب کہ امریکی انفرا اسٹرکچرگرم مستقبل کے لیے بنایا ہی نہیں گیا۔

دوسری جانب بیمہ کمپنیاں آگ اور طوفان زدہ علاقوں سے باہر نکل رہی ہیں، جس سے گھر بیچنا تک مشکل ہوجاتا ہے۔

یورپ کے اہم دریا رائن، ڈینیوب، پو جن پر زراعت، تجارت اور توانائی کا پورا نظام کھڑا ہے جو مسلسل کم بہاؤ کا شکار ہیں۔ جس کے نتیجے میں زراعت میں 30/40 فیصد تک کمی، شپنگ لائنز کے راستے متاثر، خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور صنعتی پیداوار سست ہونے کے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

الپس میں برف تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ سائنسی ماڈل کہتے ہیں کہ2050 تک یورپی گلیشیئرزکا نصف حصہ ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے سیاحت، پانی اور توانائی تینوں بڑے شعبے خطرے میں پڑجائیں گے۔

پچھلے دو سال میں یورپ نے سیکھا کہ گرین ٹرانزیشن چاہے جتنی ضروری ہو، مگرگیس کی عدم دستیابی، سردیوں میں ایندھن کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتیں پورے براعظم کو غیر معمولی دباؤ میں ڈال دیتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی نے یورپ کے لیے ایک نئی حقیقت لکھ دی ہے کہ اب بحران صرف موسم کا نہیں، توانائی کے وجود کا بھی ہے۔

برطانیہ نے 2024 کی قومی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ اس وقت 6.3 ملین گھر سیلاب کے خطرے میں ہیں۔2050 تک یہ تعداد بڑھ کر 8 ملین ہو سکتی ہے، یعنی ہر چوتھا گھر۔ یہ بحران صرف موسمی نہیں معاشی، سماجی اور جغرافیائی ہے۔

انگلینڈ کی مشرقی ساحلی پٹی دنیا کی تیزی سے کٹتی ہوئی لائنوں میں شامل ہے۔ اندازے کے مطابق 2055 تک 3,500 گھر براہ راست سمندری کٹاؤ میں ضایع ہونے کے خطرات سے دوچار ہوں گے، جس کی وجہ سے کئی ساحلی قصبے نقشے سے مٹ سکتے ہیں۔

دوسری جانب ثقافتی ورثہ بھی خطرے میں ہے۔ ایڈنبرا کیسل سے لے کر تاریخی لائٹ ہاؤسز تک، برطانوی شناخت کے نشانات پانی اورکٹاؤ کے سامنے کمزور پڑ رہے ہیں۔

مغرب نے ماحولیاتی قیادت کا دعویٰ کیا ہے، لیکن حقیقت چند کمزوریوں سے پردہ اٹھا رہی ہے کیوں کہ کاربن نیوٹرل کا نعرہ لگایا جا رہا ہے، مگر تیل و گیس پر سبسڈیز بھی برقرار ہیں۔ یہ تضاد بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔ کلائمیٹ فنانس میں وعدے پورے نہیں کیے جا رہے ہیں۔

گلوبل ساؤتھ کو ہر سال 100 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا، مگر رقم مکمل نہیں پہنچی، پاکستان جیسے ممالک اس کا سب سے بڑا نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ماحولیاتی انصاف کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔

امریکا میں سیاہ فام، ہسپانوی اور غریب کمیونٹیز سیلاب اورگرمی کا سب سے بڑا نقصان اٹھا رہی ہیں۔ مغربی دنیا کا انفرا اسٹرکچر پرانی دنیا کا ہے جب موسمیاتی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ مغربی فنِ تعمیر اور سڑکیں اس موسمی شدت کے لیے بنائی ہی نہیں گئیں جو اب روز کا معمول بنتی جا رہی ہے۔

 یورپ کی خشک سالی اور امریکا کی گرمی عالمی زرعی قیمتیں بڑھا رہی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک مزید مہنگائی کا شکار ہوں گے، اگر مغرب اپنے داخلی بحران میں پھنس جاتا ہے تو پاکستان کو گرین فنڈنگ، ٹیکنالوجی اور موسمیاتی مدد مزید کم ہو سکتی ہے۔

سمندری سطح میں ہونے والے اضافے کے نتیجے میں کراچی، ٹھٹھہ اورگوادر خطرے میں ہیں۔ برطانیہ کے ساحلی ماڈل اور سیلابی نقشے پاکستانی ساحلی علاقوں کے لیے بھی انتباہ بن رہے ہیں۔ عالمی سیاست میں’’ کلائمیٹ سیکیورٹی ‘‘ کا نیا تصور ابھرکر سامنے آرہا ہے۔

اب موسمیاتی تبدیلی قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے، پانی، خوراک، توانائی، سرحدی ہجرت سب اس سے جڑتے جا رہے ہیں۔

مغرب اس وقت ایسے موسمیاتی طوفان میں ہے جسے اس نے خود جنم دیا، مگر اب وہی طوفان اس کی سیاسی معیشت کو کمزورکررہا ہے، مگر اصل سوال یہ نہیں کہ مغرب کیا کرے گا؟

اصل سوال یہ ہے کہ اس کی قیمت کون چکائے گا؟ گلوبل ساؤتھ اور پاکستان پہلے ہی اس بحران کے اثرات کا بوجھ اٹھا رہے ہیں جب کہ ہماری کاربن شراکت دنیا کی مجموعی آلودگی کا 1 فیصد سے بھی کم ہے۔

پاکستان کے لیے یہ وقت دو اقدامات اٹھانے کا ہے۔ گرین ڈپلومیسی میں تیزی لانا اورکلائمیٹ ایمرجنسی کو قومی سلامتی کے طور پر دیکھنا کیونکہ موسمیاتی بحران اب عالمی شمال اور جنوب، امیر اور غریب، طاقتور اورکمزور ، سب کے درمیان ایک نئی سیاسی لکیرکھینچ رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی طیاروں کا بحران: جنگ سے ایئر شو تک
  • ’’امریکہ‘‘ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر میں نیلام ہو گیا
  • جی 20کے ارب پتیوں کی سالانہ آمدن بھوک کے خاتمے کے لیے کافی
  • ماحولیاتی بحران اور اس کے عالمی مضمرات
  • سونے سے بنا فعال ٹوائلٹ 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالر میں نیلام
  • سونے سے تیار کردہ فعال ٹوائلٹ 1.2 کروڑ ڈالر میں فروخت
  • طالبان کے حملے کے بعد ذہنی مسائل کا سامنا کیا، ملالہ
  • حیدرآباد، تنظیم اساتذہ کے تحت استحکام پاکستان کانفرنس کا انعقاد
  • ملکی زرمبادلہ ذخائر 19 ارب 73 کروڑ ڈالر ہوگئے، اسٹیٹ بینک
  • ملکی زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ریکارڈ؛ 19 ارب 73 کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے