غزہ میں جنگ بندی نافذ، اسرائیلی افواج پیچھے ہٹ گئیں، شہریوں کا جشن
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ نافذ ہو گیا ہے۔ فوج کے مطابق اسرائیلی دستے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت دوپہر 12 بجے (مقامی وقت) تک طے شدہ مقامات تک واپس چلے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:نوبیل امن انعام 2025 کا اعلان آج، غزہ ڈیل میں تاخیر ٹرمپ کے لیے نقصان کا باعث بن گئی
آئی ڈی ایف کے بیان میں کہا گیا کہ فوجی دستوں نے جنگ بندی معاہدے کی تیاری کے طور پر اپنی نئی تعیناتی لائنوں پر پوزیشن سنبھال لی ہے اور مغویوں کی واپسی کے لیے اقدامات جاری ہیں۔
تاہم فوج نے واضح کیا کہ جنوبی کمان کے دستے اب بھی علاقے میں موجود رہیں گے اور کسی فوری خطرے کو ختم کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
پہلا مرحلہ مکمل، قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوگااسرائیلی حکومت نے جنگ بندی معاہدے کے ’پہلے مرحلے‘ کی منظوری دی تھی، جس کے تحت آئی ڈی ایف کو 24 گھنٹوں میں واپسی کا عمل مکمل کرنا تھا۔
معاہدے کے اگلے مرحلے میں حماس 72 گھنٹوں کے اندر تمام زندہ اسرائیلی مغویوں کو رہا کرے گی، جب کہ اسرائیل 250 فلسطینی عمر قید قیدیوں اور 1,700 غزہ کے زیرِ حراست افراد، جن میں تمام خواتین اور نابالغ شامل ہیں، کو آزاد کرے گا۔
روسی میڈیا ذرائع کے مطابق غزہ میں اب بھی 48 اسرائیلی مغوی موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔
ٹرمپ کا امن منصوبہ اور حماس کا ردِعملیہ جنگ بندی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت عمل میں آئی ہے، جس میں مرحلہ وار مگر مکمل اسرائیلی انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا، اور ایک عبوری بین الاقوامی انتظامیہ کا قیام شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب کا غزہ جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم
اس منصوبے کے تحت غزہ کو مزاحمت کاروں پاک زون بنانے کی تجویز دی گئی ہے، جس میں حماس کو حکومت سے باہر رکھا جائے گا۔
حماس کے سینیئر رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی رات اعلان کیا کہ غزہ کی جنگ ختم ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے سے ایک مستقل جنگ بندی کی راہ ہموار ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن اور دیگر ثالث ممالک کی جانب سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ دوبارہ لڑائی نہیں ہوگی۔
غزہ کی سڑکوں پر شہریوں نے فلسطینی پرچم اٹھا کر جنگ بندی کے نفاذ پر جشن منایا، جبکہ عالمی رہنماؤں نے اس پیش رفت کو خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک “امید افزا آغاز” قرار دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اسرائیلی فوج امریکا جنگ بندی غزہ غزہ جشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اسرائیلی فوج امریکا کے لیے کے تحت
پڑھیں:
شکست خوردہ امریکہ کو پیچھے چھوڑتی دنیا اور اقتصادی ’’مرکزِ ثقل‘‘ سے دور ہوتا امریکا
اسلام ٹآئمز: واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس میکس بوٹ نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک "یاغی ریاست" بن چکا ہے اور اب قابلِ اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی بات کی تائید میں کئی دلائل دیے کہ یوکرین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ اس کا پہلا مظہر ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کیف کو الٹی میٹم دیا ہے کہ یا تو وہ ایک انتہائی روس نواز امن منصوبہ قبول کرے ورنہ وہ امریکی حمایت کھو دے گا۔ یہ اقدام خود ٹرمپ کی پارٹی کے ریپبلکن اراکین کو بھی ناراض کر رہا ہے۔ اسی طرح کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ دوسری مثال ہے۔ خصوصی رپورٹ:
ایک امریکی اخبار نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وہ "دور ما بعد امریکہ" (Post-American Era)، جس کی پیشگوئی پہلے تجزیہ کار پہلے ہی کر رہے تھے، اب اس کا وقت آ چکا ہے۔ اپنی رپورٹ میں امریکی جریدے نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’دور ما بعد امریکہ‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس تجزیے کی بنیاد اس بات کو قرار دیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت ایک ایسے سالانہ اجلاس سے مکمل غیر حاضر رہی جو ہمیشہ سے مغربی جمہوریتوں کے درمیان تزویراتی تعاون کو مضبوط کرنے کا اہم ترین فورم سمجھا جاتا ہے۔
تجزیئے کے مطابق اس سال ہالیفاکس بین الاقوامی سلامتی کانفرنس ایک بالکل مختلف ماحول میں منعقد ہوئی، جہاں ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت اور امریکی فوج کی مکمل غیر موجودگی، اور امریکی صدر ٹرمپ کی امریکہ سب سے پہلے جیسی پالیسیوں سے واشنگٹن کے روایتی اتحادیوں کی گہری مایوسی اور نا امیدی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال نہ ٹرمپ انتظامیہ کا کوئی اعلیٰ اہلکار اور نہ ہی پینٹاگون کا کوئی جنرل یا ایڈمرل ہالیفاکس میں دکھائی دیا۔ امریکہ کی واحد باضابطہ نمائندگی سینیٹ کے دو جماعتی وفد نے کی، لیکن ان ریپبلکن اراکین کو بھی شرکاء کی جانب سے ٹرمپ پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس میکس بوٹ نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک "یاغی ریاست" بن چکا ہے اور اب قابلِ اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی بات کی تائید میں کئی دلائل دیے کہ یوکرین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ اس کا پہلا مظہر ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کیف کو الٹی میٹم دیا ہے کہ یا تو وہ ایک انتہائی روس نواز امن منصوبہ قبول کرے ورنہ وہ امریکی حمایت کھو دے گا۔ یہ اقدام خود ٹرمپ کی پارٹی کے ریپبلکن اراکین کو بھی ناراض کر رہا ہے۔ اسی طرح کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ دوسری مثال ہے۔ کینیڈین مصنوعات پر پہلے سے نافذ 35 فیصد محصولات میں مزید 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا، یوں اب کینیڈا اپنے ایک اہم ترین اتحادی کی جانب سے 45 فیصد تک ڈیوٹی کا سامنا کر رہا ہے۔
یہ شرح یورپ، جنوبی کوریا اور جاپان پر عائد 15 فیصد محصولات سے کہیں زیادہ ہے اور اس نے کینیڈا کو معاشی کساد بازاری کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جواب میں اوٹاوا نے جوابی محصولات لگائے، امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا، اور یہاں تک کہ امریکی ایف-35 جنگی طیاروں کی خرید منسوخ کرنے اور انہیں سویڈش گریپن طیاروں سے بدلنے پر بھی غور کیا۔ اس کے بعد امریکہ کا سفارتی میدان سے غائب ہونا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ٹرمپ حکومت نہ صرف ہالیفاکس اجلاس سے غیر حاضر رہی بلکہ انہوں نے جنوبی افریقہ میں ہونے والی جی-20 کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کیا۔
مصنف سوال کرتا ہے کہ جب امریکہ خود ہی میدان میں موجود نہیں تو اسے سفارتی کامیابی کی امید کیسے ہو سکتی ہے؟۔ گروپ 20 اجلاس میں کینیڈا کے وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کی غیر موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا مختلف معاملات میں واشنگٹن کے بغیر بھی پیش رفت کر سکتی ہے۔ واشنگٹن نے اعلان کیا تھا کہ جی-20 اجلاس کے دوران امریکہ کی غیر حاضری میں کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ کیا جائے، لیکن جنوبی افریقہ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے مکمل اعلامیہ جاری کیا۔ اس کا نتیجہ نکلا ہے کہ امریکی اتحادیوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اسی لئے ہالیفاکس کی سالانہ سلامتی کانفرنس میں کینیڈا اور یورپ کے شرکاء نے واضح طور پر کہا کہ اب وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے پہلے دور میں بہت سے لوگ اسے ایک عارضی پالیسی سمجھتے تھے، لیکن اب کوئی بھی ایسی امید نہیں رکھتا۔ اب ایک نیا سناریو شروع پو چکا ہے۔ یعنی امریکہ کے بغیر مغرب میں سامنے آتا نیٹو۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ "بعد از امریکہ دنیا" جس کی فرید زکریا نے 2008 میں پیشگوئی کی تھی، اب واقعی سامنے آ چکی ہے۔ وہ عالمی جمہوری اتحاد کا خواب جسے جان مکین برسوں تک اسی ہالیفاکس فورم میں فروغ دیتے رہے، اب غالباً امریکہ کی عدم موجودگی میں، یورپ اور ایشیائی جمہوریتوں کی قیادت میں آگے بڑھایا جائے گا۔
اقتصادی ’’مرکزِ ثقل‘‘ سے دور ہوتا امریکا:
کینیڈا کے وزیرِاعظم نے جی-20 اجلاس کے حاشیے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی ’’مرکزِ ثقل‘‘ بھی امریکا سے دور ہو رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی افریقہ پر سفید فام کسانوں کے خلاف نسل کشی کا الزام لگایا تھا اور اپنی غیرحاضری کی وجہ بھی یہی بیان کی تھی۔ واشنگٹن نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ چونکہ امریکہ شریک نہیں ہوگا، لہٰذا اجلاس کے بعد صرف گروپ کے سربراہ کی رپورٹ کا خلاصہ ہی جاری کیا جانا چاہیے۔ تاہم، جی-20 نے اتوار کے روز ایک باضابطہ اعلامیہ جاری کیا کہ عالمی مرکزِ ثقل تبدیل ہو رہا ہے۔ کارنی نے کہا کہ اجلاس میں وہ ممالک شریک تھے جو دنیا کی تین چوتھائی آبادی، دو تہائی عالمی جی ڈی پی اور دنیا کی تین چوتھائی تجارت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
لیکن امریکہ کے بارے میں انہون نے کہا کہ یہ سب امریکا کی رسمی غیر موجودگی کے باوجود جاری ہے اور جاری رہیگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ یاد دہانی ہے کہ عالمی معیشت کا مرکزِ ثقل تبدیل ہو رہا ہے۔ کینیڈا کے وزیرِاعظم کے مطابق جی-20 ممالک کے وہ فیصلے جو اس اجلاس میں کیے گئے، امریکا کے بائیکاٹ کے باوجود بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈا جنوبی افریقہ، بھارت اور چین سمیت مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روسی صدر کے معاون ماکسیم اورشکین نے اس اجلاس کو کامیاب قرار دیا کہ ہم نے دوست ممالک کے ساتھ بہت سے مفید رابطے قائم کیے اور یہاں تک کہ ’’غیر دوست‘‘ ممالک سے بھی اقتصادی تعاون اور مشترکہ منصوبوں کے حوالے سے تجاویز موصول ہوئی ہیں۔