ای او بی آئی، مستقل چیئرمین کے بجائے ایک برس سے جونیئر اور متنازعہ افسر چیئرمین کے منصب پرفائز
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 اکتوبر2025ء) وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں وزارت کی ملی بھگت سے کوئی مستقل چیئرمین تعینات کئے جانے کے بجائے ادارہ کے ایک جونیئر اور انتہائی متنازعہ افسر ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کو چیئرمین کے اعلی منصب پر مسلط کردیا گیا ہے۔
جبکہ قانون کے مطابق کسی بھی افسر کو چھ ماہ سے زائد مدت کا اضافی چارج نہیں دیا جاسکتا اس صورت حال کے نتیجہ میں ادارہ کے روزمرہ انتظامی اور مالی امور بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق پچھلے برس 18 ستمبر کو ای او بی آئی کے چیئرمین فلائٹ لیفٹیننٹ(ر)خاقان مرتضی ( گریڈ 21 PAS )کی ریٹائرمنٹ کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے ان کی جگہ کوئی مستقل چیئرمین تعینات کرنے کے بجائے اس وقت کے وفاقی سیکریٹری اور ای او بی آئی بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ڈاکٹر ارشد محمود نے پس پردہ مقاصد کے تحت اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ای او بی آئی کے ایک جونیئر اور انتہائی متنازعہ افسر ڈاکٹر جاوید احمد شیخ، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن برائے سندھ و بلوچستان کو محدود اختیارات کے ساتھ ادارہ کے روزمرہ امور کی دیکھ بھال کے لئے منتظم کے اضافی چارج سے نواز دیا تھا،جو کہ رول آف بزنس 1973 اور سپریم کورٹ کے احکامات کے منافی ہے۔(جاری ہے)
ستم بالائے ستم یہ کہ ادارہ کے سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز نے بھی غیر قانونی طور پر اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے 135 ویں اجلاس بتاریخ 20 مارچ 2024 کو ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کو کسی مستقل چیئرمین کی تعیناتی ہونے تک قائم مقام چیئرمین کے اختیارات تفویض کرنے کی مہر ثبت کردی تھی۔ حالانکہ ای او بی ایکٹ 1976 کی دفعہ 8(A) کے تحت صرف وفاقی حکومت کو گریڈ 21 یا 22 کے گزیٹڈ افسر کو چیئرمین ای او بی آئی کے منصب پر تقرری کا اختیار حاصل ہے۔ جیسا کہ ماضی میں ای او بی آئی کے تمام چیئرمین کی تقرریاں عمل میں آتی رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر جاوید احمد شیخ ایمپلائی نمبر 920967،ڈائریکٹر آپریشنز کو 23 دسمبر 2023 کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز کے عہدہ پر ترقی دی گئی تھی وہ ابھی آزمائشی مدت پر تھے کہ حیرت انگیز طور پر انہیں ایک برس کی آزمائشی مدت مکمل کئے بغیر یکم اکتوبر 2024 کو ادارہ کا قائم مقام چیئرمین مقرر کردیا گیا۔ جس پر ای او بی آئی کے حلقے انگشت بدنداں رہ گئے۔باخبر ذرائع کے مطابق ای او بی آئی میں ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کا کیریئر ابتدا ہی سے خاصہ متنازعہ رہا ہے۔ دستاویزات کے مطابق وہ13 جولائی 1998 کو اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن سے غیر قانونی طور پر ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر لائے گئے تھے اور ان کے طاقت ور سرپرستوں نے انہیں ای او بی آئی میں میڈیکل افسر کی حیثیت سے تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔لیکن بعد ازاں ڈاکٹر جاوید احمد شیخ اپنے بھاری اثرورسوخ کی بدولت ادارہ کے متعدد سینئر افسران کی حق تلفی کرکے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نا صرف ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہو گئے تھے بلکہ ای او بی آئی میں سونے کی چڑیا سمجھے جانے والے آپریشنز کیڈر میں انتہائی کلیدی عہدہ پر اپنی تعیناتی کرانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔اس سلسلہ میں ای او بی آئی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق افسر تعلقات عامہ اسرار ایوبی نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ چیئرمین ای او بی آئی کا عہدہ انتہائی وسیع اختیارات کا حامل ہے، کیونکہ ای او بی آئی کا چیئرمین بربنائے عہدہ ای او بی آئی کے اربوں روپے مالیت کے تعمیراتی منصوبوں کے ذیلی ادارہ پاکستان رئیل اسٹیٹ انوسٹمنٹ اینڈ منجمنٹ کمپنی (PRIMACO) اسلام آباد کا چیئرمین کے علاوہ ای او بی آئی اپیلیٹ اتھارٹی کا سربراہ اور بورڈ آف ٹرسٹیز کا رکن بھی ہوتا ہے اور اس پر ہزاروں رجسٹرڈ آجروں سے اربوں روپے مالیت کے کنٹری بیوشن کی وصولیابی، پنشن فنڈ کے منافع بخش سرمایہ کاری منصوبوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری اور ہر ماہ ملک بھر میں پانچ لاکھ پنشنرز میں اربوں روپے کی پنشن کی تقسیم کی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈاکٹر جاوید احمد شیخ او بی آئی میں او بی آئی کے مستقل چیئرمین اربوں روپے چیئرمین کے کے مطابق ادارہ کے
پڑھیں:
کراچی میں پولیس افسر کی 22 سالہ بیٹی کی کنپٹی پر گولی لگی لاش برآمد
شہر قائد کے علاقے ملیر میمن گوٹھ میں فلیٹ سے نوجوان لڑکی کی کنپٹی پر گولی لگی لاش برآمد ہوئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ملیر میمن گوٹھ میں واقع فلیٹ سے نوجوان لڑکی کی لاش ملنے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے موقع پر پہنچ کر وقوعہ کو سیل کر کے کرائم سین کو طلب کیا۔
بعدازاں متوفیہ کی لاش کو ضابطے کی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کیا۔
ایس ایچ او میمن گوٹھ جاوید ابڑو نے بتایا کہ متوفیہ کی شناخت 22 سالہ ثمرین دختر واجد کے نام سے کی گئی جبکہ ابتدائی تحقیقات میں واقعہ خود کو کنپٹی پر گولی مار کر خودکشی بتایا جا رہا ہے۔
تاہم متوفیہ کی لاش ضابطے کی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کر دی ہے۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے ملنے والا پستول اپنے قبضے میں لے لیا ہے جو کہ متوفیہ کے والد کا بتایا جاتا ہے۔
ورثا نے پولیس کو بتایا کہ ثمرین نفسیاتی مسائل کا شکار تھی جبکہ اس کا والد پولیس افسر اور لاڑکانہ میں تعینات ہے تاہم پولیس واقعے کی مزید چھان بین کر رہی ہے۔