اپنی ہی عوام کیخلاف طاقت کا استعمال درست نہیں ، آفاق احمد
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
ٹی ایل پی کی قیادت اورکے کارکنان پر پولیس کی فائرنگ اور شیلنگ کی شدیدمذمت کرتے ہیں
خواتین کو حراست میں لینا رویات کے منافی ، فوری رہا کیا جائے،چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ
مہاجر قومی موومنٹ (پاکستان) کے چیئرمین آفاق احمد نے تحریک لبیک پاکستان کے مارچ پر پولیس کی جانب سے شیلنگ اور فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طاقت کا اندھا دھند اور بے رحمانہ استعمال کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ،وفاقی و صوبائی حکومت طاقت کا استعمال بند کرکے مذاکرات کا راستہ اپنائے ۔ آفاق احمد نے کہا کہ ملک اسوقت نازک دور سے گزر رہا ہے، ہماری سرحدیں محفوظ ہیں نا اندرونی حالات بہتر ہیں ، ان حالات میں جس کسی نے بھی تحریک لبیک کے مارچ پر طاقت آزمائی کا مشورہ دیا وہ ملک و قوم کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا ۔آفاق احمد نے کہا کہ خواتین اور بچوں کو حراست میں لینے کی اجازت ہمارا دین دیتا ہے نا ہماری روایات ! اخلاقیات کے منافی ہے، اس عمل سے نفرتیں بڑھنے سے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا ، میں حکومت ِ وقت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ٹی ایل پی سربراہ کے گھر کی خواتین کو فوری رہا کیا جائے۔ آفاق احمد نے کہا کہ ٹی ایل پی کیخلاف جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا، بہتر یہی ہے کہ دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے اور حکومت پنجاب و وفاق فوری طور پر اس واقعے کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے اور گرفتار کارکنان کو غیر مشروط رہا کیا جائے ۔ آفاق احمد نے ٹی ایل پی کی قیادت اورکے کارکنان سے بھی پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ درجہ حرارت کو بڑھانے سے گریز کیا جائے اور تمام معاملات مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے حل کئے جائیں۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ا فاق احمد نے ٹی ایل پی کیا جائے کہا کہ
پڑھیں:
جنگ بندی؛ حماس کی فتح: ایمان کی طاقت کا اثبات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251013-03-8
میر بابر مشتاق
اللہ اکبر! وللہ الحمد! غزہ میں جنگ بندی کا اعلان ہوچکا ہے۔ یہ کوئی معمولی لمحہ نہیں، بلکہ ایمان و یقین کے اْن مناظر میں سے ہے جو تاریخ میں کبھی کبھار رقم ہوتے ہیں۔ شہر ِ عزیمت — غزہ — آج اللہ اکبر اور الحمدللہ کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ اہل ِ غزہ اور اہل ِ ایمان خوشی سے نہال ہیں، دوہری خوشی سے؛ ایک اس لیے کہ اْن کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو جنگ کی مشقتوں سے کچھ لمحوں کا سکون نصیب ہو رہا ہے، اور دوسرا اس لیے کہ اسلام کے مقابلے میں صہیونیت کی بدترین شکست اور ذلت و رسوائی تاریخ کے صفحات پر ایسی سیاہی سے درج ہوگئی ہے جو قیامت تک مٹ نہیں سکتی۔دو سال سے زائد عرصہ تک دنیا کی بڑی طاقتوں، جدید ترین ٹیکنالوجی، بم و بارود، اسلحہ اور شیطانی حربوں سے آراستہ غاصب قوتیں ایک چھوٹے سے علاقے پر چڑھ دوڑیں مگر نتیجہ؟ ناکامی، شرمندگی اور رسوائی! محمد الضیف، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ السنوار، محمد السنوار، استاد ابو عبیدہ اور ان جیسے بہادر قائدین کے وہ الفاظ آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہوگئے کہ: ’’ہماری مرضی کے بغیر تم کچھ حاصل نہیں کرسکو گے، ایک قیدی بھی نہیں!‘‘ یہ صرف الفاظ نہیں تھے، بلکہ ایک عہد تھا، عہد ِ صبر، عہد ِ ثبات، عہد اللہ پر توکل کا۔ اور آج وہ عہد ایک حقیقت بن چکا ہے۔ جس دشمن نے خود کو ’’دیوارِ دفاع‘‘ کہا، وہ آج اپنی دیواروں کے اندر بھی محفوظ نہیں۔ جس نے ’’حدید‘‘ (آئرن ڈوم) کو اپنا مذہب بنا لیا تھا، آج اس کے سائے میں بھی اس کے شہری کانپ رہے ہیں۔
اللہ اکبر اور الحمدللہ کے نعروں کے ساتھ شہر ِ عزیمت نے اس معاہدے کا استقبال کیا۔ یہ معاہدہ تحریک ِ مزاحمت کی بھی فتح ہے، مجاہدین کی بھی، اور اْس ایمان و عزیمت کی بھی جو ملبوں کے بیچ سر اٹھا کر کھڑا رہا۔ یہ صرف ایک جنگ بندی نہیں، بلکہ ایک اعتراف ہے کہ صہیونی منصوبہ ناکام ہوگیا، اور ایمان کی قوت نے مادی طاقت کو زیر کردیا۔ اہل ِ غزہ نے یہ معاہدہ اپنے لہو سے لکھوایا ہے، اپنی قربانیوں سے، اپنے عزم سے، اپنے بچوں کی شہادت سے۔ اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ تمام شرائط مجاہدین کی مرضی سے طے پائیں: مستقل جنگ بندی۔ دشمن کا مکمل انخلا۔ قیدیوں کی مطلوبہ واپسی۔ عالمی ضمانت۔ تحریک اور قیادت کی مکمل حفاظت۔ یہ وہ معاہدہ نہیں جو ٹرمپ نے پیش کیا تھا، نہ وہ جس پر غاصب نے خود حامی بھری تھی، نہ وہ جسے خلیجی ریاستوں نے اپنی سفارتی ’’دانائی‘‘ کے نام پر تھوپنے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر ’’جیالوں نے دستخط کیے‘‘ اور جس کا اعلان اْس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک مجاہدین ِ عزیمت نے حامی نہ بھر لی۔ یہ جنگ بندی دراصل صہیونیت کی شکست کا دوسرا نام ہے۔ یہ شکست محض عسکری نہیں بلکہ نظریاتی، نفسیاتی اور سیاسی سطح پر بھی مکمل ہے۔ غاصب طاقت جو خود کو ’’ناقابل ِ شکست‘‘ کہتی تھی، آج اپنی ساکھ، اپنی عسکری برتری، حتیٰ کہ اپنے اخلاقی جواز سے بھی محروم ہوچکی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی فوج، سب سے زیادہ فی کس فوجی بجٹ، سب سے جدید ہتھیار، سب کچھ ہونے کے باوجود، ایک چھوٹے سے علاقے کے خلاف اس کی ناکامی صرف ایک فوجی ناکامی نہیں، بلکہ ایک آئیڈیولوجیکل کرائسس ہے۔ صہیونیت کا بنیادی دعویٰ یہ تھا کہ ’’یہودی قوم کو دنیا کے خلاف ایک مضبوط قلعہ چاہیے‘‘، مگر آج وہ قلعہ ہی گھیرے میں ہے۔ اس کے شہری خوفزدہ ہیں، اس کی فوج مایوس ہے، اور اس کے حامی مغربی ممالک بھی اب اس کے خلاف اخلاقی موقف اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ غزہ نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ طاقت توپ و تفنگ سے نہیں، ایمان کے یقین اور مقصد کی پاکیزگی سے پیدا ہوتی ہے۔ غزہ کے لوگ محاصرہ، بھوک، بمباری، ظلم اور تنہائی کے باوجود ثابت قدم رہے، کیونکہ اْن کا یقین رب العالمین پر تھا، کسی سپر پاور پر نہیں۔ جب دنیا کے تمام دروازے بند ہو جائیں، تو اللہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ جب تمام راستے بند ہو جائیں، تو اللہ کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ غزہ نے یہی سبق دیا: اللہ کی مدد اْس وقت آتی ہے جب انسان اپنی آخری سانس تک جدوجہد کرتا ہے۔
قرآنِ کریم کہتا ہے: ’’سلام ہو تم پر تمہارے صبر کے بدلے، کیا ہی خوب ہے آخرت کا انجام!‘‘۔ اہل ِ غزہ نے اس آیت کو اپنے کردار سے زندہ کردیا۔ انہوں نے صبر کو شکایت نہیں بننے دیا، بلکہ اسے ایمان کا استعارہ بنایا۔ وہ جانتے تھے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے، اللہ کی نصرت اْتنی قریب آتی ہے۔ اور آج پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ نصرت اْنہی کے لیے ہے جو اللہ پر توکل کرتے ہیں۔غزہ کی فتح محض اہل ِ فلسطین کی نہیں، یہ پوری امت ِ مسلمہ کی فتح ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ جب ایمان پر یقین اور مقصد پر خلوص ہو تو طاقتور سے طاقتور دشمن بھی جھکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ لمحہ صرف فخر کا نہیں، بلکہ یاددہانی کا بھی ہے۔ کیا ہم نے غزہ کے لیے کچھ کیا؟ کیا ہم نے اْن کے خون کو اپنا خون سمجھا؟ کیا ہم نے اْن کی آواز کو اپنی آواز بنا لیا؟ یا ہم صرف سوشل میڈیا پر ’’ری ایکشن‘‘ لگا کر اپنا فرض ادا سمجھ بیٹھے؟
غزہ کی فتح ہمارے لیے ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اگر ہم ایمان کی طاقت کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں غزہ کی طرح عمل کرنا ہوگا، قربانی دینی ہوگی، اور اللہ پر بھروسا کرنا ہوگا۔ نہ کہ صرف دعائیں مانگنا۔ یہ معرکہ اْس وقت مکمل ہوگا جب بیت المقدس آزاد ہوگا، اور امت ِ مسلمہ اپنے زخم خوردہ جسم میں ایک روح بن کر اٹھ کھڑی ہوگی۔ جنگ بندی صرف ایک مرحلہ ہے، فتح کا آغاز ہے، نہ کہ اختتام۔ ابھی تک فلسطین کے ہزاروں قیدی جیلوں میں ہیں۔ ابھی تک مغربی کنارے پر ظلم جاری ہے۔ ابھی تک قدس کی مساجد پر قبضہ ہے۔ ابھی تک امت ِ مسلمہ تقسیم ہے، اور اس کی آواز کمزور ہے۔ لیکن غزہ کی فتح نے ہمیں یہ یقین دلایا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور جو اْس کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے، اْس کی مدد ضرور آتی ہے۔
اللم ثبت اقدامہم، اللم انصرہم علی اعدائھم، اللم کن لہم عونا و نصیراً، آمین یا رب العالمین۔ اے اللہ! تو نے اپنے بندوں کی لاج رکھی، تو نے اہل ِ غزہ کو عزت بخشی، تو نے صہیونیت کے تکبر کو مٹی میں ملا دیا۔ ہم تیرے شکر گزار ہیں مگر تیرا شکر پورا ادا نہیں کر سکتے۔ تو نے سچ فرمایا: ’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لشکر کے لوگ ہی غالب رہتے ہیں‘‘۔ غزہ کے مجاہدین کو سلام وہ جو مٹی میں دفن نہیں ہوئے، بلکہ مٹی کو زندہ کر گئے۔ وہ جنہوں نے اپنی غیرت، اپنے ایمان، اور اپنے خون سے دنیا کو یاد دلایا کہ: اسلام آج بھی زندہ ہے، اور اللہ کا وعدہ آج بھی سچا ہے۔
اللہ اکبر! وللہ الحمد!
غزہ کی فتح، ایمان کی فتح ہے۔
اور ایمان کبھی ہارتا نہیں۔