آپریشن سندور کا دوسرا مرحلہ زیادہ تباہ کن ہوگا، لیفٹیننٹ جنرل منوج کٹیار
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
جنرل کٹیار نے کہا کہ اگرچہ 1965ء کی جنگ سے لیکر آج تک جنگی ٹیکنالوجی میں بے حد تبدیلی آئی ہے، مگر بھارتی فوج کا حوصلہ، جذبہ اور عزم آج بھی ویسا ہی مضبوط ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مغربی کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف، لیفٹیننٹ جنرل منوج کمار کٹیار نے پاکستان کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے دوبارہ ہندوستان کی سرزمین پر حملے کی جرات کی تو جواب "آپریشن سندور" سے کہیں زیادہ تباہ کن اور فیصلہ کن ہوگا۔ میگا ایکس سروس مین ریلی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل کٹیار نے کہا کہ اگرچہ 1965ء کی جنگ سے لے کر آج تک جنگی ٹیکنالوجی میں بے حد تبدیلی آئی ہے، مگر بھارتی فوج کا حوصلہ، جذبہ اور عزم آج بھی ویسا ہی مضبوط ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں ڈرونز کے ذریعے جموں اور پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملوں کی کوشش کی، لیکن ہماری اینٹی ایئر ڈیفنس سسٹمز نے ہر کوشش ناکام بنا دی۔
لیفٹیننٹ جنرل کٹیار نے واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان نے دوبارہ حملہ کیا تو جواب "آپریشن سندور" سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہوگا۔ جب تک پاکستان اپنی ذہنیت نہیں بدلتا، اسے ایسے ہی نتائج بھگتنا ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی فوج ہر طرح کے چیلنج کے لئے تیار ہے اور اگر ضرورت پڑی تو "آپریشن سندور 2.
لیفٹیننٹ جنرل کٹیار نے کہا کہ بھارتی فوج 740 کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول پر مکمل مستعد ہے جبکہ 240 کلومیٹر بین الاقوامی سرحد کی ذمہ داری بارڈر سیکیورٹی فورس کے سپرد ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، اور اگر پاکستان نے کوئی حرکت کی تو اس بار جواب تاریخ رقم کرے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لیفٹیننٹ جنرل بھارتی فوج پاکستان نے نے کہا کہ انہوں نے تباہ کن کہ اگر
پڑھیں:
غزہ امن معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل، قیدیوں اور یرغمالیوں کی رہائی، آگے کیا ہو گا؟
غزہ میں امن ڈیل کا پہلا مرحلہ مکمل
اسرائیل اور حماس دونوں ہی تقریب میں شریک نہ ہوئے
غزہ میں دو سالہ جنگ کے بعد بالآخر امن معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس نے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے جبکہ اسرائیل نے تقریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا ہے، جن میں 250 عمر قید کے سزا یافتہ افراد بھی شامل ہیں۔
اس تبادلے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں طے پانے والےامن منصوبے کا پہلا عملی قدم قرار دیا جا رہا ہے۔صدر ٹرمپ نے اس موقع کو ’’مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک شاندار دن‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ دیرپا امن کی بنیاد بنے گا۔
(جاری ہے)
اس تاریخی تقریب میں دنیا کے 20 سے زائد ممالک کے رہنما شریک ہوئے، جنہوں نے غزہ میں ’’جامع اور پائیدار امن‘‘ کے قیام کے عزم کا اظہار کیا۔
تاہم امن کی راہ میں کئی رکاوٹیں ابھی باقی ہیں۔ حماس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ اسرائیل نے غزہ سے مکمل انخلا کی کوئی ضمانت نہیں دی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایک ریاست یا دو ریاستی حل کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، جس سے مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ ’’ریاستی حل‘‘ پر بات نہیں کر رہے بلکہ ’’غزہ کی تعمیر نو‘‘ پر توجہ مرکوز ہے۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اس معاہدے کو انسانی تاریخ کے ایک تکلیف دہ باب کا اختتام قرار دیا اور کہا کہ یہ دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ دوسری جانب حماس کے ترجمان نے مطالبہ کیا ہے کہ ثالث اسرائیل کے رویے کی نگرانی جاری رکھیں تاکہ وہ دوبارہ ’’جارحیت‘‘ کا مظاہرہ نہ کرے۔
امن معاہدے کا پہلا مرحلہ نافذ ہو چکا ہے، لیکن اگلے مراحل پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ لڑائی چھڑنے کا خدشہ موجود ہے۔
صدر ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ دنیا کی نظریں اب اس بات پر مرکوز ہیں کہ آیا یہ امن برقرار رہتا ہے یا ایک اور بحران جنم لیتا ہے۔اسرائیل اور حماس دونوں ہی تقریب میں شریک نہ ہوئے
اس تاریخی تقریب میں دنیا کے 20 سے زائد ممالک کے رہنما شریک ہوئے لیکن نہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو شریک ہوئے اور نہ ہی حماس کے نمائندے ۔
دونوں فریقوں نے امن مذاکرات میں شرکت کے لیے قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے بالواسطہ کردار ادا کیا لیکن رسمی تقریب سے دور رہے۔حماس کے ترجمان حسام بدران نے واضح کیا کہ تنظیم کے لیے امن منصوبے میں ’’غزہ چھوڑنے‘‘ کی تجویز ناقابل قبول ہے اور اسی لیے وہ اس معاہدے کی تقریب میں شریک نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر معاہدہ ناکام ہوا تو حماس دوبارہ جنگ کے لیے تیار ہے۔
ساتھ ہی حماس نے ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو بھی مسترد کر دیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے بھی تقریب میں شرکت نہیں کی گئی حالانکہ اسرائیلی حکومت نے قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے معاہدے کی منظوری تو دے دی لیکن اسرائیل کی طرف سے سیاسی سطح پر شرم الشیخ میں تقریب سے دوری اختیار کی گئی۔
اس صورتحال نے قیام امن کی کوششوں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اگرچہ قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ مکمل ہو چکا ہے اور عالمی برادری نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے لیکن دونوں مرکزی فریقوں کی غیر موجودگی سے معاہدے کی پائیداری سے متعلق خدشات جنم لے رہے ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاہدہ ’’برقرار رہے گا‘‘ اور خطے میں امن و استحکام کی بنیاد بنے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیل اور حماس براہ راست اور مکمل طور پر اس عمل میں شامل نہیں ہوتے،امن کی راہ ہموار ہونا مشکل رہے گا۔