data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251016-03-7
سید اقبال ہاشمی
حکومت کی جانب سے پاکستان کی معاشی ترقی کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود زمینی حقائق یکسر مختلف تصویر دکھا رہے ہیں۔ پچھلے چار سال معیشت کی کارکردگی کے اعتبار سے بدترین سال ثابت ہوئے ہیں۔ ایک جانب حکومت کوئی معاشی حکمت عملی مرتب کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے تو دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلیوں، سیلاب اور حکومت کی بد انتظامی کی وجہ سے حالات مزید ابتری کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کے اعدادو شمار کو بین الاقوامی ادارے برملا جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مقرر کردہ اہداف کے حصول میں ناکامی خود آئی ایم ایف کی جانب سے ہدف تنقید بنا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ گورننس کے معاملات میں بہتری لائی جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاست دان اور سرکاری ملازمین بشمول فوجی افسران اپنے اثاثے پبلک کریں۔ ساتھ ساتھ نج کاری کے عمل میں سستی بھی بین الاقوامی اداروں کے نزدیک قابل تشویش امر ہے۔ حکومت پر بیوروکریسی اور سرکاری اداروں کو کم کرنے کے لیے بھی دباؤ ہے لیکن اندرونی اسٹیک ہولڈرز اس راہ میں دیوار بنے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے چھوٹے صوبے بنانے اور صوبائی بجٹ کم کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن چھوٹے صوبے بنانا سیاست دانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت کی تحویل میں چلنے والے سرکاری اداروں کو ہر سال بجٹ سے براہ راست چھے سو ارب روپے اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے لیے ادا کیے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی عقل مندی کا سودا نہیں ہے۔ وہ اقدام جو کوئی دور اندیش حکومت کو خود اٹھانے چاہئیں وہ بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ڈائریکٹرز ہماری حکومت کو سجھاتے، سکھاتے اور سمجھاتے ہیں۔ پھر بھی یہ نہ سیکھنا چاہتے ہیں۔ سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں۔
آئی ایم ایف کا بے لچک موقف حکومت کے لیے دردِ سر کا باعث تو ہے ہی ساتھ میں یہ پریشانی بھی ہے کہ اگر شرائط پوری نہ کی گئیں تو ہرجہ و خرچہ کیسے پورے کیے جائیں گے؟ پاکستان کے سرکاری اعدادو شمار پر تسلسل کے ساتھ شک و شبہے کا اظہار باعث شرم و ندامت ہے۔ بہت سے سرکاری ادارے حکومتی امداد کے باوجود براہ راست قرضے بھی لیتے ہیں جو کہ درحقیقت حکومت کا بجٹ خسارہ ہے۔ گردشی قرضہ جو کہ پچھلے سال انتیس سو ارب پر پہنچا ہوا تھا اسے قرض لے کر سترہ سو ارب پر پہنچا کر حکومت نے اداروں کو تو ادائیگی کر دی ہے لیکن قرض کا بوجھ اپنے سر پر لے لیا ہے۔ بارہ سو ارب روپے کا پہاڑ کھڑا کر کے حکومت پاکستان نے سعودی عرب کے لیے پانچ سو ارب روپے میں کے الیکٹرک کو خریدنے کی راہ ہموار کی ہے۔ اب اگر حکومت شادیانے بجائے کہ وہ سعودی سرمایہ کاری ملک میں لے کر آئے ہیں تو اس پر کوئی سنجیدہ آدمی ہنسے گا یا روئے گا؟ آئی ایم ایف نے پچھلے دو سال بشمول موجودہ سال کے پاکستان کے گیارہ ارب ڈالر کے تجارتی خسارے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں کیونکہ پاکستان ریونیو آٹومیشن اور پاکستان سنگل ونڈو آپریشن کے اعدادو شمار آپس میں مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ پاکستان کی درآمدات کو برآمدات کے مقابلے میں کم ظاہر کیا گیا ہے جس سے تجارتی خسارہ کم نظر آتا ہے۔ یہ اعداد اگر صحیح کیے گئے تو پچھلے دو سال کی جی ڈی پی کم ہوکر منفی میں چلی جائے گی اور اس سے پچھلے سال یہ شرح منفی ہی تھی۔ حکومت کے فراہم کردہ افراط زر اور کنزیومر پرائس انڈیکس پر بھی آئی ایم ایف نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ چائنا کا قرض اور اس پر سود کی ادائیگی کے اعداد بھی واضع طور پر سامنے نہیں آتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چائنا کا قرض آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضے سے بھی زیادہ ہے۔ پچھلے چار سال میں حکومت نے بمشکل ڈھائی فی صد سالانہ کی شرح نمو کا دعویٰ کیا ہے جو کہ درست اعدادو شمار کی بنیاد پر منفی میں چلا جائے گا۔
افراط زر کی شرح بھی حکومت کے دعوؤں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس بات کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ حکومت شرح سود میں کمی سے مسلسل انکاری ہے اور اگر شرح سود میں کمی نہ کی گئی تو ملک میں معاشی ترقی کیوں کر ممکن ہوگی؟ حکومت کا اصرار ساڑھے چھے فی صد بیروزگاری کی شرح پر ہے لیکن بہت سے معیشت دان اس بات سے متفق ہیں کہ یہ بارہ فی صد سے کم کسی صورت میں نہیں ہے۔ پچھلے تین سال میں پاکستانیوں کے بیرون ملک منتقل ہونے کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانی باعث رحمت ہیں جو کہ روزانہ چالیس ارب روپے پاکستان منتقل کرتے ہیں۔ اگر یہ رقم پاکستان نہ آئے تو ایک چوتھائی آبادی فاقے سے مر جائے۔ مزید برآں یہ کہ اس سال کے سیلاب کے بعد پاکستان کی آدھی آبادی خط غربت کے نیچے چلی گئی ہے۔ پاکستان میں روزگار کے ذرائع بمشکل ایک چوتھائی آبادی کے لیے کافی ہیں۔ ابن الوقت سیاست دانوں، نااہل بیوروکریسی اور خود غرض اشرافیہ نے پاکستان کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ کوئی امید بر نہیں آتی ہے۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے اور بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔
پاکستان کی ہندوستان پر حالیہ جنگ میں فتح کے بعد بین الاقوامی برادری کے مثبت ردعمل سے ایک امید ہو چلی تھی کہ پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور عوام کے لیے خوشحالی آئے گی لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ یہ سنہری موقع بھی ہمارے وزیر اعظم اور ان کے متعلقین کی نشستند، گفتند، برخاستند کی نذر ہو گیا۔ ہواؤں میں اُڑنے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارا فوکس بیرونی معاملات پر اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ اندرون ملک کیا ہو رہا ہے یہ دیکھنے کی کسی کو فرصت ہی نہیں ہے۔ معاہدوں کے بعد ان پر عمل درآمد ہو بھی رہا ہے یا نہیں اس کی کسی کو فکر ہی نہیں ہے۔ دستخط کی تقریب ہوگئی۔ میڈیا میں ہلہ گلہ ہو گیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ جب ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھو ملک میں چاروں طرف جنگی حالات اور صوبوں میں ابتری نظر آتی ہے۔ اس صورتحال میں کتنے ہی معاہدوں پر دستخط کیوں نہ کر لیے جائیں کوئی سرمایہ کاری ملک میں نہ آ سکتی ہے اور نہ آئے گی۔ حالات تو اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مقامی سرمایہ کار بھی ہاتھ کھینچ رہے ہیں تو بیرون ملک سے اس ملک میں سرمایہ لگانے کون آئے گا؟
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی ا ئی ایم ایف پاکستان کی حکومت کے ارب روپے نہیں ہے رہے ہیں ملک میں ا تی ہے نہیں ا ئے ہیں کے لیے
پڑھیں:
خیبر پختون خوا میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251016-03-2
خیبر پختون خوا اسمبلی میں سہیل آفریدی بھاری اکثریت لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں اور انہوں نے گورنر کے پی کے سے وزارت اعلیٰ کا حلف بھی لے لیا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے سہیل آفریدی کے تقرر پر اپنے تحفظات اور خدشات یا الزام تراشی بھی کی کہ ان کا تقرر صوبہ میں دہشت گردی کی جنگ کو متاثر کرے گا۔ کچھ اس طرح کا تاثر بھی دیا گیا کہ وفاقی حکومت وزیر اعلیٰ کے تقرر کو طاقت کی بنیاد پر روکے گی۔ اس خدشے کو اس وقت تقویت ملی جب گورنر فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا استعفا قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس پر تاخیری حربے اختیار کیے اور دوسری طرف ڈی جی آئی ایس پی آر کی پشاور میں ہونے والی پریس کانفرنس نے ماحول میں اور زیادہ شدت پیدا کر دی اور یہ تاثر ملا کہ نئے وزیر اعلیٰ کے تقرر کو کسی بھی سطح پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہو سکا اور پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی سمیت سابق وزیر اعلیٰ نے مکمل حمایت کے ساتھ نہ صرف بانی پی ٹی آئی کا فیصلہ قبول کیا بلکہ سہیل آفریدی کو بھاری اکثریت سے وزیر اعلیٰ منتخب کیا ہے۔ اس انتخاب سے اس تاثر کی بھی نفی ہوئی کہ عمران خان کے اس فیصلے کے بعد پارٹی بری طرح تقسیم ہو گئی اور نئے وزیر اعلیٰ کو کسی بھی سطح پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بھی کوئی ایسا تاثر نہیں چھوڑا جس سے یہ محسوس ہو کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے فیصلے سے خوش نہیں یا نئے وزیر اعلیٰ کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ جو خدشہ تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو توڑا جائے گا، وہ بھی غلط ثابت ہوا اور پارٹی نئے وزیراعلیٰ کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ بنیادی طور پر بانی پی ٹی آئی خیبر پختون خوا میں فوجی آپریشن کے سخت مخالف ہیں اور ان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کا علاج فوجی آپریشن سے نہیں بلکہ مذاکرات اور بات چیت ہی سے ممکن ہو سکے گا۔ عمران خان تواتر کے ساتھ علیٰ امین گنڈاپور کو یہ کہتے رہے کہ وہ کسی بھی صورت صوبے میں فوجی آپریشن کی حمایت نہ کریں۔ لیکن لیکن علی امین گنڈا پور فوجی آپریشن کی مخالفت تو نہ کر سکے البتہ وہ اسے ایک ٹارگٹڈ آپریشن کا نام دیتے رہے جو بانی پی ٹی آئی کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ اسی طرح عمران خان کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ علی امین گنڈاپور کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہت زیادہ مضبوط ہیں وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سہیل آفریدی کا تقرر بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا اور لوگ سمجھتے تھے وہ ناتجربہ کار ہیں اور اس اہم منصب کے لیے وہ اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ ایک اہم بات یہ بھی محسوس کی گئی کہ نئے وزیر اعلیٰ کے تقرر سے پارٹی میں باہمی اختلافات کا خاتمہ ہوا اور تمام گروپوں نے کھل کر پارٹی کے فیصلے کے ساتھ خود کو کھڑا کیا۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ کا تعلق مڈل کلاس طبقے سے ہے اور وہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں اور پارٹی میں مزاحمت کی سیاست کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ان کی پہلی تقریر میں دیکھا گیا جہاں انہوں نے کھل کر کہا کہ یہاں کسی قسم کے فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کی جائے گی اور اگر صوبائی حکومت یا صوبائی اسمبلی سے ہٹ کر فوجی آپریشن کیا گیا تو اس کی بھرپور مزاحمت ہمارا حق بنتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ٹکرائو پیدا کر سکتا ہے۔ کیونکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں یہ واضح کہا گیا ہے کہ کسی بھی سطح پر ٹی ٹی پی یا افغانستان سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے اور دہشت گردی سے طاقت سے نمٹاجائے گا۔ عمران خان نے ایک بار پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر کہا ہے کہ فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں بلکہ اور زیادہ حالات کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں افغانستان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں اور اسی کی مدد سے دہشت گردی کا علاج بھی تلاش کیا جائے۔ مسئلہ محض پی ٹی آئی کا نہیں ہے بلکہ صوبے میں فوجی آپریشن کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کے بھی تحفظات ہیں۔ اس لیے صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف اگر فوجی آپریشن کرنا ہے تو اس فیصلے کو سیاسی طور پر تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ اصولی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو مل بیٹھ کر باہمی اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمیں فوجی آپریشن یا مذاکرات میں سے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح نو منتخب وزیر اعلیٰ کو بھی وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی سیاست اختیار کرنے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ صوبے کے معاملات کو اتفاق رائے سے چلایا جائے۔ لیکن اس کی ذمے داری جہاں صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے وہیں ایک بڑی ذمے داری وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی ہے کہ وہ صوبے میں زبردستی فیصلے کرنے کی کوشش سے گریز کریں اور جو بھی فیصلہ کیا جائے اس میں صوبائی حکومت کی حمایت شامل ہونی چاہیے۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی حکومت کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو پھر صوبے کے حالات بہتری کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کی طرف جائیں گے اور اس کا ایک نتیجہ گورنر راج کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔ گورنر راج بھی مسئلے کا حل نہیں ہوگا بلکہ اس سے ماحول اور زیادہ تلخ ہوگا جو پہلے سے جاری دہشت گردی میں اور اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے فوجی آپریشن پر جذبات کے بجائے ہوش کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر نہ ہو۔ صوبائی حکومت اور بانی پی ٹی آئی کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان کے حالات پاکستان کے حق میں نہیں ہیں اور جس طرح سے افغانستان کا انحصار بھارت پر بڑھتا جا رہا ہے وہ پاکستان کے لیے یقینی طور پر خطرہ ہوگا۔ اسی طرح افغانستان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مسئلے پر کوئی تعاون نہیں کیا اور افغان سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس لیے جو لوگ افغانستان یا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں ان کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اب تک افغانستان اور ٹی ٹی پی نے پاکستان کے تحفظات پر کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ اسی طرح وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو صوبائی حکومت کے خلاف بلا وجہ کا محاذ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر صوبائی اسمبلی نے سہیل آفریدی پر بطور وزیراعلیٰ اعتماد کیا ہے اس فیصلے کو قبول کیا جانا چاہیے اور یہی سیاست اور جمہوریت کے حق میں بہتر ہوگا۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر صوبے میں موجود تمام سیاسی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی، قبائلی عمائدین اور میڈیا کے ساتھ ایک گول میز کانفرنس کرے اور اس میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ ہمیں آپریشن یا مذاکرات میں سے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اگر بات مذاکرات کی طرف جاتی ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اس کی ناکامی کی صورت میں پھر اگلا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت صوبے میں دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ ہے اور خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے باہمی گٹھ جوڑ نے صوبے کی سیکورٹی کو ہر سطح پر چیلنج کیا ہوا ہے۔ اگر ہم نے حالات پر قابو نہ پایا یا کوئی غیر معمولی اقدامات نہ کیے تو صورتحال اور زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ افغانستان اور ٹی ٹی پی سے جو بھی جنگ لڑنی ہے سب سے پہلے ہمیں صوبے کے داخلی معاملات کا جائزہ لے کر ایک موثر اور مضبوط مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔