امیر البحر ایڈمرل نوید اشرف کا دورہ امریکا، بحری و سول قیادت سے اہم ملاقاتیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
راولپنڈی( نیوزڈیسک) امیر البحرل ایڈمرل نوید اشرف نے امریکا کا دورہ کیا جہاں امریکی بحریہ اور سول قیادت سے اہم ملاقاتیں کیں جن سے دفاعی تعاون کو فروغ ملے گا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاک بحریہ کے سربراہ نے اپنے دورہ امریکا میں امریکی ڈپٹی چیف آف دی نیول اسٹاف آپریشنز اور کوسٹ گارڈ کے وائس کمانڈنٹ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
امیر البحر نے امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا بھی دورہ کیا اور یونیورسٹی کے صدر وائس ایڈمرل پیٹر اے گارون سے ملاقات کی، ملاقاتوں کے دوران پیشہ ورانہ دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی، پیشہ ورانہ تربیت اور میری ٹائم تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نیول چیف نے امریکی محکمہ خارجہ کا بھی دورہ کیا جہاں سیاسی وعسکری امور کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری سٹینلے ایل براؤن سے ملاقات کی۔
اس کے علاوہ ایڈمرل نوید اشرف نے امریکی سکالرز اور تھنک ٹینک کے ماہرین سے ایک تقریب میں خطاب بھی کیا، نیول چیف نے علاقائی میری ٹائم سکیورٹی چیلنجز اور مشترکہ میری ٹائم کوششوں میں پاک بحریہ کے تعاون پر روشنی ڈالی۔
نیول چیف کا دورہ امریکہ دونوں ممالک کے مابین میری ٹائم سکیورٹی اور دفاعی تعاون کو فروغ دے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: میری ٹائم
پڑھیں:
امیر متقی کے دورہ بھارت کی وجہ سے پاک افغان اختلافات میں اضافہ ہوا، ہارون رشید
سینیئر صحافی اور افغان امور کے ماہر ہارون رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے اور وہ اور ٹی ٹی پی ایک ہی ہیں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا نہیں تھا کہ شاید ان کو اقتدار مل جائے گا اور پھر اقتدار ملنے کے بعد وہ کس طرح کا رویہ رکھیں گے حالانکہ ہمیں ان کے پہلے دور اقتدار میں ان کے طرز عمل کے کچھ اشارے مل گئے تھے جب انہوں نے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ مستقل طور پر حل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی افغان پالیسی کتنی درست، افغانستان پر ہمارا کنڑول کتنا تھا، سابق کور کمانڈر پشاور کا تبصرہ
ہارون رشید نے کہا کہ اس لیے یہ سمجھنا کہ وہ پاکستان کے خلاف نہیں جائیں گے تو یہ خام خیالی تھی جو کہ اب بالکل واضح ہو کر اور بڑے تلخ اور کرخت انداز میں ہمارے سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل کمیونٹی کے ساتھ مل کر ایک جدوجہد ہوئی، پہلے سوویت یونین کے خلاف اور پھر امریکا کے خلاف، اس کے نتیجے میں جو فتوحات ملی اس میں یقیناً زیادہ حصہ طالبان کا تھا لیکن اس میں جو سپورٹ ساری انٹرنیشنل کمیونٹی کی تھی تو اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خود ہی عالمی قوتوں کو شکست دے لی تھی تو وہ غلط ہیں۔
ہارون رشید کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں افغان طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کے انڈیا کے دورے کی وجہ سے بھی دونوں ممالک کے اختلافات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تو بالکل اس دورے کو پسند نہیں کیا گیا اور جو ریاستی بیانات سامنے آ رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا تو وہاں جانا پھر 7 دن بیٹھنا اور پھر جس طرح کی وہاں سے بات کرنا اس نے میرے خیال میں ٹینشن کو کافی بڑھادیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو یہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ چل رہا تھا اور جو حملوں میں تیزی آئی تھی اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی جوان بڑی تعداد میں اپنی جانیں کھو رہے تھے، شہید ہو رہے تھے تو اس لیے ریاست کو کہیں نہ کہیں فیصلہ کرنا پڑا کہ اب بہت ہو گیا، اتنا زیادہ جانی نقصان ہم برداشت نہیں کر سکتے، اب کچھ مقابلہ ہونا ضروری ہے۔
ہارون رشید نے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان کو 4 سال ’ہنی مون پیریڈ‘ دیا، اونچ نیچ چلتی رہی لیکن ایک نرم قسم کا ورکنگ ریلیشن تھا اور دورے بھی ہو رہے تھے، آنا جانا بھی تھا لیکن یہ جو ابھی اضافہ ہوا ہے اور سینیئر ملٹری افسران شہید ہو رہے ہیں تو وہ پاکستانی ریاست کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنا کہ طالبان اور ٹی ٹی پی 2 مختلف گروپس ہیں یہ بھی ایک بڑی خام خیالی تھی۔
مزید پڑھیے: امید ہے کہ افغانستان کی قیادت بھارت کی چال میں نہیں آئے گی، احسن اقبال
ہارون رشید نے کہا کہ تنظیمی لحاظ سے یقیناً 2 الگ گروہ ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جس پر یہ دونوں متفق ہیں وہ ان کے نظریات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی تو ملا محمد عمر کو بھی اپنا لیڈر مانتی تھی اور ان کی بیعت کی ہوئی تھی اور امریکا کے خلاف بھی پاکستانی طالبان وہاں جا کر لڑتے رہے ہیں تو یہ رشتہ اب بھی قائم ہے اور افغان طالبان کسی قیمت پر یہ تعلق ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ہارون رشید نے کہا کہ اگر وہ خواتین کی تعلیم کے معاملے پر پوری دنیا کے سامنے ڈٹ سکتے ہیں تو پاکستان کے دباؤ کے سامنے بھی ڈٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ آگے چل کر پتا چلے گا کہ یہ ایک بڑی حماقت کر رہے ہیں یا ایک کیلکولیٹڈ رسک لے رہے ہیں لیکن بہرحال یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ نظریاتی طور پر ان کو کس طرح الگ کیا جائے، جب تک نظریاتی طور پر دوری پیدا نہیں ہوگی، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور اس محاذ پر پاکستان نے اتنا کام نہیں کیا کہ ان کو فکری طور پر کیسے الگ یا کمزور کیا جائے۔
مزید پڑھیں: افغانستان نے پاکستان سے تنازع بطور پراکسی بھارت کے اشارے پر شروع کیا، خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بات مانی جائے تو وہ وہاں موجود ہیں، وہیں سے آپریٹ کر رہے ہیں، پلاننگ بھی وہیں سے ہو رہی ہے اور خود افغان حکام نے بھی مانا تھا کہ کچھ لوگوں کو بارڈر سے دور علاقوں میں منتقل کیا گیا ہے یہ دراصل یہ تسلیم کرنا تھا کہ ان کا وجود وہاں موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب جغرافیائی طور پر ان کو کہیں اور لے جانا مقصد حاصل نہیں کرتا اور ٹی ٹی پی اس سپورٹ کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتی، خاص طور پر جس طرح قبائلی اضلاع میں ان کے خلاف آپریشن ہوئے، اور جس طرح وہ کمزور کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیے: پیرول پر رہا کریں، افغانستان کا مسئلہ حل کر دوں گا، عمران خان کی پیشکش
ہارون رشید نے کہا کہ اب دوبارہ اٹھنا اور جان پکڑنا یہی ظاہر کرتا ہے کہ سنہ 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے حملے بڑھے ہیں اور ان کی مالی و دیگر سپورٹ میں اضافہ ہوا ہے اور وہ دوبارہ بحال ہوئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں