بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور نصف صدی کا قصہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
دنیا بھر کی خبروں میں پاکستان کے بارے میں حوصلہ افزاء خبروں کا عموماً انتظار ہی رہتا ہے۔ ایسی ہی ایک خبر چند روز قبل جاری ہوئی تو توجہ کا باعث بنی۔ دنیا کی اعلیٰ تعلیمی ریسرچ یونیورسٹیز کی رینکنگ میں پاکستان کی 48 یونیورسٹیز شامل!
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ برطانیہ کا ایک معروف میگزین 2004 سے 100 سے زائد ممالک کی معروف یونیورسٹیز کی سالانہ عالمی رینکنگ جاری کرتا ہے۔ 2025 کی جاری رینکنگ میں 115 ممالک کی 2,191 یونیورسٹیز کا ڈیٹا شامل ہے۔
حاصل شدہ ڈیٹا 18 بنیادی فیلڈز پر مشتمل تھا جنھیں پانچ گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ یوں 100 نمبروں پر مشتمل رینکنگ کا ایک جامع پیمانہ بنایا گیا۔ رینکنگ کے اس پیمانے میں ٹیچنگ کا وزن 29.
ان 100 پوائنٹس پر مشتمل دنیا بھر کی یونیورسٹیوں سے ڈیٹا جمع کیا گیا اور چھان پھٹک کر اس رینکنگ کی صورت گری کی گئی۔
یہ رینکنگ ٹائمز ہائرایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کہلاتی ہے۔ اس کی تازہ ترین 2025 رینکنگ کے مطابق پاکستان کی 48 یونیورسٹیاں اس رینکنگ میں شامل ہیں۔
مزید تفصیل میں گئے تو بھید کھلا کہ تعلیم اور ریسرچ کے میدان کی پہلی صفوں میں ہماری غیرموجودگی بدستور ’’قائم و دائم‘‘ ہے۔ پاکستان کی واحد یونیورسٹی جو 401 سے 500 کی کیٹیگری میں شامل ہو سکی وہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد ہے۔
اگلی کیٹیگری یعنی 601 سے 800 کی رینکنگ میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سمیت کل آٹھ یونیورسٹیز شامل ہیں۔ 15 یونیورسٹیز 801 سے 1,000 کی کیٹیگری میں، 10 یونیورسٹیز 1,001 سے 1200 کی کیٹیگری میں، آٹھ یونیورسٹیز 1201 سے 1500 اور چھ یونیورسٹیز 1500 سے زائد کی کیٹیگری میں شامل ہیں۔
یہ رینکنگ ریسرچ فوکس یونیورسٹیز پر مبنی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا علم اور ایجادات کے مراکز بھی جیو پولیٹکس کی طرح تیزی سے شفٹ ہو رہے ہیں؟
ورلڈ اکنامک فورم کے تبصرے کے مطابق دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ریسرچ اور ایجادات کے ابھرتے ہوئے نئے جغرافیائی مراکز سے نئے عالمی رجحان کا صاف پتہ چلتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے میدان میں امریکا اور یورپ کی گرفت ابھی بھی بہت مضبوط ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے دسویں بار رینکنگ میں اپنی پوزیشن نمبر ون برقرار رکھی۔ ٹاپ 10 پوزیشن میں برطانیہ کی تین یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ ٹاپ 10 یونیورسٹیز میں امریکا کی آٹھ یونیورسٹیز شامل ہیں، جب کہ دوسری جانب ٹاپ 40 یونیورسٹیز میں چائنہ کی پانچ، ہانگ کانگ کی چھ یونیورسٹیز شامل ہیں۔
مزید تفصیل میں جائیں تو یورپ اور امریکا کے علاوہ ایشیاء سمیت بہت سے دیگر ممالک نے رینکنگ میں اپنی پوزیشن بہتر کی ہے۔ رینکنگ کی کل تعداد میں امریکا کے بعد بھارت کی رینک شدہ یونیورسٹی کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ٹاپ 500 یونیورسٹیز میں بھارت کی چار یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ ٹاپ 500 یونیورسٹیز میں امریکا کی 102 اور چین کی 35 یونیورسٹیاں شامل ہیں جب کہ پاکستان کی ایک یونیورسٹی ٹاپ 500 میں شامل ہے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں کا سائنسی علم، ریسرچ اور ایجادات میں حصہ ماضی میں بھی کبھی نمایاں نہیں رہا تاہم جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر عطاالرحمن کی سربراہی میں ایک دلچسپ شارٹ کٹ ایجاد ہوا۔
وہ یہ کہ ملک بھر میں یونیورسٹیوں کا جال پھیلانے اور زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈی اور ایم فل پیدا کرنے سے تعلیم، ٹیکنالوجی اور ایجادات میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے… اور انقلاب برپا ہوا بھی لیکن یہ انقلاب معیاری سائنسی تعلیم، اعلیٰ کوالٹی ریسرچ اور نئی تخلیقی ایجادات کے بالکل برعکس برپا ہوا۔
اس معرکے میں ماسٹرز کا تعلیمی معیار ماضی کے عام گریجویٹ سے بھی نیچے لڑھک گیا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں اس تیزی سے جاری ہوئیں کہ بہت سے پی ایچ ڈی اور ایم فل ماضی کے ماسٹر لیول کے برابر بھی خال خال نظر آتے ہیں۔
اس پر مستزاد اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کی کمرشل بھیڑ چال شروع ہو گئی، نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ڈگریوں کے اعتبار سے پی ایچ ڈی، ایم فل اور ماسٹرز کا انقلاب قلانچیں بھر رہا ہے جب کہ دوسری طرف ایجادات کے مصدقہ پیمانے یعنی پیٹنٹس اور کاپی رائٹس رجسٹریشن میں معاملہ جوں کا توں جمود کا شکار ہے۔
ایک زمانہ تھا انجینئرنگ یونیورسٹی سے گریجویٹ نکلتے تو ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے لیکن اب تو الا ماشاء اللہ زیادہ تر یونیورسٹیز کے انجینئرز بھی مناسب جاب کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ مجبوری میں گریجویٹ، ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی اپنے حقیقی مقام سے کہیں فروتر ملازمتوں پر مجبور ہیں۔
نجی سیکٹر میں قائم اسکولوں اور یونیورسٹیز میں ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اصل تنخواہیں جان کر دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ طلب کے مقابلے میں کسی بھی شے کی افراط اور بہتات سے بے قدری جنم لیتی ہے۔ یہ بے قدری کیا کم تھی کہ اس دوران حکومت نے بھی اعلیٰ تعلیم کے میدان سے عملاً ہاتھ اٹھانا شروع کردیے۔
یوں میدان اور گھوڑا چند استثنیات کے سوا مکمل طور کمرشلزم کے ہاتھ سونپ دیا گیا۔ اس پس منظر کے ساتھ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے عالمی معیار کے جدید علم، ریسرچ اور ٹیکنالوجی کی کسی نوید کی توقع شاید خام خیالی ہوگی۔
اس فہرست میں قائد اعظم یونیورسٹی کے بعد بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی شمولیت سے ہمارا ذہن پرانی یادوں کی طرف لوٹ گیا۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی 70 کے دہائی میں قائم ہوئی۔ اپنے قیام کے وقت اس کے انتظامی دفاتر، اکیڈمک بلاکس اور ہاسٹلز مختلف کوٹھیوں اور اسکولوں میں بکھرے ہوئے تھے۔
وائس چانسلر آفس گلگشت کالونی میں تھا۔ بزنس ایڈمنسٹریشن سمیت اردو، کیمسٹری، اکنامکس، انگلش اور فزکس کے شعبہ جات کمپری ہینسیو اسکول میں قائم تھے۔ ہاسٹلز مختلف کوٹھیوں میں قائم تھے۔ بزنس ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے پہلے بیچ میں غالباً 24 طلبہ کا انتخاب ہوا، ہم بھی ان خوش قسمت طلباء میں شامل تھے۔ نئے کیمپس کی زمین تھی مگر بلڈنگز بعد میں تعمیر ہوئیں۔
فاسٹ فارورڈ… 2025 پہلے بیچ کے طلباء و طالبات نے برنس ایڈمنسٹریشن کی کامیاب بنیاد رکھی جس پر بعد میں آنے والے اسٹوڈنٹس نے یونیورسٹی اور اپنا نام مزید روشن کیا۔
اس رپورٹ کے حوالے سے اس ہفتے اپنے پرانے کلاس فیلوز چوہدری ریاض احمد، سید عبد القادر شاہ، انجینئر عطاء اللہ اور خواجہ ودود کے ساتھ تادیر ان یادوں کا تذکرہ رہا۔ بے سروسامانی اور عدم شناخت سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی شناخت کا نصف صدی کا سفر شاندار رہا لیکن عالمی رینکنگ کے مطابق بہت سفر ابھی باقی ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یونیورسٹیز میں کی کیٹیگری میں تعلیمی اداروں اور ایجادات ا یونیورسٹی پاکستان کی ایجادات کے میں امریکا ایم فل اور ریسرچ اور پی ایچ ڈی کے مطابق شامل ہیں
پڑھیں:
خطے میں عدم تحفظ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں، سراج الدین حقانی کی ایرانی وفد سے گفتگو
سراج الدین حقانی نے کہا کہ جس طرح ہم دوسروں کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں، ہم دوسروں کی طرف سے افغانستان کے لیے بھی اسی طرح کے ارادوں اور احترام کی توقع رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ایک وفد سے ملاقات میں طالبان حکومت کے وزیر داخلہ نے خطے میں سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں عدم تحفظ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ طالبان حکومت کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جنرل محمد رضا بہرامی اور کابل میں ایرانی سفیر علیرضا بیکدالی اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد سے ملاقات کی۔
جاری کیے گئے بیان کے مطابق اس ملاقات میں بات چیت کا بنیادی محور دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون اور سرحدی امور تھے۔ دونوں فریقین نے منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ جنگ اور افغانستان اور ایران کے سرحد پر تعاون کو مضبوط بنانے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ حقانی نے علاقائی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امارت اسلامیہ تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر اچھے تعلقات کی خواہاں ہے، خاص طور پر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ، خطے میں عدم تحفظ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح ہم دوسروں کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں، ہم دوسروں کی طرف سے افغانستان کے لیے بھی اسی طرح کے ارادوں اور احترام کی توقع رکھتے ہیں۔ ایرانی وفد نے مشترکہ سرحدوں پر استحکام برقرار رکھنے اور افہام و تفہیم کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ واضح رہے کہ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گزشتہ ایک ہفتے تک افغانستان اور پاکستان کشیدگی جاری رہی۔
آج ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کشیدگی کو کم کرنے، تنازعات کو مکمل طور پر روکنے اور سفارت کاری کے ذریعے اختلافات کو حل کرنے کے مقصد سے فریقین کے درمیان فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے دونوں ہمسایہ اور مسلم ممالک کے درمیان امن برقرار رکھنے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار رہنے کا اعلان کیا۔