Jasarat News:
2025-12-03@15:56:17 GMT

پاک افغان جنگ: غار ت گر کاشانہ دین نبوی

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251019-03-8
پاک افغان جنگ کے بارے میں کیا کہا جائے۔ دونوں طرف نعرہ تکبیر بلند ہورہا ہے اور دونوں طرف مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ دونوں طرف خون مسلم کی حرمت کے بارے میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور رسالت مآبؐ کا حکم معطل ہے اور کفار کی کھینچی ہوئی سرحد مقدس ہے۔ اقبال یاد آجاتے ہیں؛

اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کِیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہ دینِ نبَوی ہے
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے

امت مسلمہ آج جس بنیادی مسئلے سے دوچار ہے وہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتوں میں اسلام کسی کا بھی وحدت بخش نقطہ نہیں ہے۔وطن پرستی کا شرک آج تمام محبتوں پر غالب ہے۔ وطن کی محبت نے مسلمانوں کو تقسیم ہی نہیں کیا ہے ایک دوسرے کے قتل کو بھی جشن میں تبدیل کردیا ہے۔ ضروری تھا کہ دونوں ملک پاکستان اور افغانستان انگریز استعمار کی کھینچی ہوئی لکیرکو کوئی اہمیت دیے بغیر یک جان ہوکر ایک امت کے افراد بن کر دونوں طرف کے مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کے لیے مشترکہ اقدامات اُٹھاتے۔ آج اس لکیر کو اہمیت دیتے ہوئے برسر جنگ ہیں۔ آج فلسطینیوں کے قتل پر مصر کے چین وآرام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شام کی بربادی پر ترکیہ کے بازار وں کی رونق ماند نہیں پڑتی، یمن کی بھوک پر خلیج کے محلات میں ضیافت کا سماں ہوتاہے۔ اس سلسلۂ کلام کو طول دیتے جائیے۔ اسلام ایک ایسا جرم بنا دیا گیا ہے جو استعمار کی کھینچی ہوئی سرحدوں سے ماورا سوچتا ہے۔

قوم، سرحد اور جھنڈا اب یہ وہ عصبیتیں ہیں مسلمان جس کے لیے جان دیتا بھی ہے اور جان لیتا ہے۔ امت واحدہ کی زندگیوں سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا اقتدار اعلیٰ غائب ہے۔ اس عدم موجودگی نے ہی مسلمانوں کے درمیان ان جزوی مسائل کو جنم دیا ہے جو اب مرکزی موضوع بن گئے ہیں جنہیں جھیلنے پر ہم مجبور ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، مسلمانوں کی عدم وحدت، غربت، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، امت مسلمہ کے وسائل پر استعمار کا تسلط، اسلامی علاقوں پر دیگر اقوام کا قبضہ، ناخواندگی، برے اخلاق کی ترویج وغیرہ۔ یہ وطن پرستی کا ہی بھوت ہے کہ آج مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کا قاتل بھارت اور نریندر مودی افغان حکومت کا دوست ہے اور اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن امریکا پاکستان کا دوست ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی موجودہ پریشان کن صورتحال بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اقتدار کی عدم موجودگی اور وطنیت کے بت کو سجدہ ریزی ہے جس نے دونوں طرف شکایتوں کے انبار اور پچھلے ہفتے سے ایک منظم جنگ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت جس میں 48 گھنٹوں کا سیز فائر آگیا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا جس طرح شکار ہے، جس طرح یہاں تواتر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں، ایک ایک دن میں گیارہ جوانوں کی شہادتیں ہورہی ہیں، کوئی بھی ریاست اس صورتحال کو برداشت نہیں کرسکتی۔ پاکستان ٹی ٹی پی کو ان حملوں کا ذمے دار سمجھتا ہے۔ پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کو نہ صرف سپورٹ کررہی ہے بلکہ انہیں تحفظ بھی دے رہی ہے۔ لہٰذا پاکستان ایک عرصے سے افغان حکومت پر زور دیتا آرہا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور افغانستان سے ٹی ٹی پی کا خاتمہ کرے۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو پھر پاکستان کو خود ٹی ٹی پی کے خلاف اقدام کرنا ہوں گے جن کا نتیجہ پاک افغان کشیدگی اور جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ ہو یا امریکا، کا پاکستان نے افغان مجاہدین کی بہت مدد کی۔ جس کی وجہ سے امریکا پاکستان سے ناراض بھی رہا اور ڈبل گیم کے طعنے بھی ایک تواتر کے ساتھ دیتا رہا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد افغان حکومت کا رویہ اور کردار ’’پاکستان دوست‘‘ کے بجائے مخاصمانہ رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ معاملے کے تین فریق ہیں: ٹی ٹی پی، تحریک طالبان پاکستان، ٹی ٹی اے تحریک طالبان افغانستان یعنی افغان حکومت اور پاکستان۔ افغان حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے دشمنی اور محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ افغانستان میں جو متعدد عسکری گروہ موجود ہیں داعش سمیت ان میں ٹی ٹی پی سب سے مضبوط اور طاقتور ہے جو دیگر گروپوں خصوصاً داعش کے ساتھ مل کر افغان حکومت کا صفایا کرسکتی ہے۔ داعش کو افغان حکومت پاکستان حمایت یافتہ سمجھتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے۔

دوسری پیچیدگی اس مسئلے میں یہ ہے کہ اگر افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو خود افغان حکومت میں ٹوٹ پھوٹ ہوسکتی ہے اور ان کے اپنے لوگ انہیں چھوڑ کر ٹی ٹی پی کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت پاکستان کی بات سن تو لیتی ہے لیکن کسی بھی عملی اقدام سے گریزاں رہتی ہے۔ وہ پاکستان کو کبھی داعش کی حمایت کے غلط طور پر طعنے دیتی ہے، کبھی دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے جس سے پاکستان کو خود نمٹنا ہے اور کبھی خاموشی اختیار کرلیتی ہے۔ اس مرتبہ ایک قدم آگے بڑھ کر دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے مصداق امیر متقی بھارت جاکر بیٹھ گئے جس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔

بھارت کی پشت پناہی افغان حکومت کی بصارت کی آئینہ دار ہے اور نہ بصیرت کی۔ جس سے نہ انہیں کچھ حاصل ہوگا اور نہ بھارت کو۔ داعش نے ہندو ریاست سے ہاتھ ملانے پر جس پر افغان حکومت کو لعن طعن کی ہے۔ بھارت سوائے مالی امداد اور پاکستان کے خلاف مسلسل اکسانے کے افغان حکومت کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ بھارت جس طرح پاکستان کے خلاف ایک اور حملے کی تیاری کررہا ہے افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد کا گرم ہوجانا اس کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے۔ افغانستان اور بھارت دونوں کی مشترکہ کوشش ہے کہ پاکستان مشرق اور مغرب دونوں سرحدوں پر برسر جنگ رہے۔ اللہ رحم کرے۔ یہ معاملہ جلد ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔

بابا الف سیف اللہ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: افغان حکومت کا اور افغانستان کہ افغان ٹی ٹی پی یہ ہے کہ کے ساتھ کے خلاف ہے کہ ا کے لیے ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

اسلامی ممالک پاک افغانستان تنازعہ میں کردار ادا کر سکتے ہیں: افغان سفیر

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان میں افغان سفیر سردار احمد شکیب نے کہا ہے کہ افغانستان امن کا خواہاں ہے۔ اسلامی ممالک پاک افغان تنازعات کے حل میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ امارت اسلامی نے ہمیشہ دیگر راستوں کے مقابلے میں مشاورت کو ترجیح دی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی
  • پاک افغان کشیدگی، خواب ریزہ ریزہ
  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات ؟
  • بھارت اور افغانستان سے چلنے والے درجنوں پاکستان مخالف اکاونٹس کا انکشاف
  • افغانستان پر حملے کی تیاری مکمل؟
  • منشیات کا پھیلاؤ ’’فساد فی الارض‘‘ ہے !
  • اسلامی ممالک پاک افغانستان تنازعہ میں کردار ادا کر سکتے ہیں: افغان سفیر
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کے خیالات
  • افغان حکومت، خطے کے امن کی دشمن
  • 78 سال میں ہم افغانستان کو دوست نہیں بنا سکے: مولانا فضل الرحمٰن