Jasarat News:
2025-10-19@02:08:21 GMT

پاک افغان جنگ: غار ت گر کاشانہ دین نبوی

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251019-03-8
پاک افغان جنگ کے بارے میں کیا کہا جائے۔ دونوں طرف نعرہ تکبیر بلند ہورہا ہے اور دونوں طرف مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ دونوں طرف خون مسلم کی حرمت کے بارے میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور رسالت مآبؐ کا حکم معطل ہے اور کفار کی کھینچی ہوئی سرحد مقدس ہے۔ اقبال یاد آجاتے ہیں؛

اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کِیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہ دینِ نبَوی ہے
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے

امت مسلمہ آج جس بنیادی مسئلے سے دوچار ہے وہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتوں میں اسلام کسی کا بھی وحدت بخش نقطہ نہیں ہے۔وطن پرستی کا شرک آج تمام محبتوں پر غالب ہے۔ وطن کی محبت نے مسلمانوں کو تقسیم ہی نہیں کیا ہے ایک دوسرے کے قتل کو بھی جشن میں تبدیل کردیا ہے۔ ضروری تھا کہ دونوں ملک پاکستان اور افغانستان انگریز استعمار کی کھینچی ہوئی لکیرکو کوئی اہمیت دیے بغیر یک جان ہوکر ایک امت کے افراد بن کر دونوں طرف کے مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کے لیے مشترکہ اقدامات اُٹھاتے۔ آج اس لکیر کو اہمیت دیتے ہوئے برسر جنگ ہیں۔ آج فلسطینیوں کے قتل پر مصر کے چین وآرام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شام کی بربادی پر ترکیہ کے بازار وں کی رونق ماند نہیں پڑتی، یمن کی بھوک پر خلیج کے محلات میں ضیافت کا سماں ہوتاہے۔ اس سلسلۂ کلام کو طول دیتے جائیے۔ اسلام ایک ایسا جرم بنا دیا گیا ہے جو استعمار کی کھینچی ہوئی سرحدوں سے ماورا سوچتا ہے۔

قوم، سرحد اور جھنڈا اب یہ وہ عصبیتیں ہیں مسلمان جس کے لیے جان دیتا بھی ہے اور جان لیتا ہے۔ امت واحدہ کی زندگیوں سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا اقتدار اعلیٰ غائب ہے۔ اس عدم موجودگی نے ہی مسلمانوں کے درمیان ان جزوی مسائل کو جنم دیا ہے جو اب مرکزی موضوع بن گئے ہیں جنہیں جھیلنے پر ہم مجبور ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، مسلمانوں کی عدم وحدت، غربت، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، امت مسلمہ کے وسائل پر استعمار کا تسلط، اسلامی علاقوں پر دیگر اقوام کا قبضہ، ناخواندگی، برے اخلاق کی ترویج وغیرہ۔ یہ وطن پرستی کا ہی بھوت ہے کہ آج مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کا قاتل بھارت اور نریندر مودی افغان حکومت کا دوست ہے اور اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن امریکا پاکستان کا دوست ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی موجودہ پریشان کن صورتحال بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اقتدار کی عدم موجودگی اور وطنیت کے بت کو سجدہ ریزی ہے جس نے دونوں طرف شکایتوں کے انبار اور پچھلے ہفتے سے ایک منظم جنگ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت جس میں 48 گھنٹوں کا سیز فائر آگیا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا جس طرح شکار ہے، جس طرح یہاں تواتر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں، ایک ایک دن میں گیارہ جوانوں کی شہادتیں ہورہی ہیں، کوئی بھی ریاست اس صورتحال کو برداشت نہیں کرسکتی۔ پاکستان ٹی ٹی پی کو ان حملوں کا ذمے دار سمجھتا ہے۔ پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کو نہ صرف سپورٹ کررہی ہے بلکہ انہیں تحفظ بھی دے رہی ہے۔ لہٰذا پاکستان ایک عرصے سے افغان حکومت پر زور دیتا آرہا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور افغانستان سے ٹی ٹی پی کا خاتمہ کرے۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو پھر پاکستان کو خود ٹی ٹی پی کے خلاف اقدام کرنا ہوں گے جن کا نتیجہ پاک افغان کشیدگی اور جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ ہو یا امریکا، کا پاکستان نے افغان مجاہدین کی بہت مدد کی۔ جس کی وجہ سے امریکا پاکستان سے ناراض بھی رہا اور ڈبل گیم کے طعنے بھی ایک تواتر کے ساتھ دیتا رہا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد افغان حکومت کا رویہ اور کردار ’’پاکستان دوست‘‘ کے بجائے مخاصمانہ رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ معاملے کے تین فریق ہیں: ٹی ٹی پی، تحریک طالبان پاکستان، ٹی ٹی اے تحریک طالبان افغانستان یعنی افغان حکومت اور پاکستان۔ افغان حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے دشمنی اور محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ افغانستان میں جو متعدد عسکری گروہ موجود ہیں داعش سمیت ان میں ٹی ٹی پی سب سے مضبوط اور طاقتور ہے جو دیگر گروپوں خصوصاً داعش کے ساتھ مل کر افغان حکومت کا صفایا کرسکتی ہے۔ داعش کو افغان حکومت پاکستان حمایت یافتہ سمجھتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے۔

دوسری پیچیدگی اس مسئلے میں یہ ہے کہ اگر افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو خود افغان حکومت میں ٹوٹ پھوٹ ہوسکتی ہے اور ان کے اپنے لوگ انہیں چھوڑ کر ٹی ٹی پی کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت پاکستان کی بات سن تو لیتی ہے لیکن کسی بھی عملی اقدام سے گریزاں رہتی ہے۔ وہ پاکستان کو کبھی داعش کی حمایت کے غلط طور پر طعنے دیتی ہے، کبھی دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے جس سے پاکستان کو خود نمٹنا ہے اور کبھی خاموشی اختیار کرلیتی ہے۔ اس مرتبہ ایک قدم آگے بڑھ کر دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے مصداق امیر متقی بھارت جاکر بیٹھ گئے جس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔

بھارت کی پشت پناہی افغان حکومت کی بصارت کی آئینہ دار ہے اور نہ بصیرت کی۔ جس سے نہ انہیں کچھ حاصل ہوگا اور نہ بھارت کو۔ داعش نے ہندو ریاست سے ہاتھ ملانے پر جس پر افغان حکومت کو لعن طعن کی ہے۔ بھارت سوائے مالی امداد اور پاکستان کے خلاف مسلسل اکسانے کے افغان حکومت کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ بھارت جس طرح پاکستان کے خلاف ایک اور حملے کی تیاری کررہا ہے افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد کا گرم ہوجانا اس کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے۔ افغانستان اور بھارت دونوں کی مشترکہ کوشش ہے کہ پاکستان مشرق اور مغرب دونوں سرحدوں پر برسر جنگ رہے۔ اللہ رحم کرے۔ یہ معاملہ جلد ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔

بابا الف سیف اللہ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: افغان حکومت کا اور افغانستان کہ افغان ٹی ٹی پی یہ ہے کہ کے ساتھ کے خلاف ہے کہ ا کے لیے ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

افغانستان کا پاکستان مخالف کردار

افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔

اقوام محتدہ کی وقتاً فوقتاً شایع ہونے والی رپورٹوں میں یہ کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کی پناہ گاہیں موجود ہیں، انھیں افغانستان کی طالبان حکومت مکمل طور پر تحفظ بھی فراہم کر رہی ہے اور وہاں موجود دہشت گرد گروہوں کی قیادت آزادانہ نقل وحرکت بھی کر رہی ہے اور انھیں کاروبار کرنے کی بھی مکمل آزادی ہے۔

دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ بھی ہو رہی ہے اور انھیں اسلحہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے متعدد بار افغانستان کی طالبان حکومت کو رپورٹ بھی کیا ہے اور احتجاج بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کی طالبان حکومت نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ دہشت گردوں کی پاکستان میں کارروائیوں میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔

آخرکار پاکستان کو مجبور ہو کر دہشت گردوں کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان کی کامیاب کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی دوران افغانستان نے عارضی جنگ بندی کی درخواست کی جس پر عارضی جنگ بندی میں دوحہ میں مذاکرات تک توسیع کردی گئی ہے۔

دوحہ میں جو بھی فیصلہ ہو لیکن یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اب پاکستان اپنے ملک میں دہشت گردی مزید برداشت نہیں کرے گا۔ پاک فوج کے سربراہ نے بھی افغانستان کو واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں موجود دہشت گرد گروہوں کو لگام دے۔

افغانستان میں جب سے طالبان کی حکومت برسراقتدار آئی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ پاکستان کی ڈھلمل افغان پالیسی کی وجہ سے بھی دہشت گردوں کو پنپنے کا موقع ملا، سابقہ حکومت کے دور میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان میں لا کر بسایا گیا اور انھیں باقاعدہ طور پر مالی امداد بھی دی گئی۔

اس کا خمیازہ آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ جنھیں ٹی ٹی پی کے لوگ کہہ کر پاکستانی قرار دیا جاتا ہے، کیا وہ واقعی میں پاکستان کے شہری ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جانا چاہیے اور اس حوالے سے باقاعدہ طور پر تحقیقات ہونا چاہیے۔

پاکستان کی ماضی کی افغان پالیسی کی وجہ سے افغان باشندوں کو جو ڈھیل ملی ہے اس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں افغانستان کے شہریوں نے پاکستان کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹس بنوائے ہیں۔

سابقہ فاٹا کی صورت حال تو ایسی تھی کہ وہاں کسی قسم کی کوئی پابندی ہی نہیں تھی۔ اس لیے یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ جن دہشت گردوں نے اپنی تنظیم کا نام تحریک طالبان پاکستان رکھا ہے، کیا وہ واقعی پاکستان کے شہری ہیں؟ اصولی طور پر تو انھیں پاکستان کا نام استعمال کرنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، ان کا جرم اس قدر سنگین ہے کہ اگر وہ بفرض محال پاکستانی ہیں بھی تو ان کی نیشنیلٹی ختم کر دینی چاہیے یا وہ واقعی ختم بھی ہو چکی ہے۔

اس لیے یہ سب لوگ پاکستان کے لیے غیرملکی دہشت گرد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ اسی اصول کے تحت نمٹا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ سارے لوگ افغانستان پر قابض افغان طالبان کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔

سچ تو یہی ہے کہ یہ لوگ افغانستان کے شہری کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ کیونکہ جو لوگ اپنے ہی شہریوں کو غلام بنا کر رکھے ہوئے ہیں، وہ لوگوں پر اپنا قانون چلا رہے ہیں لیکن خود کسی بھی قانون کے دائرے میں نہیں ہیں۔ انھیں افغانستان کا حقیقی اور اصلی شہری کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟

پاکستان کی حکومت نے غیرقانونی افغان مہاجرین کو فوری طور پر واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے انھیں کوئی مہلت نہیں دی جائے گی، کہا گیا ہے کہ صرف وہی افغان باشندے پاکستان میں رہ سکیں گے جن کے پاس درست ویزا ہوگا۔

میڈیا کے مطابق وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیرصدارت گزشتہ روز افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزرا، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے نمایندے مزمل اسلم شریک ہوئے۔

اجلاس میںوفاقی و صوبائی حکومتوں اور اداروں کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے تمام صوبائی حکومتوں، وفاقی و صوبائی اداروں کو پاکستان میں غیرقانونی طور پر موجود افغان باشندوں کی جلد از جلد وطن واپسی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملے اور افغانوں کا ان حملوں میں ملوث ہونا تشویشناک ہے۔ 

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پیاروں کی قربانیاں دینے والے پاکستان کے بہادر عوام ہم سے سوال کرتے ہیں کہ حکومت کب تک افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھائے گی، افغانستان کے حملوں کو پسپا کرنے پر پوری قوم افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، ہماری بہادر افواج مادر وطن کا دفاع کرنا جانتی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہائیوں سے مشکلات میں گھرے افغانستان کی پاکستان نے ہر مشکل وقت میں مدد کی، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا۔

وزیراعظم نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں اور پاکستان میں مقیم افغانوں کے ان حملوں میں ملوث ہونے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار متعدد بار افغانستان کے دورے پر گئے اور افغان نگران حکومت کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے کے حوالے سے مذاکرات کیے، پاکستان نے افغانستان سے پاکستان میں خوارج کی در اندازی کو روکنے کی سفارتی و سیاسی اقدامات کے ذریعہ بھرپور کوشش کی۔

اجلاس کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی مرحلہ وار وطن واپسی شروع کی گئی،  16اکتوبر 2025 تک 14 لاکھ 77 ہزار 592 افغانوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ افغانستان کی جانب ایگزٹ پوائنٹس کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے تاکہ افغانوں کی وطن واپسی سہل اور تیزی سے ممکن ہو سکے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر موجود افغان باشندوں کو پناہ دینا اور انھیں گیسٹ ہاؤسز میں قیام کی اجازت دینا قانونا جرم ہے، ایسے افغان باشندوں کی نشاندہی کی جارہی ہے، پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے عمل میں عوام کو شراکت دار بنایا جائے گا اور کسی کو بھی افغانوں کو حکومت کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پناہ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اجلاس کے اختتام پر فورم نے فیصلہ کیا کہ اجلاس میں پیش کردہ تمام سفارشات پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے صوبوں کو مکمل تعاون کی درخواست کی۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی باتیں برسوں سے جاری ہیں لیکن اس مسئلے کو آج تک مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکا۔

پاکستان میں قانونی اور غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی تعداد کے بارے میں گاہے بگاہے تخمینے آتے رہتے ہیں۔ ان تخمینوں کے مطابق ایسے افغان باشندوں کی تعداد تیس سے چالیس لاکھ کے قریب ہے۔

ایسے میں اگر ستر اسی ہزار کو واپس بھیجا گیا ہے تو یہ کوئی بڑی تعداد نہیں ہے۔ پھر یہ بھی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں یا اگر موجود ہیں تو انھیں ظاہر نہیں کیا جا رہا کہ جن افغان باشندوں کو واپس بھیجا گیا ہے، ان میں سے کتنے واپس آئے ہیں۔

اس لیے افغانستان کے باشندوں کو واپس بھیجنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اور اگر متعلقہ محکموں اور اداروں کے افسران اور ملازمین ان قوانین پر عمل کرنے میں سست روی یا کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ایسے سرکاری ملازمین کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے سخت سزاؤں اور جرمانوں کا نفاذ کیا جانا چاہیے۔

پاکستان کو بچانے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر کوئی صوبائی حکومت اس انتہائی اہم، نازک اور حساس معاملے پر دوعملی کا مظاہرہ کرتی ہے یا مزاحمت کرتی ہے تو اس حوالے سے بھی قومی اور صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کر کے وفاق کو یہ معاملہ براہ راست اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے صوبوں میں افغان مہاجرین کی واپسی کا ٹارگٹ وفاقی اداروں کے سپرد کر دیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان کا پاکستان مخالف کردار
  • افغان حکومت بھارت سے خوشگوار تعلقات رکھے لیکن پاکستان کی سلامتی کی قیمت پر نہیں، خواجہ سعد رفیق
  •  افغان حکومت بھارت  سے خوشگوار تعلقات رکھے لیکن پاکستان کی سلامتی کی قیمت پر نہیں: سعد رفیق 
  • افغان مسئلہ کا حل
  • افغانستان بھارت کی پراکسی بن چکا، پاکستان مزید برداشت نہیں کرے گا: خواجہ آصف
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیز فائر میں توسیع
  • پاکستان کا افغان طالبان کے الزامات پر ردعمل، دفترِ خارجہ نے افغان الزامات کو مسترد کر دیا
  • غزہ امن معاہدہ ،پاک افغان بڑھتی کشیدگی
  • افغان جارحیت