سراج الدین حقانی کی نظربندی کیا طالبان بکھر گئے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251019-03-7
افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی کے دورۂ بھارت کے بعد طالبان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی نظربندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افغان طالبان ان عناصر کو ذرا بھی برداشت نہیں کر رہے جن سے پاکستان کوئی رابطہ کر سکتا ہے۔ افغان طالبان کا خیال ہے کہ پاکستان اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے حقانی گروپ سے دوبارہ رابطہ کر سکتا ہے اور طالبان کو حقانی گروپ پر اعتماد کیوں نہیں ہے کہ وہ ملا ہیبت اللہ کی بات مانیں گے؟ یا پاکستان کی۔ اگرچہ اس نظر بندی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سراج الدین حقانی افغان طالبان کو پاکستان سے الجھنے سے روکتے رہے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نظر بند کیا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ ذرائع کے مطابق یہ وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے ایرانی سفارت کاروں سے ملاقات کی تھی۔ یہ بات اس لیے سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک وزیر داخلہ تو سفارت کاروں سے ملاقات کر ہی سکتا ہے، اس میں اس کو نظر بند کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
لیکن بھارت کا خیال تھا پاکستان کے پاس بھی شاید یہی ایک آپشن ہے، جس کو استعمال کیا جا سکتا ہے بھارت نے اگر یہ مشورہ دیا ہے اور بھارت کے مشورے پر سراج الدین حقانی کو نظر بند کیا گیا ہے تو یہ طالبان کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ اس لیے کہ اس سے طالبان کی اپنی قوت میں کمی آئے گی اور ان کے اپنے اندر متحارب گروپ بن جائیں گے جو ان کے اقتدار کو مزید کمزور کر دیں گے۔ اس لیے کہ طالبان سے اقتدار چھیننے کے لیے کئی قوتیں افغانستان میں سرگرم ہیں ان میں داعش بھی ہے اور شمالی اتحاد بھی، مذہبی قوتوں کا زور اب دنیا میں کم ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ افغان مجاہدین جو سوویت یونین سے لڑے تھے ایک ماڈریٹ اسلامی افغانستان کے لیے زیادہ موزوں ہوں گے اور دنیا کی تمام قوتوں کے لیے قابل قبول بھی۔ طالبان اور داعش دونوں نہ اسلامی دنیا کے لیے قابل قبول ہیں اور نہ ہی سیکولر دنیا کے لیے۔ بھارت اگر افغانستان کو جنگ کی آگ میں مسلسل جلتا دیکھنا چاہتا ہے تو یہ بھول جائے کہ اب دنیا افغانستان میں کسی جنگ کو برداشت کرے گی، اب وقت کی ضرورت دنیا کو جنگوں سے نکالنے کی ہے نہ کہ مزید جنگوں میں ڈالنے کی، بھارت اگر جنگ کی آگ بھڑکائے گا تو اس آگ میں وہ خود جل کر راکھ ہو جائے گا اور دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا اس کی حالت بھی آج کے افغانستان کے جیسی ہو جائے گی۔
افغان طالبان کی اندرونی کشمکش بہت بڑھ گئی ہے اور شاید ان کے درمیان مشاورت کا عمل بھی کم سے کم ہو گیا ہے۔ سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی اس کا ثبوت ہے اور اس کے اثرات جلدی سارے افغانستان میں نظر آئیں گے۔ افغانستان میں طالبان کی قیادت میں حالیہ پیش رفت نے ملک کی سیاسی و عسکری صورتحال میں ایک نیا موڑ دیا ہے۔ طالبان کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کو طالبان کے امیر ہیبت اللہ کے حکم پر گھر پر نظر بند کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام نے طالبان کے اندرونی سیاسی تنازعات کو بے نقاب کیا ہے اور اس کے وسیع تر اثرات خطے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک ایک عسکری و سیاسی تنظیم ہے، جس کی بنیاد جلال الدین حقانی نے رکھی تھی۔ یہ نیٹ ورک 1970 اور 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کا حصہ رہا اور بعد میں طالبان کی طاقتور شاخ کے طور پر ابھرا۔ حقانی گروپ نے خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں اپنے اثر رسوخ کو مستحکم کیا اور عسکری کارروائیوں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سراج الدین حقانی، جو جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں، آج بھی اس نیٹ ورک کی قیادت کر رہے ہیں اور طالبان حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی طالبان کی عسکری اور انتظامی طاقت کے لیے اہم سمجھی جاتی تھی۔
طالبان امیر کی جانب سے سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی دراصل طالبان کی قیادت کے اندرونی اختلافات اور طاقت کی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق حقانی گروپ نے طالبان کے باقی حصوں کے ساتھ علٰیحدگی کی سیاست اپنائی، یا امیر کی قیادت پر سوالات اٹھائے، جس کے باعث امیر نے انہیں روکا۔ گزشتہ چند ماہ میں حقانی نیٹ ورک کے ارکان اور طالبان کی دیگر شاخوں کے مابین ربط کمزور ہوتا دکھائی دیا ہے۔ یہ اقدام طاقت کی تقسیم میں عدم توازن اور طالبان کے اجارہ داری نظام کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی علامت ہے۔ سراج الدین حقانی کی نظر بندی کے بعد ان کے نیٹ ورک کے افراد کو کابل اور دیگر اہم حکومتی و عسکری مقامات کی سیکورٹی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کابل افغانستان کا دارالحکومت اور سیاسی مرکز ہے، اور اس کی سیکورٹی حکمت عملی میں طالبان کی مرکزی وفاداریاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کا سیکورٹی سے نکالے جانا طالبان کی اندرونی صف بندی اور نئی حکمت عملی کے نفاذ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان کی قیادت نئے وفادار گروپوں کو سیکورٹی ذمے داریاں سونپنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اپنے کنٹرول کو مضبوط کیا جا سکے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ بھارت نواز طالبان یا ٹی ٹی پی کے لوگوں کو سیکورٹی پر تعینات کیا جائے۔ سیاسی اور عسکری نتائج پر مبنی یہ اقدام طالبان کے اندرونی اتحاد پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کی طاقت میں کمی سے طالبان کی طاقت ورانہ ساخت میں خلا پیدا ہو سکتا ہے، جو نئے بحران یا کشمکش کو جنم دے سکتا ہے۔ اس سے افغانستان میں سیکورٹی صورتحال پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقے جہاں حقانی گروپ کا اثر رسوخ طاقتور ہے۔
حقانی گروپ کو ممکن ہے کہ دوبارہ پاکستان کی طرف سے کوئی سپورٹ ملے تاکہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے بھی ان سے بات چیت ہو سکے اگرچہ حقانی گروپ نے پہلے ٹی ٹی پی کی سرپرستی کی تھی۔ علاوہ ازیں، حقانی نیٹ ورک کی سیکورٹی رولز سے علٰیحدگی سے طالبان کی عسکری صلاحیت پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ نیٹ ورک گزشتہ دو دہائیوں میں طالبان کی سب سے مضبوط عسکری شاخ رہا ہے۔ علاقائی اور عالمی ردعمل عالمی برادری اور خطے کے ممالک افغانستان میں اس تبدیلی پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک پر ماضی میں دہشت گردی کے الزامات رہے ہیں اور امریکا سمیت کئی ممالک نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اس نیٹ ورک کی کمزوری طالبان کے پالیسی اور اتحاد کا امتحان ہو سکتی ہے۔ پاکستان، ایران، چین اور روس جیسے پڑوسی ممالک اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے حوالے سے اس صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ان ممالک کے لیے طالبان کی قیادت میں اصلاحات اور طاقت کی تقسیم کے عمل کا تعین اہم ہوگا، جو خطے کے امن اور استحکام پر اثر ڈال سکتا ہے۔ افغان طالبان میں بڑھتی ہوئی کشمکش اور سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان ابھی تک مکمل طور پر متحد نہیں ہیں۔ سراج الدین حقانی کی نظربندی اور حقانی نیٹ ورک کے طالبان کو سیکورٹی سے ہٹانے کے بعد طالبان کی قیادت کو نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ داخلی اختلافات کو کم کیا جا سکے۔ یہ سیاسی واقعہ افغانستان میں طالبان حکومت کی پائیداری اور مستقبل کی سمت کے حوالے سے نئے سوالات اٹھاتا ہے۔ اس وقت سب کی نظریں طالبان کی آئندہ کارروائیوں اور داخلی امن و اتحاد کی بحالی پر ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سراج الدین حقانی کی نظر طالبان کی قیادت گھر پر نظر بند افغانستان میں حقانی نیٹ ورک میں طالبان کی افغان طالبان طالبان کی ا وزیر داخلہ اور طالبان حقانی گروپ نیٹ ورک کے نیٹ ورک کی طالبان کے رہے ہیں سکتا ہے اور اس کے لیے ہے اور گیا ہے اس لیے دیا ہے کیا جا
پڑھیں:
پاک افغان طالبان مذاکرات کا اگلا دور، 6 نومبر کو ہونے والی بیٹھک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے مابین گزشتہ مذاکرات کے دور میں جن معاملات پر ڈیڈلاک تھا وہ ڈیڈلاک برقرار ہے اور مذاکرات شروع ہونے سے قبل جو ماحول ہونا چاہییے تھا وہ ماحول نہیں جو مذاکرات کی کامیابی کے لیے اچھا شگون نہیں تاہم اگر جنگ بندی پر ہی دونوں ممالک اتفاق کر لیتے ہیں تو یہ چیز بھی ایک اہم قدم کے طور پر شمار کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان مذاکرات کامیاب، ٹی ٹی پی کی شامت، مولانا فضل الرحمان آگ اگلنے لگے
25 سے 30 اکتوبر پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات ایک لحاظ سے ناکام ہوئے کہ ان میں دہشتگردی کی مانیٹرنگ کے حوالے سے میکنزم طے نہیں ہو پایا لیکن ان مذاکرات میں سیز فائر کو 6 نومبر تک توسیع دی گئی۔
پاک افغان صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین نے اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات کا اگلا مرحلہ کتنا کامیاب ہو گا، اس بات کا دارومدار اِس چیز پر ہے کہ طرفین کی جانب سے اعتماد سازی کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں کیونکہ اِس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ لیکن 30 اکتوبر سے اب تک ہم نے دیکھا کہ دونوں اطراف سے تند و تیز بیانات جاری کیے گیے۔
افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں ایک بیان دیا کہ استنبول مذاکرات میں افغان حکومت نے پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی خدشات کے حامل افراد کو ڈیپورٹ کرنے کی پیشکش کی لیکن پاکستان نے انکار کرتے ہوئے انہیں افغانستان میں ہی روکنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پاکستان کی حالیہ کارروائیاں (جیسے فضائی حملے) امریکا کی افواج کو بگرام ایئر بیس پر واپس لانے کی راہ ہموار کرنے کا مقصد رکھتی ہیں اور امریکا کے ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے گزر کر افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔ مجاہد نے مزید کہا کہ پاکستان کا واحد مطالبہ تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنا ہے لیکن ٹی ٹی پی افغان حکومت کے ماتحت نہیں اور یہ پاکستان کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
اس کے جواب میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ان بیانات کو ’مکار اور گمراہ کن‘ قرار دیا اور کہا کہ طالبان حکومت افغانستان کی نمائندہ نہیں ہے، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے، اور نسلی گروہوں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان حکومت میں گہرے اندرونی اختلافات ہیں اور یہ افغان عوام کو اظہار رائے، تعلیم اور سیاسی نمائندگی جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے۔
مزید پڑھیے: پاک افغان بارڈر کی بندش: خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
یہ ردعمل پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری سرحدی تناؤ اور مذاکرات کے تناظر میں سامنے آیا جہاں پاکستان نے مجاہد کے دعووں کو ’جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کرنے‘ کا الزام لگایا اور کہا کہ انہوں نے دراصل افغانستان سے دہشتگردوں کو گرفتار کرنے یا پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 6 نومبر 2025 کو استنبول میں ہونے والا مذاکرات کا تیسرا دور ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہو گا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو پناہ دی جا رہی ہے جو پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان پاکستان پر فضائی حملوں اور سرحدی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتا ہے۔
اکتوبر کے آخر میں استنبول میں ہونے والے ابتدائی مذاکرات میں فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کیا جو 6 نومبر تک برقرار رہے گی۔
اگلے دور میں جنگ بندی کی نگرانی اور عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات چیت ہو گی۔ تاہم گہرے عدم اعتماد اور جاری الزامات کی وجہ سے بڑی پیشرفت کا امکان کم ہے۔
پاکستان کی فوج نے واضح کیا ہے کہ اگر سرحدی حملے اور دراندازی کی کوششیں جاری رہیں تو جنگ بندی ختم ہو سکتی ہے۔
اعتماد سازی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، طاہر خانافغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 6 نومبر کو مذاکرات میں کیا ہوتا ہے اس کے نتائج کے لیے انتظار کرنا پڑے گا لیکن مذاکرات کی کامیابی میں چیلنجز تو ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا جو دوسرا دور ہوا تھا اس کے بعد سے اعتماد سازی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے مذاکرات پر مثبت اثر ہو۔
مزید پڑھیں: پاک افغان مذاکرات ناکام، خواجہ آصف نے طالبان کو وارننگ دے دی
طاہر خان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان وہی تلخی اور کشیدگی ہے اور سرحدیں بند ہیں سوائے مہاجرین کے لیے کیونکہ پاکستان خود ان کی واپسی چاہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی جانب سے اعتماد سازی کی بجائے بیانات کا سلسلہ جاری ہے جو کہ ایک منفی چیز ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مثبت بات نہیں کر سکتے تو خاموشی بہتر ہوتی ہے کیونکہ بیانات میں تلخی ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک دوسرے کو مثبت پیغامات نہیں دیے جا رہے اب ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے گانے بنائے جا رہے ہیں جو مذاکرات اور دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے بالکل بھی درست نہیں۔
طاہر خان نے کہا کہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال جوں کی توں ہے۔ کل ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان آیا اور اُس سے پہلے کابل سے بھی بیانات آئے تو ان سے پتا چلتا ہے کہ جن معاملات پر ڈیڈلاک تھا وہ ابھی تک برقرار ہے لیکن مذاکرات سے پہلے جو ماحول ہے وہ مذاکرات کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ 25 سے 30 اکتوبر مذاکرات کے بعد جنگ بندی اور مزید مذاکرات پر اتفاق اچھی بات تھی لیکن اس کے بعد کچھ ایسی چیزیں ہونی چاہیے تھیں جو مذاکراتی عمل کو آگے بڑھا پاتیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
6 نومبر اہم مگر محدود پیشرفت کا موقع ہے، محمود جان بابرافغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اور مبصر محمود جان بابر کہتے ہیں کہ 6 نومبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کسی بڑے بریک تھرو کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
انہوں ے کہا کہ اتنا بھی ہو جائے کہ مستقل جنگ بندی کے لیے کوئی طریقہ کار طے کر لیا جائے تو یہ بھی پہلا مثبت قدم سمجھا جائے گا۔ ممکن ہے ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں ایک فریم ورک طے ہو جائے جس میں سرحدی نگرانی، معلومات کا تبادلہ اور مرحلہ وار اقدامات شامل ہوں لیکن یہ فوری امن نہیں دے گا ہاں کشیدگی کو کم ضرور کر دے گا اور دیرپا امن کی امید قبل از وقت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیرِدفاع تو پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں حالات کھلی جنگ کی سمت جا سکتے ہیں۔ اور جنگ کی صورتحال تو ہے اور اس کا اثر سرحدی علاقے کے لوگوں کی زندگیوں پر پڑے گا۔6 نومبر اہم مگر محدود پیش رفت کا موقع ہے۔ دور کو فیصلہ کن سمجھا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اصل رکاوٹ کہاں ہے۔ اِن مذاکرات کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں کیونکہ پاکستان کا دوٹوک مؤقف ہے کہ افغان سرزمین پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ دہشتگردی میں ملوث گروہ افغانستان سے کاروائیاں کر رہے ہیں جبکہ کابل کا کہنا ہے کہ ان گروہوں پر ان کا مکمل کنٹرول نہیں اِس لیے ان کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کی دیوار کھڑی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا کہنا ہے افغان مذاکراتی ٹیم اکثر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتی ہے اور کابل سے بار بار پوچھتی ہے کہ ہمیں آگے کیا کرنا چاہیئے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ جبکہ کابل سمجھتا ہے کہ پاکستان کی شرائط اس کی خودمختاری کے خلاف ہیں اور یوں دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر پا رہے۔ مذاکرات کی کامیابی میں حائل تیسری رکاوٹ سرحدی جھڑپیں ہیں۔
افغانستان بار بار الزام لگاتا ہے کہ پاکستان ڈرون حملے کر رہا ہے جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ ایک ایسا مانیٹرنگ کا طریقہ کار اپنایا جائے جو جنگ بندی خلاف ورزیوں کی تصدیق کر سکے کہ کس کی وجہ سے سے سرحدی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں: استنبول: پاک افغان وفود کے درمیان جواب الجواب کے بعد ایک بار پھر مذاکرات شروع
مذاکرات کی راہ میں سرحدی بندش کی رکاوٹ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے سرحد کے آرپار بسنے والے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ اِن مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں کسی کو بھی خوش فہمی نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک افغان کشیدگی پاک افغان مذاکرات پاک افغان مذاکرات کا اگلا دور