Jasarat News:
2025-10-19@02:05:01 GMT

سراج الدین حقانی کی نظربندی کیا طالبان بکھر گئے؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251019-03-7
افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی کے دورۂ بھارت کے بعد طالبان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی نظربندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افغان طالبان ان عناصر کو ذرا بھی برداشت نہیں کر رہے جن سے پاکستان کوئی رابطہ کر سکتا ہے۔ افغان طالبان کا خیال ہے کہ پاکستان اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے حقانی گروپ سے دوبارہ رابطہ کر سکتا ہے اور طالبان کو حقانی گروپ پر اعتماد کیوں نہیں ہے کہ وہ ملا ہیبت اللہ کی بات مانیں گے؟ یا پاکستان کی۔ اگرچہ اس نظر بندی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سراج الدین حقانی افغان طالبان کو پاکستان سے الجھنے سے روکتے رہے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نظر بند کیا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ ذرائع کے مطابق یہ وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے ایرانی سفارت کاروں سے ملاقات کی تھی۔ یہ بات اس لیے سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک وزیر داخلہ تو سفارت کاروں سے ملاقات کر ہی سکتا ہے، اس میں اس کو نظر بند کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

لیکن بھارت کا خیال تھا پاکستان کے پاس بھی شاید یہی ایک آپشن ہے، جس کو استعمال کیا جا سکتا ہے بھارت نے اگر یہ مشورہ دیا ہے اور بھارت کے مشورے پر سراج الدین حقانی کو نظر بند کیا گیا ہے تو یہ طالبان کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ اس لیے کہ اس سے طالبان کی اپنی قوت میں کمی آئے گی اور ان کے اپنے اندر متحارب گروپ بن جائیں گے جو ان کے اقتدار کو مزید کمزور کر دیں گے۔ اس لیے کہ طالبان سے اقتدار چھیننے کے لیے کئی قوتیں افغانستان میں سرگرم ہیں ان میں داعش بھی ہے اور شمالی اتحاد بھی، مذہبی قوتوں کا زور اب دنیا میں کم ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ افغان مجاہدین جو سوویت یونین سے لڑے تھے ایک ماڈریٹ اسلامی افغانستان کے لیے زیادہ موزوں ہوں گے اور دنیا کی تمام قوتوں کے لیے قابل قبول بھی۔ طالبان اور داعش دونوں نہ اسلامی دنیا کے لیے قابل قبول ہیں اور نہ ہی سیکولر دنیا کے لیے۔ بھارت اگر افغانستان کو جنگ کی آگ میں مسلسل جلتا دیکھنا چاہتا ہے تو یہ بھول جائے کہ اب دنیا افغانستان میں کسی جنگ کو برداشت کرے گی، اب وقت کی ضرورت دنیا کو جنگوں سے نکالنے کی ہے نہ کہ مزید جنگوں میں ڈالنے کی، بھارت اگر جنگ کی آگ بھڑکائے گا تو اس آگ میں وہ خود جل کر راکھ ہو جائے گا اور دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا اس کی حالت بھی آج کے افغانستان کے جیسی ہو جائے گی۔

افغان طالبان کی اندرونی کشمکش بہت بڑھ گئی ہے اور شاید ان کے درمیان مشاورت کا عمل بھی کم سے کم ہو گیا ہے۔ سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی اس کا ثبوت ہے اور اس کے اثرات جلدی سارے افغانستان میں نظر آئیں گے۔ افغانستان میں طالبان کی قیادت میں حالیہ پیش رفت نے ملک کی سیاسی و عسکری صورتحال میں ایک نیا موڑ دیا ہے۔ طالبان کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کو طالبان کے امیر ہیبت اللہ کے حکم پر گھر پر نظر بند کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام نے طالبان کے اندرونی سیاسی تنازعات کو بے نقاب کیا ہے اور اس کے وسیع تر اثرات خطے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک ایک عسکری و سیاسی تنظیم ہے، جس کی بنیاد جلال الدین حقانی نے رکھی تھی۔ یہ نیٹ ورک 1970 اور 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کا حصہ رہا اور بعد میں طالبان کی طاقتور شاخ کے طور پر ابھرا۔ حقانی گروپ نے خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں اپنے اثر رسوخ کو مستحکم کیا اور عسکری کارروائیوں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سراج الدین حقانی، جو جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں، آج بھی اس نیٹ ورک کی قیادت کر رہے ہیں اور طالبان حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی طالبان کی عسکری اور انتظامی طاقت کے لیے اہم سمجھی جاتی تھی۔

طالبان امیر کی جانب سے سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی دراصل طالبان کی قیادت کے اندرونی اختلافات اور طاقت کی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق حقانی گروپ نے طالبان کے باقی حصوں کے ساتھ علٰیحدگی کی سیاست اپنائی، یا امیر کی قیادت پر سوالات اٹھائے، جس کے باعث امیر نے انہیں روکا۔ گزشتہ چند ماہ میں حقانی نیٹ ورک کے ارکان اور طالبان کی دیگر شاخوں کے مابین ربط کمزور ہوتا دکھائی دیا ہے۔ یہ اقدام طاقت کی تقسیم میں عدم توازن اور طالبان کے اجارہ داری نظام کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی علامت ہے۔ سراج الدین حقانی کی نظر بندی کے بعد ان کے نیٹ ورک کے افراد کو کابل اور دیگر اہم حکومتی و عسکری مقامات کی سیکورٹی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کابل افغانستان کا دارالحکومت اور سیاسی مرکز ہے، اور اس کی سیکورٹی حکمت عملی میں طالبان کی مرکزی وفاداریاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کا سیکورٹی سے نکالے جانا طالبان کی اندرونی صف بندی اور نئی حکمت عملی کے نفاذ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان کی قیادت نئے وفادار گروپوں کو سیکورٹی ذمے داریاں سونپنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اپنے کنٹرول کو مضبوط کیا جا سکے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ بھارت نواز طالبان یا ٹی ٹی پی کے لوگوں کو سیکورٹی پر تعینات کیا جائے۔ سیاسی اور عسکری نتائج پر مبنی یہ اقدام طالبان کے اندرونی اتحاد پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کی طاقت میں کمی سے طالبان کی طاقت ورانہ ساخت میں خلا پیدا ہو سکتا ہے، جو نئے بحران یا کشمکش کو جنم دے سکتا ہے۔ اس سے افغانستان میں سیکورٹی صورتحال پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقے جہاں حقانی گروپ کا اثر رسوخ طاقتور ہے۔

حقانی گروپ کو ممکن ہے کہ دوبارہ پاکستان کی طرف سے کوئی سپورٹ ملے تاکہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے بھی ان سے بات چیت ہو سکے اگرچہ حقانی گروپ نے پہلے ٹی ٹی پی کی سرپرستی کی تھی۔ علاوہ ازیں، حقانی نیٹ ورک کی سیکورٹی رولز سے علٰیحدگی سے طالبان کی عسکری صلاحیت پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ نیٹ ورک گزشتہ دو دہائیوں میں طالبان کی سب سے مضبوط عسکری شاخ رہا ہے۔ علاقائی اور عالمی ردعمل عالمی برادری اور خطے کے ممالک افغانستان میں اس تبدیلی پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک پر ماضی میں دہشت گردی کے الزامات رہے ہیں اور امریکا سمیت کئی ممالک نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اس نیٹ ورک کی کمزوری طالبان کے پالیسی اور اتحاد کا امتحان ہو سکتی ہے۔ پاکستان، ایران، چین اور روس جیسے پڑوسی ممالک اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے حوالے سے اس صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ان ممالک کے لیے طالبان کی قیادت میں اصلاحات اور طاقت کی تقسیم کے عمل کا تعین اہم ہوگا، جو خطے کے امن اور استحکام پر اثر ڈال سکتا ہے۔ افغان طالبان میں بڑھتی ہوئی کشمکش اور سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان ابھی تک مکمل طور پر متحد نہیں ہیں۔ سراج الدین حقانی کی نظربندی اور حقانی نیٹ ورک کے طالبان کو سیکورٹی سے ہٹانے کے بعد طالبان کی قیادت کو نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ داخلی اختلافات کو کم کیا جا سکے۔ یہ سیاسی واقعہ افغانستان میں طالبان حکومت کی پائیداری اور مستقبل کی سمت کے حوالے سے نئے سوالات اٹھاتا ہے۔ اس وقت سب کی نظریں طالبان کی آئندہ کارروائیوں اور داخلی امن و اتحاد کی بحالی پر ہیں۔

وجیہ احمد صدیقی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سراج الدین حقانی کی نظر طالبان کی قیادت گھر پر نظر بند افغانستان میں حقانی نیٹ ورک میں طالبان کی افغان طالبان طالبان کی ا وزیر داخلہ اور طالبان حقانی گروپ نیٹ ورک کے نیٹ ورک کی طالبان کے رہے ہیں سکتا ہے اور اس کے لیے ہے اور گیا ہے اس لیے دیا ہے کیا جا

پڑھیں:

بھارت افغان گٹھ جوڑ،نئے خطرات کا اشارہ

پاکستان نے افغان طالبان کی سیز فائرکی درخواست پر 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں اطراف بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔

دوسری جانب پاکستان نے افغان صوبہ قندھار اورکابل میں نپے تلے فضائی حملے خالصتاً افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پرکیے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری سے وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزراء نے ملاقاتیں کیں، جس میں داخلی و خارجی سیکیورٹی صورتحال پر گفتگو کی گئی، صدر اور وزیراعظم نے افغان جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے پاک فوج کی چوکسی اور مہارت کی تعریف کی، وزیراعظم نے کہا کہ ملکی سلامتی کا ہر صورت دفاع کیا جائے گا۔

 پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جوابی کارروائی کے بعد افغان طالبان کی حکومت پر دباؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ کمزور ہوتی جا رہی ہے، اگرچہ جھڑپیں تو رک چکی ہیں لیکن صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔ سرحدیں مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور آمد و رفت معطل ہو چکی ہے۔ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان بگڑتا ہوا تنازع علاقائی سلامتی کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

 درحقیقت پاکستان پر حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب عبوری افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر تھے اور اس دوران انھوں نے نہ صرف پاکستان مخالف بیانات جاری کیے بلکہ کشمیرکو بھارت کا حصہ بھی تسلیم کیا۔

ایک طرف افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کی دہلی میں بیٹھ کر بیان بازی اور دوسری طرف سرحد پر اشتعال انگیزی کے بعد کابل اور دہلی کے درمیان وہ ہم آہنگ منصوبہ بے نقاب ہوگیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو غیر اعلانیہ جنگ، پراپیگنڈے اور سفارتی دباؤ کے ذریعے غیر مستحکم کرنا ہے اور اس کی پیش بندی پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کے اطراف ایک عرصے سے ہو رہی تھی۔

بھارت میں بڑھتی ہوئی افغان سرگرمیوں اور سرحد پر عسکری کارروائیوں میں ایک منظم تسلسل ہے جس کا مقصد پاکستان دشمن عناصرکو سیاسی تحفظ دینا ہے۔ افغان طالبان فورسز کی جانب سے بیک وقت مختلف صوبوں سے سرحدی علاقوں پر حملے ظاہر کرتے ہیں کہ ان کارروائیوں کے پیچھے کوئی مرکزی منصوبہ بندی کارفرما ہے۔ اس منصوبہ بندی پر خطے کے ایسے عناصر کا اثر ہے جو جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

عبوری افغان حکومت کی تحریک طالبان پاکستان عناصر سے بڑھتی ملی بھگت دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو مزید کمزورکر رہی ہے، اگرکابل نے یہ پالیسی جاری رکھی تو اسے خطے میں مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انڈیا، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے اتحادکو ایک بڑے علاقائی گیم پلان کے تناظر میں بھی پرکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف جارحیت اور انڈیا کے ساتھ دوستی کابل کو کتنی مہنگی پڑے گی؟ افغان عبوری حکومت اپنے عوام کی فلاح کے بجائے تخریبی اتحادوں اور بیرونی اثرات کو ترجیح دے کر خود اپنے شہریوں سے دوری اختیار کر رہی ہے۔

افغان عوام تعلیم، صحت، تجارت اور روزگار کے لیے دہائیوں سے پاکستان پر انحصار کرتے آئے ہیں اور اگر کابل نے یہی روش برقرار رکھی تو پاکستان کے یہ دروازے جو ماضی میں افغان عوام کی بقا اور روابط کا ذریعہ رہے ہیں، بند ہو جائیں گے۔ ان پالیسیوں سے نہ صرف افغانستان علاقائی طور پر مزید تنہا ہو جائے گا بلکہ اس کے عوام اور پناہ گزینوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

حالیہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آنے والا وقت خطے میں مزید کشیدگی لائے گا اور پاکستان کو بیک وقت افغان طالبان اور انڈیا کی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہو گا، وہ جارحیت عسکری کے ساتھ ساتھ پراپیگنڈے کے میدان میں بھی ہو گی۔ پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہاں سے ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپورٹ کر رہا ہے۔

پاکستان جب بھی طالبان حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھتا تھا تو ان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج کے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چار روز قبل پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف سرزمین استعمال کرنے کی قیمت چکانا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کابل میں فتنہ الخوارج کے مرکز اور لیڈر شپ کو نشانہ بنایا ہے۔ آئی ایس پی آر کا اعلامیہ بڑے واضح انداز میں بتا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کو اب پہلے جیسا ٹریٹ نہیں کرے گا۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو اپنا دہرا معیار ختم کر نا ہوگا اور فتنہ الخوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

 اس صورتحال میں پاکستان دو اہم فیصلے کر چکا ہے کہ اب اگر پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوئی تو پاکستان کو خود کارروائی کا حق حاصل ہے۔ دوسرا پاکستان افغان مہاجرین اور غیر قانونی افغانوں کے انخلا سے متعلق سخت پالیسی نافذ کرنے جا رہا ہے۔

پاکستان میں امن و استحکام کے لیے غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے۔ دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا جس کے بعد افغان مہاجرین کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ غیر قانونی مقیم مہاجرین کے کچھ عناصر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کی خرابی اور جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔

صرف رواں ماہ ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے حملوں میں فوجی افسران سمیت پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد شہید ہوچکی ہے۔ یہ سال گزشتہ دہائی کا سب سے خون ریز سال ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کا افغان طالبان انتظامیہ کے خلاف صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جو ٹی ٹی پی کے دھڑوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرنے سے مسلسل انکاری ہے جنھیں وہ سرحد پار حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسٹریٹجک اعتبار سے دو اہم صوبوں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جو کہ شدت پسندانہ حملوں کے مراکز ہیں، وہاں سیاسی عدم استحکام نے کالعدم گروہوں کو سرگرم عمل ہونے کا زبردست موقع فراہم کیا ہے۔ افغانستان سے پاکستان پر حملے کی یہ صورتِ حال اچانک پیدا نہیں ہوئی، برسوں کی سازشیں، سرحد پار اڈوں کا استعمال اور غیر ریاستی گروہوں کو افغان حکومت کے پناہ دینے کی خاموش روایتیں ہی آج اس تناؤ کی بنیاد ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان قیادت کو واضح شواہد دے کر کہا کہ تحریکِ طالبانِ پاکستان، داعش، خراسان اور دیگر شدت پسند گروہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

اس مسئلے پر جب افغانستان کی طرف سے سنجیدگی نظر نہ آئی اور وہاں سے مسلسل پاکستان مخالف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ یہ سلسلہ بڑھ کر پاکستان پر حملے تک آپہنچا تو دفاعی اداروں کو اپنی زمینی اور فضائی صلاحیتیں بروئے کار لانا پڑیں۔

ایک اور پہلو جو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وہ ہے اطلاعاتی جنگ اور سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ۔ دشمن قوتیں، خاص طور پر بھارتی خفیہ ایجنسیاں محض عسکری حملوں تک محدود نہیں رہتیں، وہ غلط معلومات، جھوٹے بیانات اور اشتعال انگیز پیغامات کے ذریعے معاشرتی انتشار بھی پھیلاتی ہیں۔ اس لیے حکومت کو میڈیا کمیونیکیشن، شفاف اطلاعات اور سچائی کی فراہمی میں فعال رہنا ہوگا تاکہ عوام میں درپیش خطرات، سرحدی حالات اور ریاستی اقدامات کے پیچھے کے منطقی دلائل سمجھائے جاسکیں معاشی اور سفارتی راستے بھی اسی نسبت سے اہم ہیں۔

خطے میں امنِ سرمایہ کاری، تجارتی راہ داری اور توانائی کے منصوبے وہ مشترکہ مفادات ہیں جو افغان قوم کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جب کابل کے عوام کو معلوم ہوگا کہ امن کے ذریعے ان کی معیشت بہتر ہوگی، روزگار بڑھے گا اور بنیادی سہولتیں بہتر ہوں گی تو وہاں کے حکمرانوں پر بھی عوامی دباؤ بڑھے گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کریں۔

آیندہ کے لیے واضح کرنا ہے کہ اگر داعش، فتنہ خوارج اور مسلح خفیہ نیٹ ورکس نے اپنے عزائم ترک نہ کیے تو پاکستان مجبوراً خود اپنے دفاع کے لیے کارروائی جاری رکھے گا، مگر حقیقی فتح وہی ہے جو امن، ترقی اور بھائی چارے کے ذریعے حاصل ہو، اور اس امن کے لیے افغان اقتدار پر بیٹھے سخت گیر حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ بھارتی قربتیں تو افغانستان کو کبھی کوئی فائدہ نہ دے سکیں گی، بھارتی حکمران تو فتنہ انگیزیاں چاہتے ہیں جس سے افغانستان کو دامن بچانا ہوگا، افغانستان کا حقیقی بہی خواہ صرف پاکستان ہے، افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور نصف صدی کا قصہ
  • طالبان ہوش سے کام لیں!
  • پاکستان اور افغانستان کے وفود مذاکرات کے لیے دوحہ میں
  • افغان مسئلہ کا حل
  • افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے نائب وزیر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا
  • افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی جگہ ملا ہیبت اللہ مقرر
  • خطے میں عدم تحفظ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں، سراج الدین حقانی کی ایرانی وفد سے گفتگو
  • بھارت افغان گٹھ جوڑ،نئے خطرات کا اشارہ
  • پاکستان افغانستان جنگ کا ایک اور زاویہ