Jasarat News:
2025-12-03@10:34:15 GMT

سراج الدین حقانی کی نظربندی کیا طالبان بکھر گئے؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251019-03-7
افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی کے دورۂ بھارت کے بعد طالبان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی نظربندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افغان طالبان ان عناصر کو ذرا بھی برداشت نہیں کر رہے جن سے پاکستان کوئی رابطہ کر سکتا ہے۔ افغان طالبان کا خیال ہے کہ پاکستان اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے حقانی گروپ سے دوبارہ رابطہ کر سکتا ہے اور طالبان کو حقانی گروپ پر اعتماد کیوں نہیں ہے کہ وہ ملا ہیبت اللہ کی بات مانیں گے؟ یا پاکستان کی۔ اگرچہ اس نظر بندی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سراج الدین حقانی افغان طالبان کو پاکستان سے الجھنے سے روکتے رہے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نظر بند کیا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ ذرائع کے مطابق یہ وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے ایرانی سفارت کاروں سے ملاقات کی تھی۔ یہ بات اس لیے سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک وزیر داخلہ تو سفارت کاروں سے ملاقات کر ہی سکتا ہے، اس میں اس کو نظر بند کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

لیکن بھارت کا خیال تھا پاکستان کے پاس بھی شاید یہی ایک آپشن ہے، جس کو استعمال کیا جا سکتا ہے بھارت نے اگر یہ مشورہ دیا ہے اور بھارت کے مشورے پر سراج الدین حقانی کو نظر بند کیا گیا ہے تو یہ طالبان کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ اس لیے کہ اس سے طالبان کی اپنی قوت میں کمی آئے گی اور ان کے اپنے اندر متحارب گروپ بن جائیں گے جو ان کے اقتدار کو مزید کمزور کر دیں گے۔ اس لیے کہ طالبان سے اقتدار چھیننے کے لیے کئی قوتیں افغانستان میں سرگرم ہیں ان میں داعش بھی ہے اور شمالی اتحاد بھی، مذہبی قوتوں کا زور اب دنیا میں کم ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ افغان مجاہدین جو سوویت یونین سے لڑے تھے ایک ماڈریٹ اسلامی افغانستان کے لیے زیادہ موزوں ہوں گے اور دنیا کی تمام قوتوں کے لیے قابل قبول بھی۔ طالبان اور داعش دونوں نہ اسلامی دنیا کے لیے قابل قبول ہیں اور نہ ہی سیکولر دنیا کے لیے۔ بھارت اگر افغانستان کو جنگ کی آگ میں مسلسل جلتا دیکھنا چاہتا ہے تو یہ بھول جائے کہ اب دنیا افغانستان میں کسی جنگ کو برداشت کرے گی، اب وقت کی ضرورت دنیا کو جنگوں سے نکالنے کی ہے نہ کہ مزید جنگوں میں ڈالنے کی، بھارت اگر جنگ کی آگ بھڑکائے گا تو اس آگ میں وہ خود جل کر راکھ ہو جائے گا اور دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا اس کی حالت بھی آج کے افغانستان کے جیسی ہو جائے گی۔

افغان طالبان کی اندرونی کشمکش بہت بڑھ گئی ہے اور شاید ان کے درمیان مشاورت کا عمل بھی کم سے کم ہو گیا ہے۔ سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی اس کا ثبوت ہے اور اس کے اثرات جلدی سارے افغانستان میں نظر آئیں گے۔ افغانستان میں طالبان کی قیادت میں حالیہ پیش رفت نے ملک کی سیاسی و عسکری صورتحال میں ایک نیا موڑ دیا ہے۔ طالبان کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کو طالبان کے امیر ہیبت اللہ کے حکم پر گھر پر نظر بند کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام نے طالبان کے اندرونی سیاسی تنازعات کو بے نقاب کیا ہے اور اس کے وسیع تر اثرات خطے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک ایک عسکری و سیاسی تنظیم ہے، جس کی بنیاد جلال الدین حقانی نے رکھی تھی۔ یہ نیٹ ورک 1970 اور 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کا حصہ رہا اور بعد میں طالبان کی طاقتور شاخ کے طور پر ابھرا۔ حقانی گروپ نے خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں اپنے اثر رسوخ کو مستحکم کیا اور عسکری کارروائیوں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سراج الدین حقانی، جو جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں، آج بھی اس نیٹ ورک کی قیادت کر رہے ہیں اور طالبان حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی طالبان کی عسکری اور انتظامی طاقت کے لیے اہم سمجھی جاتی تھی۔

طالبان امیر کی جانب سے سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی دراصل طالبان کی قیادت کے اندرونی اختلافات اور طاقت کی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق حقانی گروپ نے طالبان کے باقی حصوں کے ساتھ علٰیحدگی کی سیاست اپنائی، یا امیر کی قیادت پر سوالات اٹھائے، جس کے باعث امیر نے انہیں روکا۔ گزشتہ چند ماہ میں حقانی نیٹ ورک کے ارکان اور طالبان کی دیگر شاخوں کے مابین ربط کمزور ہوتا دکھائی دیا ہے۔ یہ اقدام طاقت کی تقسیم میں عدم توازن اور طالبان کے اجارہ داری نظام کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی علامت ہے۔ سراج الدین حقانی کی نظر بندی کے بعد ان کے نیٹ ورک کے افراد کو کابل اور دیگر اہم حکومتی و عسکری مقامات کی سیکورٹی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کابل افغانستان کا دارالحکومت اور سیاسی مرکز ہے، اور اس کی سیکورٹی حکمت عملی میں طالبان کی مرکزی وفاداریاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کا سیکورٹی سے نکالے جانا طالبان کی اندرونی صف بندی اور نئی حکمت عملی کے نفاذ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان کی قیادت نئے وفادار گروپوں کو سیکورٹی ذمے داریاں سونپنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اپنے کنٹرول کو مضبوط کیا جا سکے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ بھارت نواز طالبان یا ٹی ٹی پی کے لوگوں کو سیکورٹی پر تعینات کیا جائے۔ سیاسی اور عسکری نتائج پر مبنی یہ اقدام طالبان کے اندرونی اتحاد پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کی طاقت میں کمی سے طالبان کی طاقت ورانہ ساخت میں خلا پیدا ہو سکتا ہے، جو نئے بحران یا کشمکش کو جنم دے سکتا ہے۔ اس سے افغانستان میں سیکورٹی صورتحال پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقے جہاں حقانی گروپ کا اثر رسوخ طاقتور ہے۔

حقانی گروپ کو ممکن ہے کہ دوبارہ پاکستان کی طرف سے کوئی سپورٹ ملے تاکہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے بھی ان سے بات چیت ہو سکے اگرچہ حقانی گروپ نے پہلے ٹی ٹی پی کی سرپرستی کی تھی۔ علاوہ ازیں، حقانی نیٹ ورک کی سیکورٹی رولز سے علٰیحدگی سے طالبان کی عسکری صلاحیت پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ نیٹ ورک گزشتہ دو دہائیوں میں طالبان کی سب سے مضبوط عسکری شاخ رہا ہے۔ علاقائی اور عالمی ردعمل عالمی برادری اور خطے کے ممالک افغانستان میں اس تبدیلی پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک پر ماضی میں دہشت گردی کے الزامات رہے ہیں اور امریکا سمیت کئی ممالک نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اس نیٹ ورک کی کمزوری طالبان کے پالیسی اور اتحاد کا امتحان ہو سکتی ہے۔ پاکستان، ایران، چین اور روس جیسے پڑوسی ممالک اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے حوالے سے اس صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ان ممالک کے لیے طالبان کی قیادت میں اصلاحات اور طاقت کی تقسیم کے عمل کا تعین اہم ہوگا، جو خطے کے امن اور استحکام پر اثر ڈال سکتا ہے۔ افغان طالبان میں بڑھتی ہوئی کشمکش اور سراج الدین حقانی کی گھر پر نظر بندی سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان ابھی تک مکمل طور پر متحد نہیں ہیں۔ سراج الدین حقانی کی نظربندی اور حقانی نیٹ ورک کے طالبان کو سیکورٹی سے ہٹانے کے بعد طالبان کی قیادت کو نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ داخلی اختلافات کو کم کیا جا سکے۔ یہ سیاسی واقعہ افغانستان میں طالبان حکومت کی پائیداری اور مستقبل کی سمت کے حوالے سے نئے سوالات اٹھاتا ہے۔ اس وقت سب کی نظریں طالبان کی آئندہ کارروائیوں اور داخلی امن و اتحاد کی بحالی پر ہیں۔

وجیہ احمد صدیقی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سراج الدین حقانی کی نظر طالبان کی قیادت گھر پر نظر بند افغانستان میں حقانی نیٹ ورک میں طالبان کی افغان طالبان طالبان کی ا وزیر داخلہ اور طالبان حقانی گروپ نیٹ ورک کے نیٹ ورک کی طالبان کے رہے ہیں سکتا ہے اور اس کے لیے ہے اور گیا ہے اس لیے دیا ہے کیا جا

پڑھیں:

قابض میئر سانحہ نیپاکی ذمے داری قبول کریں اور استعفا دیں ‘سیف الدین

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251203-01-21
کراچی (اسٹاف رپورٹر) نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ نے سانحہ نیپا چورنگی، معصوم بچے کی المناک موت،حکومتی بے حسی، کے ایم سی اور واٹر کارپوریشن کی نااہلی کے خلاف جائے حادثے پر منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ یونیورسٹی روڈ کے ایم سی کے ذمے،گٹر کے ڈھکن فراہم کرناواٹر کارپوریشن کی ذمے داری قابض میئر واٹر کارپوریشن کے چیئرمین،قابض میئر میں سانحہ نیپا میں معصوم بچے کی المناک موت پر اگر تھوڑی بھی غیرت باقی ہے تو وہ فوری استعفا دیں،قابض مئیر کو سانحہ نیپا کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے تھی لیکن انہوں نے فوراً جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین کو ذمے دار قرار دے دیا،ہم وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر بلدیات سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر آئندہ گٹر میں کوئی بچہ گرا تو ایف آئی آر واٹر بورڈ اور ایکسین کے خلاف درج کرائی جائے گی، کراچی لہو لہان ہے اورمعصوم بچے اور شہری حکومتی غفلت و بے حسی کا نشانہ بن رہے ہیں، ہر طرف ایک تباہی کا منظر نظر آتا ہے،کراچی کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو کراچی کو اپنا نہیں سمجھتے اور کراچی کے لیے خطرہ ہیں، کراچی کو وڈیرہ شاہی و جاگیر دارانہ ذہنیت کے مطابق چلانا چاہتے ہیں، کراچی کے ساڑھے3 کروڑ عوام کے لیے بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، جس رات یہ واقعہ ہوا اس رات قابض مئیر، واٹر بورڈ کا چیئرمین اور ڈپٹی کمشنر سمیت سندھ حکومت بے خبر رہی، قابض مئیر کا طرز عمل یہ ہے کہ پورا دن گزرنے کے بعد مشینری تک کا انتظام نہیں کیاگیا، پوراشہر غم میں ڈوبا ہوا تھا اور قابض مئیر سوئمنگ پول میں ہیٹنگ سسٹم کا افتتاح کررہے تھے،وزیر ٹرانسپورٹ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ڈبل ٹیکر بسیں چلنے والی ہیں،لیکن سڑکوں کا یہ حال ہے کہ جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔مظاہرے سے امیر ضلع شرقی نعیم اختر، ٹاؤن چیئرمین گلشن اقبال ڈاکٹر فواد،وائس ٹاؤن چیئرمین ابراہیم صدیقی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔مظاہرین نے میئر کے مستعفی ہونے سمیت دیگر نعرے بھی لگائے۔شرکا نے بینرز و پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جس پر تحریر تھاکہ قابض مئیر مرتضیٰ وہاب استعفا دو، قاتل قاتل مئیر قاتل،شہر کو مقتل مت بناؤ،گٹروں پر ڈھکن لگاؤ، گٹر کا ڈھکن لگاؤ ورنہ گھر جاؤ، ابراہیم ہم شرمندہ ہیں، ابراہیم کراچی شرمندہ ہے، یہ غفلت یا قتل جواب دو جواب دو، ظالمو! جواب دو، موت کا حساب دو،ایک بینرز پر 3 سالہ ابراہیم کی تصویر تھی اور تحریر تھا کہ میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں؟اس موقع پر نائب امیر ضلع انجینئر عزیز الدین ظفر، سیکرٹری ضلع نعمان پٹیل، سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری، سینئر ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات صہیب احمد،سمیت چیئرمین و وائس چیئرمین اور کونسلرزبھی موجود تھے۔سیف الدین ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ قابض مئیر کہتے ہیں کہ یوسی چیئرمینز کو گٹر کے ڈھکن دے دیے ہیں، قابض مئیر نے ایک یوسی کو صرف 25 ڈھکن دیے ہیں جبکہ ایک یوسی میں ہزاروں کورز کی ضرورت ہے،ٹاؤن و یوسی کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ اپنے بجٹ سے گلی محلوں میں ڈھکن لگائیں، واٹر بورڈ اور کے ایم سی کی ذمے داری ہے کہ تمام ٹاؤنز و یوسیز چیئرمینز کو گٹر کے ڈھکن فراہم کریں۔انہوں نے کہاکہ قابض مئیر کی سرپرستی میں پارکوں پر قبضہ سنا تھا لیکن اب شہریوں کے مکانوں پر بھی قبضے کیے جارہے ہیں، 40 سال سے رہنے والے فردکے خلاف جعلی دستاویزات بنا کر گھر خالی کرانے کی سازش کی گئی، کراچی کو مفتوحہ علاقہ بنادیا گیا ہے، قابض مئیر پیرا شوٹر ہیں، سیاسی کارکن نہیں، ہم ایسے فرد کو کراچی کا مئیر نہیں تسلیم کرتے، پیپلز پارٹی کی حکومت اگر 2046 تک بھی رہے گی تو شہر مزید تنزلی کی طرف جائے گا۔ 17 سال میں اربوں اور کھربوں روپے خرچ کرکے اس حالت میں پہنچایا ہے، واٹر بورڈ کو کارپوریشن بنایا گیا لیکن اس پر ڈپٹی کمشنر کو تعینات کردیا گیا۔ ٹاؤن چیئرمین گلشن اقبال ڈاکٹر فوادنے کہا کہ سانحہ نیپا حکومتی بے حسی، کے ایم سی اور واٹر کارپوریشن کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے رونما ہوا ہے، بی آر ٹی ریڈ لائن میں گزشتہ رات معصوم بچے سمیت گزشتہ دنوں کئی افراد حادثات کا شکار ہوئے ہیں، ریڈ لائن منصوبہ موت کا کنواں ثابت ہوا ہے،اس منصوبے کو بنانے والوں کی ذمے داری ہے کہ موت کے کنویں کو حادثات سے بچانے کے لیے اقدامات کرے، بی آر ٹی پروجیکٹ کا آڈٹ اور انکوائری ہونی چاہیے،کراچی کو یتیم و لاوارث سمجھ لیا گیا ہے اور کے ایم سی و قابض مئیر کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہیں، جماعت اسلامی کراچی کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور ان کے حقوق دلاکر رہے گی۔امیر جماعت اسلامی ضلع شرقی نعیم اختر نے کہا کہ2 دن قبل 3 سالہ ابراہیم کی المناک موت کے انتہائی اندوہناک واقعے کی مذمت کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں،سانحہ نیپا کے ذمے داران کو قرارواقعی سزا اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے، قابض مئیر کہتے ہیں کہ 106 سڑکوں کے مئیر ہیں لیکن کراچی یونیورسٹی سڑک پر ہونے والے واقعے کو ماننے پر تیار نہیں ہیں، بی آر ٹی کی وجہ سے ساتواں حادثہ رونما ہوا ہے، اربوں روپے کے منصوبے میں سے صرف 6 فیصد لوگ استفادہ کرسکیں گے، کراچی کے علاوہ دیگر شہروں میں ترقیاتی کام تیزی سے ہوتے ہیں لیکن کراچی کے پروجیکٹ مکمل ہونے کا نام نہیں لیتے، کراچی کے عوام کے منتخب نمائندوں کو اختیارات دیے جائیں تو مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

نائب امیر جماعت اسلامی کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ سانحہ نیپا چورنگی ،معصوم بچے کی المناک موت، حکومتی بے حسی ، کے ایم سی اور واٹرکارپوریشن کی نااہلی کیخلاف جائے حادثہ پر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کررہے ہیں

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • غربت، پابندیاں اور سفاک حکمرانی، طالبان کی پالیسیوں نے افغانستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا
  • دنیا بھر میں افغان طالبان کے خلاف ماحول بنتا جا رہا ہے
  • پاک افغان کشیدگی، خواب ریزہ ریزہ
  • قاری محمد مصلح الدین صدیقی
  • قابض میئر سانحہ نیپاکی ذمے داری قبول کریں اور استعفا دیں ‘سیف الدین
  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات ؟
  • افغانستان پر حملے کی تیاری مکمل؟
  • متحدہ عرب امارات کے قومی دن پر دیوان فخر الدین کی مبارکباد
  • تاجکستان نے افغانستان سے حملوں میں 5 چینی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی
  • نوجوان کسی بھی قوم کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری