بھارت سندور آپریشن کے نام پر پاکستان پر بھرپور حملہ کر چکا ہے۔اس یہ حملہ ناکام رہا ۔ پاکستانیجواب اس کے لیے ایسا سبق بن چکا ہے کہ اب اسے کبھی پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے کا دل میں خیال بھی نہیں لانا چاہیے مگر اسے کیا کہیے کہ وہ اتنا ہٹ دھرم واقع ہوا ہے کہ کراری ہار کے باوجود بھی پاکستان کے خلاف آپریشن سندور دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔
ایسے میں اس نے افغانستان کے وزیر خارجہ ملّا متقی کو اپنے ہاں مہمان نوازی کا موقع فراہم کیا ہے۔ افغانی وزیر خارجہ کئی دن دہلی میں گزار کر واپس کابل چلے گئے ہیں۔ طالبان وزیر خارجہ کا یہ دورہ افغان حکومت کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر ہی عمل میں آیا تھا مگر اس دورے نے طالبان کے اصولوں کا جنازہ نکال دیا ہے۔
افغان طالبان خواتین سے کتنی نفرت کرتے ہیں، پوری دنیا کو پتا ہے۔ افغانستان کی خواتین طالبان سے اس قدر بے زار ہیں کہ وہ ان کی حکومت کے لیے بددعائیں ہی کرتی ہوں گی۔ اس لیے کہ انھیں وہاں غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔
انھیں اسکولوں کالجوں میں تعلیم تک حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے لیے نوکریوں کے دروازے بند ہیں۔ دکانداری نہیں کر سکتیں، کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتیں۔ سیاست ان کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔
دہلی میں ملّا متقی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو اس میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی مگر اس پریس کانفرنس پر بھارتی میڈیا نے ایسا شور مچایا اور طالبان کے رویے کو جاہلانہ اور نا قابل قبول قرار دیا، چنانچہ متقی کو دوبارہ پریس کانفرنس کرنا پڑی اور اس میں شرکت کے لیے خواتین کو دعوت دی گئی۔
اس طرح طالبان کے خواتین سے متعلق اصول چکنا چور ہوگئے۔ طالبان خواتین کے ساتھ اپنے ہاں جو رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اسے وہ اسلامی طریقہ بیان کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اسلام نے کب خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی ہے، خواتین کو تو اتنی آزادی حاصل تھی کہ وہ میدان جنگ میں آ کر باقاعدہ زخمی صحابہ کرامؓ کی مرہم پٹی کرنے کا فرض نبھاتی تھیں۔
پھر نبی کریمؐ کی حدیث ہے کہ ’’ تعلیم کا حصول ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘۔ افسوس کہ طالبان خود کو کٹر مسلمان ضرورکہتے ہیں مگر انھوں نے اہم اسلامی تعلیمات کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے یا اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
وہ کابل پر قابض ضرور ہیں مگر ان کی حکومت غیر جمہوری اور عارضی ہے جو کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے، اس لیے کہ افغانستان میں شروع سے یہ ہوتا آیا ہے کہ ایک گروہ دوسرے کو شکست دے کر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔
افغان طالبان اس وقت پاکستان سے ناراض ہیں مگر افسوس کہ وہ پاکستان کے احسانوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ ویسے افغانستان کے عوام کے ساتھ پاکستان کے بہت سے احسانات ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے افغانوں کو سوویت یونین کے تسلط سے آزاد کرایا تھا۔
حالانکہ بھارت انھیں روسی تسلط میں رکھنا چاہتا تھا مگر پاکستان نے ان کی آزادی کے لیے روس سے ٹکر لے کر کتنی ہی قربانیاں دی تھیں جب کہ روس اس وقت ایک سپرپاور تھا اور اس سے ٹکر لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
پاکستان نے یہ مشکل جنگ جیتی اور روسی فوج کو افغانستان سے نکال باہر کر دیا۔ اس سلسلے میں پاکستان کو امریکی مدد ضرور حاصل تھی مگر افرادی قوت اور حکمت عملی تو پاکستان کی ہی تھی۔ افسوس کہ اس کے بعد افغان اپنی سرزمین کی پھر حفاظت نہیں کر سکے اور امریکا نے پورے افغانستان کو اپنی جاگیر بنا لیا۔
اس نے وہاں مستقل ڈیرہ ڈالنے کا ارادہ کر لیا تھا کیونکہ فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے یہ ملک اس کے لیے بہت سودمند ثابت ہوا تھا۔ افغانستان برسوں امریکا کے زیر تسلط رہا، افغانوں نے امریکا سے اپنی سرزمین کو خالی کرانے کی بہت کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
طالبان نے امریکا کو افغانستان سے باہر نکالنے کے لیے گوریلا جنگ کا سہارا لیا۔ مگر وہ اس عالمی طاقت کو ہٹانے سے قاصر تھے، پھر یہ پاکستان تھا جس نے امریکی حکومت سے مخاصمت مول لے کر امریکا کو افغانستان خالی کرنے پر مجبور کر دیا ۔
طالبان نے درپردہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھا۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ طالبان پاکستان کے احسانات بھول چکے ہیں ۔ انھوں نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں اپنے سینے سے لگا رکھا ہے، ٹی ٹی پی کے کئی رہنما طالبان کے اعلیٰ عہدیدار بھی بن چکے ہیں، ٹی ٹی پی پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کر رہی ہے۔
ملّا متقی کا حالیہ دورہ دہلی بھارت سے دوستی کو استوار کرنا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں ورنہ وہ اپنے اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنے وجود سے بھی کہیں ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے طالبان کے ٹی ٹی پی کے لیے
پڑھیں:
افغان طالبان نے مذاکرات چھوڑ کر جنگ کا راستہ اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے اختیار کیا، سفارتکار مسعود خان
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبسیڈر مسعود خان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات چھوڑ کر جنگ کا راستہ اس لیے اختیار کیا تاکہ وہ اندرونی کمزوریاں چھپا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا مسئلہ افغان عوام سے نہیں، افغان طالبان رجیم سے ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
منجھے ہوئے سفارتکار مسعود خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان تعلقات ایک تو دوطرفہ مذاکرات سے حل ہو سکتے تھے نہیں ہوئے، سہ فریقی یا ثالثی مذاکرات سے حل ہو سکتے تھے، نہیں ہوئے کیونکہ افغان طالبان نے جنگ کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ ہمارے معصوم شہریوں کو مارتے رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں آئی ایس پی آر نے دہشتگردی کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کی جو تفصیلات جاری کی ہیں وہ خاصی تشویشناک ہیں
مسعود خان نے کہا کہ ہمارے اتنے لوگ بھارت کے ساتھ ایک بڑی اور خطرناک جنگ میں شہید نہیں ہوئے جتنے دہشتگردی کی نذر ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ جنگ میں سینکڑوں جب کہ 2021 سے اب تک ہزاروں لوگ شہید ہو چُکے ہیں جبکہ 2025 کا سال پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کے لحاظ سے قیامت خیز سال تھا۔ تو یہ ایک بہت بڑی جنگ ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سفارتی لحاظ سے 2025 پاکستان کے لیے کامیابیوں کا سال رہا اور ساری دنیا پاکستان کے مؤقف کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ افغانستان اِس معاملے میں بالکل تنہا ہے۔
افغان طالبان اندرونی کمزوریوں کی پردہ پوشی کے لیے جنگ کر رہے ہیںایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پاکستان سے جنگ چھیڑ کر اپنی اندرونی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں افغانستان کو حالتِ جنگ میں مبتلا کر کے وہ پورے افغان عوام کو پاکستان کی دشمنی پر مائل کرنا چاہتے ہیں کہ جو آوازیں ان کے خلاف اٹھ رہی تھیں وہ پاکستان کے خلاف ہو جائیں کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بنیادی دشمنی نہیں ہے۔
پاک افغان مسئلے کے حل کے لیے چوتھا راستہ کیا ہے؟اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ دوطرفہ، سہ فریقی اور ثالثی مذاکرات کی ناکامی کے بعد چوتھا راستہ جس کے بارے میں آج کل گفتگو ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر وہ قوتیں جو طالبان رجیم کے خلاف ہیں وہ کوشش کریں لیکن پاکستان نے اب تک بڑھ کر اُن قوتوں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
شکست خوردہ اور حواس باختہ بھارت شرپسندی کے پیچھے ہےایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ جنگ میں ہارا ہوا حواس باختہ بھارت کھل کر شرپسندی کی حمایت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف اس شرانگیزی کا حمایت کار بھارت ہے جو پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت اور بڑھتے ہوئے عالمی قدکاٹھ کو کم کرنا چاہتا ہے۔
دہشتگردی کے حوالے سے بھارت کے کردار کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے پاکستان کو کامیابی ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارت کے نیٹ ورک کے بارے میں تمام دنیا کی خفیہ ایجنسیاں اور تمام ممالک اچھی طرح سے جانتے ہیں کیونکہ اب تو بھارت یہ سب کچھ علی الاعلان کر رہا ہے ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کھلم کھلا کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کریں گے۔ پاکستان نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کو ڈوزئیر جمع کرا رکھے ہیں۔
بھارت کی امریکا کے ساتھ تزویراتی چھتری چھلنی ہوچکیمسعود خان کا کہنا تھا کیہ بھارت کو صرف امریکا کے ساتھ تزویراتی اتحاد کی چھتری حاصل تھی لیکن اب اس چھتری میں بہت سارے سوراخ ہو چکے ہیں اور اب بھارت بچتا پھر رہا ہے، مئی کی جنگ میں شکست کے بعد بھارت پر پاگل پن سوار ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت جارحانہ بیانات دے رہا ہے، پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
فی الحال سفارتی کوششیں ناکام نظر آتی ہیںایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری رہیں گی لیکن فی الحال اس کا کوئی سفارتی حل نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی جنگ نہیں چاہتا بلکہ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات چاہتا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملک اقتصادی ترقی پر توجہ دیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعاون کریں لیکن اس معاملے کے اندر افغانستان نہیں بلکہ افغان طالبان رجیم حائل ہو گئی ہے۔ کیونکہ افغان عوام بھی تو ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ کشیدگی پوشیدہ جنگ نہیں رہیایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ دہشتگرد ہیں تو ایک درپردہ جنگ تھی لیکن اب بالکل واضح ہو چکا ہے کہ یہ کوئی درپردہ جنگ نہیں بلکہ ایک ایسی جنگ ہے جس کی پشت پناہی افغان طالبان کر رہے ہیں اور افغان طالبان کے حیلے بہانے کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے یا تحریک طالبان پاکستان پر ان کا اختیار نہیں ہے، یہ باتیں اب کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جب افغانستان پر جوابی حملہ کرتا ہے تو افغان طالبان پاک افغان دشمنی کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ جب اصل میں ہماری دونوں قوموں کے درمیان بہت گہرے مراسم ہیں۔
افغان صورتحال سے وسط ایشیائی اور مسلمان ممالک سب متاثر ہو رہے ہیںایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا افغان صورتحال سے وسط ایشیائی ممالک ہوں یا بردار مسلمان ممالک سب کے مفادات کو خطرہ ہے۔ جبکہ افغان طالبان کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے۔ اس جنگ میں امریکا کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ ہم نے لڑی ہے جس کا یہ شاخسانہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغان سرزمین پورے خطے اور عالمی امن کے لیے نقصان دہ ہے۔
تجارت کی معطلی افغان عوام کے ساتھ ظلم ہےایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ تجارت کی معطلی افغان عوام کے ساتھ ظلم ہے لیکن افغان طالبان اس پر شادیانے بجا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس تجارتی بندش کو برداشت کر سکتا ہے افغان حکمران بھی برداشت کر سکتے ہیں لیکن یہ افغان عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور پاکستان نے ہمیشہ اس معاملے میں فیاضی سے کام لیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان طالبان رجیم افغانستان پاک افغان طالبان مذاکرات پاکستان پاکستان افغان طالبان رجیم مذاکرات سفارتکار مسعود خان طالبان کی کمزوریاں