ای او بی آئی: ایکچوریل ویلیویشن (Actuarial Valuation)کے اغراض و مقاصد
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کے اثاثہ جات اور واجبات کی ہر تین برس کے وقفہ کے بعد ایکچوریل ویلیویشن (Actuarial Valuation)کیوں منعقد کی جاتی ہے اور اس عمل کے کیا اغراض و مقاصد ہیں۔ یہ موضوع اکثر ای او بی آئی پنشنرز کے حلقوں اور سوشل میڈیا میں زیر بحث رہتا ہے۔ لہٰذا ہم ای او بی آئی میں رجسٹرڈ آجران/ اداروں، بیمہ دار افراد اور پنشنرز کی معلومات اور استفادہ کے لیے ای او بی آئی کی ایکچوریل ویلیویشن کے متعلق یہ معلوماتی تحریر پیش کر رہے ہیں۔
ایکچوریل سائنس مخصوص شعبہ ریاضی اور شماریات کا ایک ضابطہ کار ہے جو لائف انشورنس، صحت کی دیکھ بھال،پنشن،مالیات، سرمایہ کاری اور دیگر صنعتی و پیشہ وارانہ شعبوں میں مالی خطرات کا تخمینہ لگانے کے لیے لاگو ہوتا ہے۔ ایکچوریز (Actuaries) مالی خطرات کے ماہر تجزیہ نگار ہوتے ہیں جو نہ صرف فنڈز کو درپیش خطرات کی پیشگوئی کرتے ہیں بلکہ اس میں کمی لانے کے راستے بھی تلاش کرتے ہیں۔ کسی مالی منصوبہ کی ایکچوریل ویلیویشن کے ذریعہ مستقبل کی ادائیگیوں کی موجودہ قدر کا شمار کیا جاتا ہے جو مستقبل میں کسی فوائد (Benefits Scheme)منصوبہ کے دعویداروں کو ادا کی جائیں گی۔ بیشتر روایتی ایکچوریل ضابطے دو اہم درجوں لائف اور نان لائف میں منقسم ہیں۔ ایکچوریز اپنی پیشہ وارانہ مہارت کے ذریعے بنیادی طور پر پنشن اور صحت کی دیکھ بھال کے منصوبوں میں متوقع اموات کے خطرے اور سرمایہ کاری کے خطرات سے نمٹتے ہیں۔
انسانوں کی متوقع عمر کے بارے میں علم کو ایکچوریل سائنس (Actuarial Science)کہتے ہیں۔ یہ علم کی وہ شاخ ہے جو بنیادی طور پر انشورنس اور مالیاتی صنعتوں میں ممکنہ خطرے اور نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے شماریاتی اور ریاضیاتی ماڈلز بناتی ہے۔ جس شخص نے دنیا میں سائنس کی اس نئی شاخ کو متعارف کرایا وہ انیسویں صدی کے ایک برطانوی ریاضی داں بنجمن گومپرٹز (Benjamin Gompertz)تھے، جو اصل میں ایک انشورنس ایکچوری تھے۔ انہوں نے 1852 میں لندن کی رائل سوسائٹی کے سامنے انسانی زندگی اور اٹل موت سے متعلق اپنا ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا تھا۔ یہ مقالہ ریاضی اور شماریات پر مبنی ایک ایسا ماڈل تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ہماری عمر بڑھنے کے ساتھ موت کا خطرہ تیزی سے بڑھتا ہے اور اب اس نظریہ کو گومپرٹ قانون اموات (Gompertz law of mortality)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بظاہر یہ عام سی بات لگتی ہے اور درحقیقت کچھ ایسا ہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی جسم کے خلیے بڑھنا کم ہوجاتے ہیں اور ان پر جسم کی ضرورت پوری کرنے کا بوجھ پڑ جاتا ہے جس سے یہ خراب ہو جاتے ہیں اور ہمارے جسم کا مزید ساتھ نہیں دے سکتے۔
محقق گومپرٹز نے اموات کی شرح سے متعلق رپورٹس کا باریک بینی سے سائنسی تجزیہ کیا تھا اور ان میں ایک رجحان کا پتا لگایا تھا۔ یہ قانون بنیادی طور پر اس امکان کے حساب کتاب کا نام ہے جس کے نتیجہ میں ہم ممکنہ طور پر ایک دن مرجائیں گے۔ جیسا کہ اگر آپ سے یہ غیر متوقع سوال دریافت کیا جائے کہ آپ کے خیال میں اگلے برس آپ کے مرنے کے امکانات کیا ہیں! تو آپ کیا جواب دیں گے؟ ایک ہزار میں سے ایک فیصد یا شاید 10 لاکھ میں سے ایک؟ بہرحال آپ کا اس بارے میں جو بھی امکان ہوگا وہ اس ماڈل کے حساب سے ہر 8 برس بعد دُگنا ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر ابھی آپ 25 برس کے ہیں تو آئندہ برس آپ کے مرنے کا امکان بہت کم ہے، 0.
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ریٹائرمنٹ یا ناگہانی صورت حال میں بزرگ، معذور شہریوں اور ان کے پسماندگان کو ماہانہ پنشن کے ذریعہ مالی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا میں کئی قسم کے پنشن منصوبے رائج ہیں۔ جن میں ریاستی پنشن منصوبے، شراکتی پنشن منصوبے، نیم شراکتی پنشن منصوبے اور ازخود شراکتی منصوبے قابل ذکر ہیں۔ جبکہ ای او بی آئی پنشن منصوبہ ایک سہ فریقی شراکتی پنشن (Contributory Pension Scheme)منصوبہ ہے۔ جس کا انتظام چلانے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے یکم جولائی 1976 کو ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کا قیام عمل میں آیا تھا جو اب وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ تاکہ آئین پاکستان کی دفعہ 38(c)کی تعمیل میں ملک کے نجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین کو ’’لازمی سماجی بیمہ‘‘ (Contributory Social Insurance)کے ذریعے زندگی میں رونما ہونے والی ناگہانی صورت حال بڑھاپے، معذوری اور بیمہ دار فرد/ پنشنرز کی وفات کی صورت میں اس کے لواحقین کی تاحیات پنشن کے ذریعہ مالی کفالت کی جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وفاقی حکومت اور رجسٹرڈ آجران کو اس پنشن منصوبہ کا مالی سرپرست مقرر کیا گیا تھا۔ ای او بی آئی کا پالیسی ساز ادارہ 16 رکنی سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز ہے جس میں وفاقی حکومت بشمول ای او بی آئی کے چیئرمین، چاروں صوبائی حکومتوں، چاروں صوبوں کے آجران/ مالکان اور ملازمین کے نمائندوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے۔ یہ پنشن منصوبہ چلانے کے لیے وفاقی حکومت کو ای او بی آئی کو سالانہ مساوی امداد(Matching Grant)فراہم کرنے اور رجسٹرڈ آجران/مالکان کو ای او بی آئی میں اپنے رجسٹرڈ ملازمین کی مد میں رواں کم از کم اجرت کے 6 فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لیکن افسوس وفاقی حکومت نے 1995 سے ای او بی آئی کی مساوی امداد بند کر رکھی ہے اور دکھاوے کے طور پر صرف ایک لاکھ روپے سالانہ کی امداد فراہم کر رہی ہے۔ جبکہ قانون کے تحت2001 سے ای او بی آئی کے بیمہ دار افراد میں پنشن منصوبہ میں احساس شراکت بیدار کرنے کے لیے رواں کم از کم اجرت کے ایک فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی لاگو کی گئی تھی۔
رجسٹرڈ آجران/ اداروں اور بیمہ دار افراد سے وصول شدہ ماہانہ کنٹری بیوشن کی رقوم کی ای او بی آئی پنشن فنڈ میں اضافہ کے لیے مقررہ سرمایہ کاری قوانین کے تحت مختلف سرکاری وغیر سرکاری منافع بخش اور محفوظ سرمایہ کاری منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ جس کی بدولت بیمہ دار افراد یا ان کے لواحقین مقررہ شرائط و ضوابط کے مطابق ای او بی آئی سے تاحیات بڑھاپے، معذوری اور پسماندگان پنشن پاتے ہیں۔
لیکن کافی عرصہ سے ای او بی آئی پنشن فنڈ کی مالی صورت حال خاصی مایوس کن ہے۔ کیونکہ وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ تین دہائیوں سے ای او بی آئی کی مساوی امداد کا سلسلہ بند ہے۔ اسی طرح صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر آجران/ اداروں کی اکثریت نے بھی اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود سے مکمل چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ ملک بھر کے بیشتر آجران/ مالکان جان بوجھ کر اپنے اداروں اور اپنے مکمل ملازمین کی ای او بی آئی پنشن منصوبہ میں رجسٹریشن نہیں کراتے اور نہ ہی ان ملازمین کی مد میں ای او بی آئی کے واجب الادا ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی کرتے ہیں بلکہ یہ بھی رحجان زوروں پر ہے کہ بڑے بڑے آجران/ ادارے ضعیف العمر ملازمین فوائد قانون 1976 سے بچنے کے لیے قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر اعلیٰ عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال کے نتیجہ میں ملک کے بڑے بڑے صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر آجران/ ادارے ای او بی آئی کنٹری بیوشن کے کروڑوں روپے کے نادہندہ ہیں اور ان اداروں کے لاکھوں ملازمین اور ان کے لواحقین اپنی پنشن کے حق سے محروم ہوگئے ہیں۔
وفاقی حکومت کی اپنی قانونی ذمہ داریوں سے غفلت اور بیشتر آجران/ اداروں کی جانب سے ضعیف العمر ملازمین فوائد قانون 1976 کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کے نتیجہ میں ای او بی آئی پنشن فنڈ پر کاری ضرب لگی ہے۔
واضح رہے کہ ای او بی آئی پنشن کا آغاز جولائی 1983 میں 75 روپے ماہانہ سے ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ای او بی آئی کی جانب سے نجی شعبہ کے ملازمین کے لیے معذوری پنشن، پسماندگان پنشن،ریاستی پنشن اور طفلی پنشن بھی متعارف کرائی گئی تھیں۔ جب سے اب تک سہ سالہ ایکچوریل ویلیویشن کی بنیاد پر ای او بی آئی پنشن میں21 بار اضافہ کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ایکچوریل ویلیویشن کے بعد امسال یکم جنوری 2025 سے پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں اب کم از کم پنشن 11,500 روپے اور فارمولہ پنشن کے مطابق تقریبا 32,000 روپے ماہانہ تک پہنچ گئی ہے۔ ضعیف العمر ملازمین فوائد قانون 1976 کی دفعہ21 کے تحت ای او بی آئی ہر تین برس کے وقفہ کے بعد اپنے اثاثہ جات اور واجبات کی باضابطہ ایکچوریل ویلیویشن کرائے گا اور اس قانون کے مطابق موزوں ایکچوریل ویلیویشن کا انعقاد کیے بغیر ای او بی آئی کنٹری بیوشن کی شرح یا فوائد(پنشن) کی شرح میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
ایکٹ کی دفعہ21 کا انگریزی متن ملاحظہ ہو!
“The Institution shall, at intervals of not more than three years, have an actuarial valuation made in the prescribed manner of its assets and liabilities and no change in rate of contribution or benefits under this Act shall be made without proper actuarial valuation ”
(جاری ہے)
اسرار ایوبی
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ماہانہ کنٹری بیوشن کی او بی ا ئی پنشن او بی ا ئی کی سے ای او بی ا ئی میں سے ایک فیصد بیمہ دار افراد کے نتیجہ میں وفاقی حکومت سرمایہ کاری ملازمین کی کی جانب سے برس کی عمر کرتے ہیں اور دیگر صورت حال پنشن کے جاتا ہے کے لیے میں ای اور ان ہے اور کے بعد
پڑھیں:
سندھ سروس ٹریبونل میں3 ماہ بعد بھی چیئرمین تعینات نہ ہوسکا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251018-02-8
کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ سروس ٹریبونل میں چیئرمین کی تعیناتی نہ ہونے سے صوبے کے 40 سے زائد سرکاری محکموں کے ملازمین کی اپیلیں التوا کا شکار ہیں۔سندھ سروس ٹریبول کے چیئرمین صادق حسین بھٹی 18جولائی2025 کو ریٹائرہو گئے تھے اور3 ماہ ہونے کو ہیں مگر سندھ سروس ٹریبول میں چیئرمین کا تقرر نہ ہو سکا جس کی وجہ سندھ سروس ٹریبونل میں تبادلے تقرریوں،برطرفی یا معطلی ،ترقی کے تنازعات، سنیارٹی کے مسائل ،تنخواہ، الائونس یا پنشن سے متعلق شکایات، غیرقانونی تقرریوں یا برطرفیوں کی سیکڑوں اپیلیں التوا کا شکار ہیں۔ اس سے قبل ممبر طارق محمود کھوسو 16جون 2025کوریٹائر ہوئے تھے جن کی جگہ عرفان احمدمیو راجپوت کو تعینات کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریبا 40 سے زائد سرکاری محکموں کے ملازمین اپنا حق کے لئے ٹریبونل میں اپیل دائر کرتے ہیں مگر چونکہ چیئرمین سندھ سروس ٹریبونل کا عہدہ خالی ہیاس لیے سماعتیں ممکن نہیں ہوپا رہی ہیں ۔سندھ سروس ٹریبونل کے ممبران کا تقرر تو کچھ عرصہ قبل ہو چکا ہے ممبر-I کے لیے عرفان احمد میئو کو 28جون2025کو مقرر کردیا گیاچیئرمین کے عہدے پر تعیناتی میں تاخیر سے سرکاری ملازمین ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔