صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کا ایک حصہ کیوں گرایا؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کا ایک حصہ گرا دیا۔
امریکی میڈیا کا بتانا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے اندر گرائے گئے حصے کا ملبہ ہٹا کر شایان شان بال روم (ballroom) بنایا جائے گا جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو ڈنر دیے جائیں گے۔
اس حوالے سے دیے گئے ایک بیان میں صدرٹرمپ کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کی عمارت انہیں بہت پسند ہے اور اس تعمیر کے لیے وائٹ ہاؤس کا مرکزی حصہ توڑا نہیں جائے گا۔
دوسری جانب امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ جس بڑے پیمانے پر تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ توڑ پھوڑ سے وائٹ ہاؤس کی مرکزی عمارت بھی متاثر ہوگی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: وائٹ ہاو س
پڑھیں:
جنگ بندی اور ٹرمپ کی ضمانتوں کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں فلسطینی صحافی شہید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ سٹی:غزہ کے جنوبی علاقے میں اسرائیلی ڈرون حملے میں فلسطینی فوٹو جرنلسٹ محمود وادی شہید ہو گئے حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ثالثی کردہ جنگ بندی معاہدے کے تحت علاقے میں امن قائم تھا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق وادی خان یونس کے مرکزی علاقے میں مارے گئے جو اسرائیل کے زیر کنٹرول زون میں شامل نہیں تھا، غزہ حکومت کے میڈیا دفتر کی جانب سے اس واقعے پر ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔
فلسطینی فوٹو جرنلسٹ کے والد عصام وادی نے بیٹے کی شہادت کو خیمے پر آنے والا زلزلہ قرار دیتے ہوئے اسے اسرائیلی قابض افواج کی جرم اور دھوکہ دہی کہا۔
شہید صحافی کے ساتھی محمد ابو عبید نے بتایا کہ محمود وادی انسانی خدمات اور محتاجوں کی مدد کے لیے مشہور تھے، وہ اپنے بیٹے کی پرورش کے منصوبوں کے بارے میں بات کر رہا تھا ۔
اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بارہا اسرائیل سے فلسطینی صحافیوں پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا مگر تل ابیب نے ان اپیلوں کو نظر انداز کیا۔
واضح رہےکہ غزہ میں اکتوبر 2023 سے اب تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 257 ہو گئی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حملوں میں کم از کم 367 فلسطینی ہلاک اور 900 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ حماس نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی یقین دہانی کرائی ہے اور امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر عملدرآمد کے لیے دباؤ ڈالے۔