مسئلہ فلسطین موجودہ تناظر میں!
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سات اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ حالیہ انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ مظالم غزہ کے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے ہیں۔ اس عرصے میں جن دینی قوتوں نے اْن کے حق میں آواز بلند کی‘ جلسے منعقد کیے‘ ریلیاں نکالیں‘ یہ وہ کم از کم حمایت تھی‘ جو ہم کر سکتے تھے۔ بعض نے اپنے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اعانت بھی کی‘ یہ اْخوتِ اسلامی کی بنا پر اْن کی ذمے داری تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ممالک اْن کی عملی اور مادّی مدد کے لیے آگے بڑھتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ آج یہی بے عملی اور مسلم سربراہانِ حکومت کا خوف امت ِ مسلمہ کا المیہ ہے۔ بس قراردادیں پاس کرتے رہے‘ بیانات دیتے رہے‘ لفظی اور کسی حد تک عملی مدد بھی کرتے رہے‘ اس عہد ِ تنزل میں یہ بھی غنیمت ہے۔ پاکستان اور ایران تو خود دشمنوں کے نشانے پر ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی اْس طرف سے صَرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ اب حالات کے جبر سے مجبور ہو کر حماس کی قیادت نے اپنے موقف سے تنزل اختیار کرتے ہوئے ٹرمپ امن منصوبے کو اپنے تحفظات کے ساتھ قبول کر لیا۔ اَحسن بات یہ ہے کہ انہیں نئی فلسطینی ہیئت ِ انتظامیہ کی دفاعی افواج اور داخلی سلامتی کے اداروں میں ضم کیا جائے۔ اب حماس اسرائیل کو معاہدے پر قائم رکھنے کے لیے ضمانت بھی امریکی صدر ٹرمپ سے مانگ رہی ہے اور عرب ومسلم حکمران جنگ بندی کرانے پر ٹرمپ کا شکریہ بھی والہانہ انداز میں ادا کر رہے ہیں۔ یہ اس مصرع کا مصداق ہے: ’’وہی ذبح بھی کرے اور وہی لے ثواب الٹا‘‘۔
اہل ِ غزہ کو اس طویل اور صبر آزما جدوجہد اور عدیم المثال قربانیوں کے نتیجے میں اگر کچھ حاصل ہوا ہے تو فقط یہ ہے: (1) فلسطین کا مسئلہ ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ دنیا کی نظروں کے سامنے اجاگر ہوا۔ (2) اسرائیل کا مکروہ‘ قبیح اور ظالم چہرہ دنیا کے سامنے ایک بار پھر عیاں ہوا۔ (3) عوامی سطح پر اْن کے حق میں دنیا بھر میں آوازیں بلند ہوئیں۔ (4) دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک نے آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں رائے دی۔ لیکن جن یورپی ممالک نے آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں بات کی‘ وہ بھی حماس کے لیے کلمہ ٔ خیر کہنے یا اْسے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور تو چھوڑیے! مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے بھی حماس کے خلاف بات کی‘ اسی طرح فلسطین کے اردگرد اور قرب وجوار میں واقع عرب ممالک نے بھی حماس کی حمایت نہیں کی۔
ہم جیسے ممالک میں دینی اور ملّی جذبے کی حامل جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے فلسطین کے حق میں ریلیاں نکالنے‘ کنونشن اور کانفرنسیں منعقد کرنے‘ نیز بڑے جلسے اور اجتماعات منعقد کرنے کا مقصد اسرائیل اور اْس کے پشت پناہ امریکا کے خلاف نفرت کا اظہار اور اہل ِ غزہ وفلسطین کے ساتھ ہمدردی اور اپنے جذبات کا اظہار مقصود ہوتا ہے‘ ورنہ ہمارے اقدامات کا اسرائیل‘ امریکا اور اہلِ مغرب پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ اس المیے میں یہ حقیقت ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئی کہ تاحال امریکا کی ہمسر کوئی مادّی طاقت دنیا میں موجود ہے اور نہ کوئی اْس کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ چین بلاشبہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اور ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت ہے لیکن ابھی وہ امریکا کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ امریکا کی طرح تنہا دنیا پر اپنے فیصلے مسلط کر سکتا ہے۔ یہ بات تلخ سہی مگر ایک حقیقت ِ ثابتہ ہے۔ یہی صورتحال روس کی ہے۔ روس اپنی تمام تر فوجی قوت کے باوجود یوکرین کو نیست ونابود نہیں کر سکا‘ یوکرین آج بھی قائم ودائم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یوکرینی صدر زیلنسکی نے ناٹو کی شہ پر روس کو للکارا اور خود اپنے ملک کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ماضی میں سوویت یونین دنیا کے نقشے پر موجود تھا اور ایک سپر پاور تھی‘ لیکن وہ 1967ء اور 1973ء کی جنگ میں اسرائیل کے مقابل اپنے حلیف عربوں کی مدد نہ کر سکا‘ یہ سنتے رہے کہ روس کا بحری بیڑا بحرِ روم میں آ گیا ہے اور وہ عملاً جنگ میں شریک ہو جائے گا‘ لیکن یہ خواہش ایساخواب رہی جو شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اْسی دور میں رئیس امروہوی نے ایک تاریخی قطعہ کہا تھا: امریکا و فرنگ کو چھیڑا کہاں گیا؍ جو اْن کو چھیڑتا‘ وہ تھپیڑا کہاں گیا ٭ اے ارضِ مصر و شام! کہاں ہیں تیرے حلیف؍ اے بحرِ روم! روس کا وہ بیڑا کہاں گیا۔
امریکی صدر کی قیادت میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا ہے‘ 13 اکتوبر کو مصر میں اس پر امریکی صدر ٹرمپ‘ مصری صدر عبدالفتاح السیسی‘ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے دستخط کیے۔ نیز اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف‘ برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر‘ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون اور جرمن چانسلر فریڈرک مرز سمیت تیس ممالک کے نمائندے شریک تھے۔ ہم اس حد تک اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے فلسطینیوں کے قتل ِ ناحق‘ نسل کشی اور بے قصور انسانی جانوں کے تلف ہونے کا سلسلہ موقوف ہوگیا ہے‘ اللہ کرے کہ یہ امن دائمی ہو‘ مگر اسرائیل سے عہد کی پاسداری کی کسی کو زیادہ توقع نہیں ہے۔ لیکن یہ معاہدہ ہرگز جامع اور اطمینان بخش نہیں ہے‘ اس میں صرف اسرائیلی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دی گئی ہے جبکہ اہل ِ فلسطین کے حق ِ وطن کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ یہ درست نہیں ہے۔
اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو کھلا راستہ نہیں دینا چاہیے‘ بلکہ عالمی عدالت یا حقوقِ انسانی کے کسی ٹریبونل میں ان کا محاسبہ ہونا چاہیے‘ کیونکہ حالیہ تاریخ میں اسرائیل دنیا کی سب سے بڑی نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے اور امریکا اس قتل ِ عام میں ان کا پشتیبان رہا‘ بلکہ ان کو شہ دیتا رہا ہے؛ پس امریکا کا یہ جرم ناقابل ِ فراموش ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ لیکن کمزور پر اتنا جبر نہ کرو کہ آخرکار وہ موت کو زندگی پر ترجیح دینے پر مجبور ہو جائے‘ کیونکہ پھر آپ کی زندگی بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ اسی طرح غزہ کی بحالی اور تعمیر ِ نو کا جامع منصوبہ بھی اس معاہدے کا حصہ نہیں ہے‘ صرف امریکی صدر ٹرمپ کی تخیّلاتی بشارتیں ہیں‘ جبکہ امریکی وزیر ِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے: ’’ہم کسی بات کی ضمانت نہیں دے سکتے‘‘ یہ خطرے کی علامت ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ عالمی حکومتیں اور ادارے غزہ کے شہدا کے خاندانوں کی بحالی کے لیے باقاعدہ ایک پیکیج بنائیں اور ایک اعلیٰ معیار کا دارْالکفالت بنائیں‘ جہاں غزہ کے یتیم بچوں کی اعلیٰ معیار پر تعلیم وتربیت اور کفالت کا انتظام ہو؛ نیز غزہ کے تباہ شدہ شہری ڈھانچے اور رہائشی عمارات کی کم ازکم مدت میں بحالی کے لیے ایک جامع پیکیج بنایا جائے۔ خدشہ ہے کہ کہیں غزہ کو عالمی سرمایہ داروں اور ساہو کاروں کے حوالے نہ کر دیا جائے کہ وہ اسے دبئی کی طرح ایک عالمی عشرت کدے میں تبدیل کر دیں اور غزہ کے مظلوم فلسطینی محروم رہیں۔
پاکستان کی فلاحی تنظیمیں جو غزہ کے مظلومین اور متاثرین کی مدد کی خواہاں ہیں‘ اب ان کے لیے خدمات انجام دینے کے مواقع پیدا ہونے کی امید ہے۔ انہیں چاہیے کہ بحالی کا ایک سائنٹیفک نظام مرتب کر کے آپس میں اشتراکِ عمل کریں یا مختلف علاقے آپس میں تقسیم کر دیں تاکہ ایک مربوط ومنظّم انداز میں متاثرین کی مدد ہو سکے۔ میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر مشتمل طبی کاروان وہاں لے جائے جائیں‘ جن میں آپریشن تھیٹر‘ ٹیسٹنگ لیبارٹری‘ ایکسرے اور سی ٹی اسکین وغیرہ کا بھی پورا انتظام ہو۔ فزیشن کے ساتھ ساتھ سرجن بھی شامل ہوں۔ ہمیں قوی امید ہے کہ پاکستان میں ایسے طبی ماہرین کی معتَد بہ تعداد موجود ہے جو رضاکارانہ خدمات پیش کرنے کے لیے بخوشی آمادہ ہوں گے۔ اسی طرح اْن کے مزاج کے مطابق روٹیاں تیار کرنے کے لیے بڑے تنور بنائے جائیں‘ کیونکہ پکوانوں کے اعتبار سے اْن کے اور ہمارے خطے کے ذوق میں فرق ہے۔ اسی طرح جو بے خانْماں ہیں‘ اْن کے لیے موسم کی مناسبت سے پناہ گاہیں بنائی جائیں‘ کیونکہ وہاں سردی شدید ہوتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکی صدر فلسطین کے کے حق میں کے ساتھ نہیں ہے ن کے حق کے لیے ہے اور غزہ کے
پڑھیں:
فلسطین کے حق میں آواز اٹھانا صرف سیاسی عمل نہیں بلکہ عبادت اور ایمان کا تقاضا ہے، علامہ باقر زیدی
ایک بیان میں رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا جائز حقِ خودارادیت اور آزاد ریاست نہیں ملتی، اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہر باشعور مسلمان کی ذمہ داری ہے، اسرائیل کی ریاست ظلم، نسل کشی، اور بربریت کی علامت بن چکی ہے، دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ سید باقر عباس زیدی نے اسرائیل و فلسطین تنازعے پر حالیہ جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل وہ ملک ہے جس نے دنیا میں سب سے زیادہ بین الاقوامی معاہدوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں کی ہیں، اس کی تاریخ دھوکے، مکاری اور جبر سے بھری پڑی ہے، اس لیے موجودہ جنگ بندی معاہدہ بھی اسرائیل کی ایک سیاسی چال اور وقتی حربہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے، اس معاہدے میں بطورِ ضامن شامل ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو معاہدے کی پاسداری پر مجبور کریں اور فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی و قومی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم فلسطین کے دیرینہ مسئلے کو فراموش کر دیں یا اپنی جدوجہد کو روک دیں، فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تحفظ امتِ مسلمہ کے ایمان، غیرت اور وقار کا مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا جائز حقِ خودارادیت اور آزاد ریاست نہیں ملتی، اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہر باشعور مسلمان کی ذمہ داری ہے، اسرائیل کی ریاست ظلم، نسل کشی، اور بربریت کی علامت بن چکی ہے، دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا وقت آ گیا ہے، جو قوتیں انسانی حقوق کی علمبردار بنتی ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں، نہ کہ ظالم کو مزید سہولتیں دیں۔انہوں نے اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین کے مستقل اور منصفانہ حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانا صرف سیاسی عمل نہیں بلکہ عبادت اور ایمان کا تقاضا ہے، امتِ مسلمہ کو چاہیئے کہ وہ متحد ہوکر مظلوموں کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرے اور ظالم طاقتوں کے خلاف پرامن مگر مضبوط مزاحمتی موقف برقرار رکھے۔