اسلام آباد:

وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ ٹیکس ہدف میں 150 ارب روپے کمی پر اتفاق کر لیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ٹیکس ہدف 14 ہزار131 ارب سے گھٹ کر 13 ہزار981 ارب روپے کر دیا گیا جبکہ سیلاب نقصانات کی تصدیق شدہ رپورٹ پر ٹیکس ہدف میں مزید کمی کا امکان ہے۔

جی ڈی پی گروتھ 3.5 فیصد اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 11 فیصد مقرر کی گئی تاہم رواں مالی سال جی ڈی پی 1 لاکھ 29 ہزار ارب روپے ہدف تک نہ پہنچنے کا خدشہ ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ نئے ایم ای ایف پی ڈرافٹ پر میکرو اکنامک فریم میں تبدیلی پر اتفاق ہوگیا، 1.

2 ارب ڈالر کی قسط پر نئی کنٹری رپورٹ میں تمام بینچ مارکس شامل ہوں گے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل آئی ایم ایف نے پاکستان میں حالیہ سیلاب کے معیشت پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

آئی ایم ایف نے مڈل ایسٹ اینڈ سینٹرل ایشیا ریجینل اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ پاکستان میں حالیہ شدید سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث معاشی اشاریوں کا توازن بگڑنے کا خدشہ ہے۔

آئی ایم ایف نے بتایا تھا کہ سیلاب کے باعث معاشی ترقی، مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ توازن بگڑ سکتا ہے، رواں سال معاشی شرح نمو 4.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 3.6 فیصد رہے گی اور مہنگائی بھی دوبارہ بڑھے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آئی ایم ایف ٹیکس ہدف ارب روپے

پڑھیں:

یمن میں نیا فتنہ

اسلام ٹائمز: جنوبی یمن نامی ایک ملک یمن میں 27 سال سے موجود ہے۔ جنوبی یمن 1967ء میں برطانوی اثر و رسوخ کے خاتمے کے بعد "پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن" کے نام سے قائم ہوا تھا اور اسے عرب دنیا کی واحد مارکسی حکومت سمجھا جاتا تھا۔ اسے برسوں سے ملک کے اندرونی بحرانوں، دھڑے بندیوں اور شمالی یمن کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا سامنا رہا۔ بین الاقوامی تبدیلیوں اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد، دونوں یمنوں نے 1990ء میں اتحاد کا عمل شروع کیا اور ایک سرکاری معاہدے پر دستخط کے ساتھ، "جمہوریہ یمن" کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم، سیاسی کشیدگی جاری رہی اور 1994ء میں خانہ جنگی کا باعث بنی، لیکن شمال جیت گیا اور یمن کا متحد ڈھانچہ قائم ہوا۔ اگرچہ جنوب اور شمال کے درمیان تقسیم اب بھی باقی ہے۔ تحریر: رضا دھقانی

متحدہ عرب امارات کے کرائے کے فوجیوں نے یمن کو تقسیم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر دھرنوں کا مطالبہ کیا ہے۔ اس علیحدگی پسند گروپ (جنوبی عبوری کونسل)، جو یو اے ای کے ساتھ منسلک ہے، اس نے ایک بیان میں اپنے تمام حامیوں سے مختلف شہروں میں دھرنے دینے اور جنوبی یمنی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے ساتھ منسلک "جنوبی عبوری کونسل" گروپ نے کل رات گئے ایک بیان میں اپنے تمام حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "عدن"، "مکلہ" (صوبہ حضرموت کا دارالحکومت) اور الغایدہ (صوبہ المہرہ) سمیت مختلف شہروں میں دھرنے دیں اور یمن سے علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ بیان میں، گروپ نے اپنے حامیوں سے شہر کے اہم چوکوں میں آج اتوار کی صبح سے خیمے لگانے کا مطالبہ کیا۔

یہ کال، جسے اپنی نوعیت میں بے مثال سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ یہ یمن کے 70 فیصد سے زائد تیل کے ذخائر پر مشتمل صوبہ حضرموت میں ناامنی کا باعث بن سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں عبوری کونسل کے عناصر اور ریاض سے وابستہ حکومت اور صوبہ حضرموت کے قبائل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ رپورٹس کے مطابق، SNC فورسز نے 2 دسمبر 2025ء کو "مستقبل کا وعدہ" کے نام سے ایک فوجی آپریشن شروع کیا اور اسٹریٹجک شہر سیون، وادی حضرموت کے اہم فوجی اور شہری مراکز اور یہاں تک کہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آپریشن، جسے SNC نے "سکیورٹی کی بحالی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک ضروری قدم" کے طور پر بیان کیا ہے، اسے حکومت کی حامی فورسز اور مقامی قبائل کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن SNC عناصر اب تک برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

یہ لڑائی 30 نومبر کو شروع ہوئی تھی اور اس میں بھاری گولہ باری، بھاری ہتھیاروں کا استعمال اور شہری ہلاکتیں شامل ہیں۔ SNC کا دعویٰ ہے کہ پیش قدمی خطے میں القاعدہ، ISIS اور انصار اللہ کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھی، جبکہ حکومت کے حامی اہلکار اسے "مسلح بغاوت" کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ دوسری جانب کشیدگی میں اضافے کے درمیان سعودی وفد ثالثی کے لیے خطے میں داخل ہوا اور بظاہر چار روز قبل متحارب فریقوں کے ساتھ ایک عارضی معاہدہ طے پایا، جو کہ اب تک صرف کاغذوں پر ہی رہ گیا ہے۔ ادھر ریاض سے وابستہ حکومت کے سربراہ عدن سے فرار ہوگئے۔ اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ باخبر ذرائع نے کل اطلاع دی کہ "یمن صدارتی کونسل" (ریاض کے ساتھ منسلک) کے نام سے مشہور تنظیم کے سربراہ رشاد العلیمی نے عدن کے علاقے الماشیق میں واقع صدارتی محل کو اچانک چھوڑ دیا اور اس روانگی کے ساتھ دفتر کا مکمل انخلاء اور دستاویزات کی منتقلی بھی شامل ہے۔

Arabi21 ویب سائٹ کے مطابق العلیمی کے عملے نے ان کی روانگی سے قبل حساس دستاویزات اور فائلوں کو جلا دیا اور صدارتی محل سے منسلک ہتھیاروں اور گاڑیوں کو محل سے ہٹا دیا۔ ایک ایسی کارروائی جو ہنگامی حالت اور عدن حکومت سے وابستہ سکیورٹی ڈھانچے کے سقوط کے امکان کی نشاندہی کر رہی ہے۔ دوسری جانب، متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ افواج کی پیش قدمی کے جواب میں، حضرموت قبائل کے گرینڈ الائنس نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے، UAE کو صوبہ حضرموت میں فوجی جھڑپوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حضرموت اور المہرہ صوبوں میں وسیع پیمانے پر دھرنے اور فوجی مہم کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے، جنوبی عبوری کونسل نے ہمیشہ جنوب کو شمال سے الگ کرنے پر زور دیا ہے اور اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے وسیع مالی اور ہتھیاروں کی مدد سے فائدہ اٹھایا ہے۔

جنوبی یمن نامی ایک ملک یمن میں 27 سال سے موجود ہے۔ جنوبی یمن 1967ء میں برطانوی اثر و رسوخ کے خاتمے کے بعد "پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن" کے نام سے قائم ہوا تھا اور اسے عرب دنیا کی واحد مارکسی حکومت سمجھا جاتا تھا۔ اسے برسوں سے ملک کے اندرونی بحرانوں، دھڑے بندیوں اور شمالی یمن کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا سامنا رہا۔ بین الاقوامی تبدیلیوں اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد، دونوں یمنوں نے 1990ء میں اتحاد کا عمل شروع کیا اور ایک سرکاری معاہدے پر دستخط کے ساتھ، "جمہوریہ یمن" کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم، سیاسی کشیدگی جاری رہی اور 1994ء میں خانہ جنگی کا باعث بنی، لیکن شمال جیت گیا اور یمن کا متحد ڈھانچہ قائم ہوا۔ اگرچہ جنوب اور شمال کے درمیان تقسیم اب بھی باقی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قائم مقام چیئرمین سینیٹ سے مختلف وفود کی ملاقاتیں
  • خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے اُنکی معاشی خودمختاری اور سماجی رویوں میں تبدیلی ناگزیر !!
  • پاکستان اور مصر کا مشترکہ معاشی لائحہ عمل پر اتفاق
  • یمن میں نیا فتنہ
  • مودی کا کرپٹ دور حکومت
  •  قطر نے پاکستان کے ساتھ نئی تجارتی شراکت داری قائم کی ہے، وزیر خزانہ
  • 4 ارب میونسپل ٹیکس بجلی بلوں میں وصول کیے، گٹر پر ڈھکن لگانے کے پیسے نہیں، چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن
  • سیلاب سے معاشی نقصان مجموعی قومی پیداوار کے 9.5فیصد سے تجاوز کر چکا: مصدق ملک
  • صنعتی شہر ڈسٹرکٹ حق کیلیے اربوں روپے کے منصوبے منظورکرائے
  • این ایف سی اجلاس: ایف بی آر نے ٹیکس وصولیوں کا 5 فیصد صوبوں کو دینے کی مخالفت کردی