ڈی جی کے ڈی اے آصف جان صدیقی کا کراچی چیمبر کا دورہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (کامرس رپورٹر) کو قومی خزانے میں خطیر شراکت داری کے باوجود نظر انداز کرنا باعث تشویش ہے، نوصیر تیلی کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( کے ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل آصف جان صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی کے لیے آخری ماسٹر پلان 2020 میں تیار کیا جا رہا تھا مگر اس کے بعد شہر میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور ایسے نئے چیلنجز سامنے آئے ہیں جن کا پہلے گمان بھی نہیں کیا گیا تھا لہٰذا ان حقائق سے نمٹنے اور 2047 تک شہر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سندھ حکومت نے 2020 کے ماسٹر پلان کو اپ ڈیٹ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں گریٹر کراچی ریجنل ماسٹر پلان 2047 تیار کیا جارہا ہے۔ یہ ماسٹر پلان غیر ملکی کنسلٹنٹس کی مدد سے تیار کیا جا رہا ہے جو ترجیحات کا تعین کرے گا اور مستقبل کے انفراسٹرکچر فیصلوں کی رہنمائی کرے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں بزنس مین گروپ (بی ایم جی) کے وائس چیئرمین جاوید بلوانی ( بذریعہ زوم)، صدر کے سی سی آئی محمد ریحان حنیف، سینئر نائب صدر محمد رضا، نائب صدر محمد عارف لاکھانی، کراچی کی ترقی کے لیے کے سی سی آئی کی سب کمیٹی کے چیئرمین نوصیر سراج تیلی، سابق صدر یونس محمد بشیر اور منیجنگ کمیٹی کے ارکین نے شرکت کی۔ڈی جی کے ڈی اے آصف جان صدیقی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) سمیت تمام اہم اسٹیک ہولڈرزکو منصوبہ بندی کے عمل میں خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔کے سی سی آئی کو گریٹر کراچی ماسٹر پلان کے تحت تشکیل دی گئی دو اہم ترین کمیٹیوں میں شامل کیا گیا ہے تاکہ اس کی تجاویز اور سفارشات فیصلہ سازی کے عمل کا لازمی حصہ بن سکیں۔انہوں نے کے ڈی اے کی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ سندھ حکومت ماہانہ 40 کروڑ روپے کی گرانٹ فراہم کرتی ہے لیکن صرف تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 53 کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں جس سے 13 کروڑ روپے کا خسارہ پیدا ہوتا ہے جو پلاٹوں کی منتقلی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پورا کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے ہم ریٹائرمنٹ کے بعد کے واجبات ادا کرنے یا خود سے منصوبے شروع کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اگرچہ کے ڈی اے کے پاس ماہر افرادی قوت اور مشینری موجود ہے مگر ہم صرف وہی منصوبے جیسے انڈر پاسز یا اوور ہیڈ پل کے منصوبے انجام دے سکتے ہیں جن کے لیے سندھ حکومت خصوصی فنڈز فراہم کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت سندھ حکومت کے فنڈز سے اربوں روپے مالیت کے کئی کے ڈی اے منصوبے زیرِ تکمیل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت تھا جب وفاقی حکومت بھی کراچی کی ترقی میں مدد فراہم کرتی تھی لیکن اِس وقت صرف سندھ حکومت ہی شہر میں تمام بڑے ترقیاتی کاموں کے لیے مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔بزنس مین گروپ ( بی ایم جی ) کے وائس چیئرمین جاوید بلوانی نے بذریعہ زوم اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے کے ڈی اے کے پلاٹوں پر قبضوں کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ کے ڈی اے کے پاس پہلے ہی اینٹی انکروچمنٹ سیل موجود ہے لیکن اس معاملے پر تیز اور شفاف کارروائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس سے قبل ڈی جی کے ڈی اے کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال کر چکے ہیں تاکہ ایسے پلاٹوں کو واگزار کروانے کے لیے عملی طریقے تلاش کیے جا سکیں۔انہوں نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ اس حوالے میں کام شروع ہو چکا ہے تاہم ہم اب تک پیش رفت کے بارے میں جاننے کے خواہش مند ہیں کہ کے ڈی اے کے کتنے پلاٹوں کو کامیابی کے ساتھ واگزارکرایا گیا ہے اور کے ڈی اے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کیا ٹھوس لائحہ عمل اختیار کر رہا ہے۔جاوید بلوانی نے مزید کہا کہ ٹریفک انجینئرنگ بیورو جو کے ڈی اے کے ماتحت کام کرتا ہے وہ بڑی حد تک غیر فعال ہو چکا ہے جس کی وجہ سے شہر میں ٹریفک جام میں اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ کراچی میں ٹریفک سگنلز کی دیکھ بھال اور تنصیب بھی کے ڈی اے کے دائرہ اختیار میں آتی ہے اور اس بارے میں باقاعدہ بات چیت جاری ہے تاکہ تمام غیر فعال ٹریفک سگنلز کو جلد فعال کیا جا سکے۔ انہوں نے نئے ڈی جی کے ڈی اے آصف جان صدیقی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئے ڈجی کا مختلف محکموں میں مخلصانہ خدمات کا ریکارڈ ان کی صلاحیت، ایمانداری اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آصف صدیقی کے ڈی اے کی بحالی اور اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں اپنی سابقہ خدمات کو برقرار رکھتے ہوئے اسی جوش و جذبہ اور عزم کا مظاہرہ کریں گے۔
ڈی جی کے ڈی اے آصف جان صدیقی کاکراچی چیمبر کا دورے موقع پر شرکاء کا گروپ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈی جی کے ڈی اے ا صف جان صدیقی کے سی سی ا ئی کراچی چیمبر ہے انہوں نے کے ڈی اے کے ماسٹر پلان سندھ حکومت کرتے ہوئے کے لیے رہا ہے کہا کہ کیا جا نے کہا
پڑھیں:
پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر حکومت کرنا ایک بھیانک خواب تھا، گورنر پنجاب
پشاور:گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کے ساتھ مل کر 18ماہ حکومت کرنا بھیانک خواب تھا، (ن) لیگ کے ساتھ مل کر حالیہ حکومت بنانا ملک کی خاطر تھا جس کا ہمیں نقصان ہوا آٹے کی کے پی ترسیل نہ ہونے کا معاملہ وزیراعلی پنجاب کے ساتھ اٹھاؤں گا۔
یہ بات انہوں ںے جمعہ کے روز گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کے ہمراہ گورنر ہاؤس پشاور میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ یہ میرا پشاور کا پہلا دورہ ہے، اراکین اسمبلی سے بھی ملاقات بہت مفید رہی، ہم اٹھارہ ماہ کی حکومت میں پی ڈی ایم جماعتوں کے ساتھ یکجا تھے جو پیپلز پارٹی کے لیے بھیانک خواب تھا، موجودہ حکومت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی معاہدے کے تحت کر رہے ہیں مگر معاملات ٹھیک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بلاول بھٹو کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پی پی کے مطالبات پورے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سہیل آفریدی کو بانی پی ٹی آئی سے ملنے دیں انھیں مفت میں ہیرو کیوں بنایا جارہا ہے؟ ملنے سے قوم کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا، سیاسی فیصلے سیاسی انداز میں کرنے چاہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ پاکستان اور جمہوریت کی بات کی، آٹے کی ترسیل پر پابندی نہیں ہونی چاہیے ہم بجلی گیس کے پی کی استعمال کرتے ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب سے آٹے کی ترسیل پر عائد پابندی ختم کرنے کی بات کروں گا۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ ہمارا مسلم لیگ (ن) سے اتحاد فطری نہیں نہ دونوں پارٹیوں کے ورکر خوش ہیں لیکن اگر ہم مسلم لیگ سے مل کر حکومت نہ بناتے تو ملک کہاں کھڑا ہوتا؟اگر ہم مسلم لیگ کے ساتھ نہ بیٹھتے تو ہم پر تنقید ہوتی، ہمارا اتحاد میں فائدہ نہیں نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے بات چیت کرنی پڑتی ہے، کے پی حکومت کو سیاسی رویہ اپنانا ہوگا، شہباز شریف کسی دوسرے ملک سے نہیں آئے ان سے کے پی حکومت بات چیت کرے تاکہ صوبہ کودرپیش مسائل ختم ہوپائیں۔
سردار سلیم حیدر نے کہا کہ ڈھائی سال مسلم لیگ اور ڈھائی سال پیپلز پارٹی کی حکومت کے معاہدہ کا علم نہیں نہ اس پر بات کرسکتا ہوں، بلاول بھٹو نے تو سیلاب میں کام پرمریم نوازکی تعریف کی لیکن مریم نواز ویسے ہی غصہ کرگئیں، پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ کے درمیان جوتلخی ہوئی وہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم ہم نے کرائی اورہم اس کاکریڈٹ لیتے ہیں اوراسے اپناسمجھتے ہیں 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں کچھ علم نہیں جب آئے گی تب بات کریں گے۔
اس موقع پر گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہاکہ وزیراعلیٰ کے پی سہیل آفریدی سے کہا ہے کہ صوبے کا جرگہ بناکر وفاق سے حقوق لیے جائیں اوریہی بات میں نے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورسے بھی کہی تھی اور تجویز کیا کہ اس مقصد کے لیے جوکمیٹی تشکیل دی جائے اس کا چیئرمین کے پی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کو بنایا جائے کیونکہ مرکز میں ان کی حکومت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی اور رقبہ بڑھ گیا ہے تو نیا این ایف سی ایوارڈ ہونا چاہیے، میری طرف سے وزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت کے لیے دروازے کھلے ہیں۔
فیصل کنڈی نے کہا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں امن و امان کی صورت حال خراب ہے آپریشن نہ ہوتے تو حالات مزید خراب ہوتے، 80 فیصد دہشت گردی افغانستان سے ہورہی تھی آپریشنز نہ ہوتے تو سیکیورٹی ایجنسیاں الہٰ دین کا چراغ تو نہیں رکھتیں کہ حالات ٹھیک ہوجائیں، امن اور ترقی کے لیے مرکز اور صوبہ ایک پیج پر ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ پُرامید ہوں کہ جلد پاک افغان بارڈر کھل جائے گا، غیرملکی اگر ہماری سرزمین نہیں چھوڑتے تو آپریشن ہوں گے، گورنر کے پی نے مزید کہا کہ پنجاب آٹے کی ترسیل پر عائد پابندی ختم کرے۔