ہم نے اپنے لیڈر کو پاکستان سے بڑا نہیں مانا، اس سے لا تعلق ہو گئے: ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
خالد مقبول صدیقی — اسکرین گریب
چیئرمین متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے لیڈر کو بھی پاکستان سے بڑا نہیں مانا، اس سے لا تعلق ہو گئے، اگر پی ٹی آئی والے سمجھتے ہیں ان کا قائد ملک سے بڑا ہے تو انہیں فیصلہ کرنا ہو گا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا، خدشات بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں غیر ملکی مداخلت نہ ہو، کیا حالات پاکستان کے خلاف کسی سازش کے امکانات تو پیدا نہیں کر رہے؟
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ یہ فوج کسی بھی ایک جماعت کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے،
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ حکومت سے توقع رکھتا ہوں کہ پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو احتیاط سے دیکھے، سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں، لیکن پاکستان کی حرمت اور بقا کے لیے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس سال ہندوستان کو شکست دے چکے، اب اس کی پراکسی کو بھی شکست دیں گے، جنہوں نے ہم پر الزامات لگائے، انہوں نے خود اپنے الزامات کی نفی کی ہے، پاکستان ہمارا ہے، ہم نے اس کے لیے قربانی دی اور دیتے رہیں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ
پڑھیں:
صدر پوٹن کا دورہء ہندوستان
اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ میں کوئی ممکنہ بڑی جنگ عالمی افق پر کسی نئے منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لمحہء موجود میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طالبان و افغانستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اس بار بھی کہیں وہ غلطی نہ کر بیٹھے جو اس نے ”نائن الیون“ کے بعد کی تھی۔ یعنی اب بھی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوگا۔ اس طرح طالبان کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان سے جنگ کو امریکہ کے خلاف جہاد سے تعبیر کریں اور یوں امریکہ مخالف بننے والے نئے کیمپ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
”نائن ایلیون“ کے بعد امریکہ کے سر پر انتقام کا بھوت سوار تھا۔ وہ جلدازجلد افغانستان کو ”تورا بورا“ بنانا چاہتا تھا۔ اپنی آتشِ انتقام کو سرد کرنے کے لیے اسے کسی کی ”لاجسٹک سپورٹ“ کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس کے ایک دھمکی آمیز فون نے اس کا کام آسان کر دیا۔ جنرل مشرف نے امریکہ کے ابرو کے ایک اشارے پر اسے پلیٹ میں رکھ کر وہ کچھ دے دیا جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا اور جو اس کا مطالبہ بھی نہیں تھا۔ اس حوالے سے افتخار عارف کا ایک معروف شعر(ان سے معذرت کے ساتھ) کچھ ترمیم کے ساتھ، اس شکل میں وارد ہوا:
امریکہ کی چوکھٹ پہ ہم آشفتہ سروں نے
سجدے کیے کچھ ایسےجو واجب بھی نہیں تھے
امریکہ کے سامنے اس درجہ تک جبہ سرائی کے جواز میں کہا گیا کہ اگر ہم اس کام میں پہل نہ کرتے تو ہمارا رقیب ہندوستان مفادات کی اس دوڈ میں ہم پر سبقت لے گیا ہوتا۔ گویا ہمیں کسی کی محبت اور کسی کی مخالفت میں یہ سب کچھ انجام دینا پڑا۔ (آج ہم اپنے دامن میں اپنی اس پالیسی کی وجہ سے جس قسم کے ”فوائد“ سمیٹے ہوئے ہیں، وہ ”پہلے آؤ، پہلے پاؤ“ کے اصول پر ہمارے اسی عمل کا نتیجہ ہے۔) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جلد بازی میں ”دانے“ کو دیکھا لیکن ”دام“ کو نہ دیکھا۔ یوں ہم تب سے اب تک، امریکہ بہادر کے بچھائے ہوئے اس جال میں بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں۔
کامیابی اس میں نہیں کہ امریکہ ہم پر کتنا مہربان ہے بلکہ کامیابی اس میں ہے کہ ہم امریکہ کے سایے سے کس حد تک دور ہیں۔ ہم نے امریکہ کے راستے میں اپنے دیدہ و دل بچھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن حد یہ ہے کہ کوئی امریکی صدر ہماری سرزمین ہر اپنا قدم رنجہ فرمانا اپنی شان اقدس کے خلاف سمجھتا ہے۔ حالانکہ ہم اپنے اس ”صنم“ کو راضی کرنے کے لیے ہمیشہ اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ رہے۔
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہء رقیب میں بھی سر کے بل گیا
اس کے مقابلے میں جب ہم صدر پوٹن کے حالیہ دورہء ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو ہم احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر غور کرنا چاہیئے۔ ہمارے بعض تجزیہ نگار اس بات پر خوش ہیں کہ ”مودی نے امریکہ و یورپ کو جس طرح جھنڈی دکھا کر پوٹن کا استقبال کیا ہے، اس سے اس نے اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔“ حالانکہ مودی نے اپنے پاؤں زخمی کرکے بھی جس روش کو اختیار کیا ہے اسے سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ امریکہ کی مخالف سمت میں اس کے اس سفر سے اسرائیل سے اس کی دوری پیدا ہو گی لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات بڑھنے سے چین سے اس کے اختلافات کم ہوں گے۔
پاکستان کے پاس اتنی مہارت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس نئی عالمی بساط پر اپنے بہتر کارڈ کھیل سکتا ہے۔ اسے چاہیئے کہ وہ آج کی صورت حال کے مطابق امریکہ سے کم از کم اتنی دوری اختیار کرے جو روس، چین اور ایران کے بننے والے علاقائی محور میں اپنی کوئی خاص پہچان بنائے۔ (ناممکن نہیں کہ مستقبل قریب میں ہندوستان اور افغانستان بھی اس محور کا حصہ بن جائیں۔ جس میں شمولیت کے لیے سب سے بڑی شرط امریکہ سے دوری ہو)۔
مشرق وسطیٰ میں کوئی ممکنہ بڑی جنگ عالمی افق پر کسی نئے منظرنامے کو تشکیل دے سکتی ہے۔ لمحہء موجود میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ طالبان و افغانستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اس بار بھی کہیں وہ غلطی نہ کر بیٹھے جو اس نے ”نائن الیون“ کے بعد کی تھی۔ یعنی اب بھی وہ اس مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوگا۔ اس طرح طالبان کو موقع ملے گا کہ وہ پاکستان سے جنگ کو امریکہ کے خلاف جہاد سے تعبیر کریں اور یوں امریکہ مخالف بننے والے نئے کیمپ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔
روس نے پہلے ہی اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ اس خطے کے مسائل کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں بلا مبالغہ تمام مسائل کی جڑ امریکہ ہی نظر آئے گا۔ ہم جو اب تک امریکہ کے پیدا کیے ہوئے مسائلِ کہن کے بھنور سے نہیں نکل پائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آنے والے وقتوں میں اس سے کہیں بڑے گرداب میں پھنس کر رہ جائیں۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا