عورت کی رضامندی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی: سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ سنا دیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ اور فیملی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ عورت کی مرضی کے بغیر عدالت نکاح ختم نہیں کر سکتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے 17 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے عورت کا نکاح ختم کرنے کے حق سے متعلق اہم فیصلہ سنا دیا، 17 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں ظلم، خلع اور عورت کے حقوق سے متعلق اہم نکات بیان کیے گئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ نفسیاتی اذیت بھی جسمانی تشدد جتنی سنگین ہے، اور عدالتوں کو خواتین سے متعلق فیصلوں میں محتاط زبان استعمال کرنی چاہیے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ظلم صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں بلکہ وہ طرزِ عمل بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے جو عورت کو ذہنی یا جذباتی اذیت پہنچائے اور اس کے لیے عزت و سلامتی کے ساتھ گھر میں رہنا ناممکن بنا دے۔
فیصلے کے مطابق ظلم میں گالم گلوچ، جھوٹے الزامات اور ذہنی اذیت دینا بھی شامل ہے، جبکہ جسمانی زخم ظلم کے لیے ضروری شرط نہیں۔ اگر ازدواجی زندگی اس حد تک بگڑ جائے کہ عورت کے لیے نکاح میں رہنا ممکن نہ رہے تو یہ بھی ظلم تصور کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ عدالتوں کو قانون میں دی گئی مثالوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، تاہم ظلم کی صورتیں صرف انہی تک محدود نہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدے بھی گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق فیملی کورٹ، ایپلٹ کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے خلا، مہر اور نان و نفقہ سے متعلق فیصلے کالعدم قرار دیے گئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ شوہر نے دوسری شادی کی تھی، اس لیے بیوی کو اپنا مہر واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہ فیصلہ مئی 2024 کے پشاور ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف دیا گیا جس میں خاتون کی رِٹ مسترد کر دی گئی تھی۔ عدالت نے خاتون کے وکیل کا مؤقف تسلیم کیا کہ فیملی کورٹ نے اس کی مؤکلہ کے دلائل اور رضامندی کو نظر انداز کرتے ہوئے خلع کا حکم دے دیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ فیصلے میں عدالت نے کورٹ نے
پڑھیں:
ٹی ایل پی پر پابندی کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر نہ کرنے کا فیصلہ
وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی سے متعلق سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق، ٹی ایل پی پر پابندی انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت عائد کی گئی ہے، اس لیے اس کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی ضرورت نہیں۔
ذرائع نے واضح کیا کہ یہ پابندی آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت نہیں بلکہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت لگائی گئی ہے۔
خیال رہے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزارتِ داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس کے تحت ٹی ایل پی کو کالعدم تنظیم قرار دے دیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ٹی ایل پی دہشت گردی پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی بنا پر تنظیم کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کےفرسٹ شیڈول میں شامل کرتے ہوئے کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔