Jasarat News:
2025-10-26@01:36:21 GMT

عورت کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی،عدالت عظمیٰ

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد ( آن لائن ) عدالت عظمیٰ نے گھریلو تشدد اور عورت کے نکاح ختم کرنے کے حق (خ±لع) سے متعلق ایک اہم اور تاریخی فیصلہ جاری کر دیا، جس میں عدالت نے پشاور ہائی کورٹ اور فیملی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔جسٹس عائشہ ملک نے 17
صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ عورت کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ازدواجی زندگی میں نفسیاتی اذیت جسمانی تشدد جتنی سنگین ہے ، اور شوہر کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نکاح کی تنسیخ کے لیے ایک جائز بنیاد ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ظلم صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں، بلکہ ایسا طرزِ عمل بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے جو عورت کو ذہنی یا جذباتی اذیت پہنچائے اور اس کے لیے عزت و سلامتی کے ساتھ گھر میں رہنا ناممکن بنا دے۔عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ گالم گلوچ، جھوٹے الزامات، اور ذہنی اذیت دینا بھی ظلم کے زمرے میں شامل ہیں اور ظلم کے لیے جسمانی زخم کا ہونا ضروری نہیں۔ اگر کسی عورت کی ازدواجی زندگی ایسی اذیت ناک ہو جائے کہ وہ مزید ساتھ نہ نبھا سکے تو عدالت کو اس کے نکاح کے خاتمے کی اجازت دینی چاہیے۔فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ نے ظلم کی تعریف کو جامع مثالوں کے ذریعے واضح کیا ہے اور عدالتوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ ظلم کی مختلف صورتوں کو پہچان کر انصاف کر سکیں۔جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ عدالتوں کو خواتین سے متعلق محتاط اور باوقار زبان استعمال کرنی چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔عدالت نے مئی 2024 کے پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ خاتون کی رضامندی کے بغیر خلع کا حکم دینا غیر قانونی ہے اور نکاح دوسری شادی کی بنیاد پر ختم کیا جاتا ہے ، لہٰذا بیوی کو مہر واپس کرنے کی ضرورت نہیں ۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ فیملی کورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا اور خاتون کے دلائل کو نظر انداز کر کے اسے مہر سے محروم کر دیا۔عدالت نے انٹرنیشنل کنویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ غیر انسانی، ظالمانہ یا تحقیر آمیز سلوک عالمی سطح پر ممنوع ہے اور یہ اصول گھریلو تشدد کی شکار شادیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے

راصب خان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عدالت نے کہا گیا کے بغیر

پڑھیں:

ٹیکنالوجی ایک طاقتور حلیف لیکن انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، جسٹس سوریا کانت

جسٹس سوریا کانت نے خبردار کیا کہ اے آئی پر ان کاموں میں بھروسہ کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے جن میں فیصلہ، تخلیقی صلاحیت یا پیش گوئی کی ضرورت ہو۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینیئر جج جسٹس سوریا کانت نے زور دیا کہ ٹیکنالوجی عدلیہ اور عدالتی انتظامیہ کے لئے ایک طاقت بن چکی ہے۔ کبھی کاغذات سے بھرے عدالتی دفاتر اب ایسے ڈیش بورڈز سے بدل رہے ہیں جو حقیقی وقت میں مقدمات کی پیشرفت کو ٹریک کرتے ہیں، یہ شفافیت اور کارکردگی میں بے مثال اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی ہماری پہنچ کو بڑھاتی ہے اور ہماری صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتی ہے لیکن یہ انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، انصاف کا جوہر ڈیٹا یا الگورتھم میں نہیں بلکہ ضمیر اور ہمدردی میں پنہاں ہے۔

جسٹس سوریا کانت نے واضح کیا کہ جج کا فیصلہ، وکیل کی دلیل اور فریقین کا وقار، یہ سب انصاف کے زندہ ریشے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مشین گواہ کی آواز میں لرزش، درخواست کے پیچھے کی تکلیف یا فیصلے کے اخلاقی وزن کو محسوس نہیں کر سکتی۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) تحقیق میں مدد کر سکتی ہے، لیکن یہ انسانی جذبات کو نہیں سمجھ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم وکیل یا جج کو تبدیل نہیں کر رہے، بلکہ ان کی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کو رہنما بننے دیں اور انسان کو حکمرانی کرنے دیں، انصاف کے نظام میں انسانی نگرانی ناگزیر ہے۔

ٹیکنالوجی کے فوائد کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ ڈیٹا کی حفاظت، رازداری اور معلومات کی رازداری انتہائی اہم ہیں۔ AI ٹولز غلط معلومات یا من گھڑت حقائق پیدا کر سکتے ہیں، اور ان میں تعصب بھی ہو سکتا ہے۔ جسٹس سوریا کانت نے خبردار کیا کہ اے آئی پر ان کاموں میں بھروسہ کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے جن میں فیصلہ، تخلیقی صلاحیت یا پیش گوئی کی ضرورت ہو۔ ہمیں قانونی ٹیکنالوجی تک رسائی کو جمہوری بنانا چاہیے، نہ کہ اسے چند لوگوں کا استحقاق بننے دیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں قانونی ٹیکنالوجی کو نصاب کا گہرا حصہ بنانا چاہیئے۔ قانون کے کالجوں اور عدالتی اکیڈمیوں کو ڈیٹا سائنس، قانونی انفارمیٹکس اور اے آئی اخلاقیات جیسے کورسز شامل کرنے چاہیئے۔ عدلیہ اور بار دونوں میں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی سے واقف ہوں اور مثال قائم کریں۔ ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں، ہم ٹیکنالوجی کی مزاحمت کر کے جمود کا شکار ہو سکتے ہیں یا اسے اپنی قانونی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ڈھال کر انصاف کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قبائل اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے پاکستانی ہیں اور رہیں گے: وزیراعلیٰ پختونخوا
  • ٹیکنالوجی ایک طاقتور حلیف لیکن انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، جسٹس سوریا کانت
  • عورت کی رضامندی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی: سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ سنا دیا
  • قبائل اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے، اپنا حق مانگ رہے ہیں بھیک نہیں، سہیل آفریدی
  • سپریم کورٹ نے گھریلو تشدد اور عورت کو نکاح ختم کرنے کے حق سے متعلق اہم فیصلہ جاری کردیا
  • کشتیوں اور میزائلوں کی نقل و حرکت ہمیں مرعوب نہیں کر سکتی، ویزویلا
  • ٹی ایل پی پر ہابندی کا نوٹیفکیشن جاری،کالعدم جماعت قرار
  • میٹرک بورڈ کراچی کی غیر پیشہ ورانہ اور دہائیوں پرانی پالیسیوں نے طلبہ کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا
  • ثانیہ سعید کا ردعمل: “مردوں کی کمائی میں بھی برکت نہیں ہوتی”