پولیس اہلکاروں کے اغواء، زبردستی گھروں میں داخلے، جھوٹے مقدمات بنانے میں ملوث ہونے کی تحقیقات کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
—فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس اہلکاروں کے بظاہر اغواء، زبردستی گھروں میں داخلے، ڈکیتی اور جھوٹے مقدمات بنانے میں ملوث ہونے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
عدالتِ عالیہ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ڈائریکٹر کرائمز ایف آئی اے پولیس اہلکاروں کے اغواء میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دیں۔
عدالت نے ایس ایچ او تھانہ ترنول اور تفتیشی افسر کے طرزِ عمل کی وضاحت کے لیے آئی جی اسلام آباد پولیس 28 اکتوبر کو طلب کر لیا اور ایس پی سی آئی اے کو حکم دیا کہ وہ لاہور سے پنجاب پولیس کے ہاتھوں فیملی کے مبینہ اغواء میں اپنے کنڈکٹ کے حوالے سے وضاحت کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے محمد وقاص کی مقدمے کے اخراج کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر کرائمز ایف آئی اے پولیس اہلکاروں کے اغواء میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دیں، عدالتی فیصلے کی کاپی ڈی جی ایف آئی اے کو بھجوائی جائے تاکہ وہ مناسب احکامات جاری کریں۔
یہ بھی پڑھیے مختلف جرائم میں ملوث سندھ پولیس کے 336 افسران و اہلکاروں پر 291 مقدمات درجعدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ خاتون ثناء سہیل اور اس کے 3 بچوں کے اغواء کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق پنجاب پولیس کی مدد سے 17 ستمبر 2025ء کی صبح خاتون، بچوں اور 4 گاڑیوں کو تحویل میں لے کر بعد میں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔
عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ خاتون کو 20 ستمبر کو درج مقدمے میں رقم، سونے اور اسلحے کی برآمدگی ظاہر کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا۔
عدالتی تحریری حکم نامے کے مطابق مجسٹریٹ ان ماں اور بچوں سے متعلق حساس کیس سن رہے تھے جنہیں مبینہ طور پر پنجاب پولیس کے اہلکاروں نے اغواء کیا، تفتیشی افسر مقدمۂ اندراج سے قبل خاتون کو اغواء کرنے کے واقعے پر کوئی بھی وضاحت دینے میں ناکام رہا، ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ نے بچوں کو چائلڈ کسٹڈی یونٹ اور والدہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوایا، پولیس اور ماتحت عدلیہ کا غیر ذمے دارانہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں خواتین اور بچوں کے بنیادی حقوق کی کوئی فکر نہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ ممبر انسپکشن ٹیم خاتون کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے والے مجسٹریٹ یاسر چوہدری سے بھی وضاحت طلب کریں۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی بیلف نے سی آئی اے سینٹر اسلام آباد میں ان گاڑیوں کی موجودگی کی رپورٹ دی جو لاہور سے تحویل میں لی گئی تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نام ےمیں کہا گیا ہے کہ گاڑیوں کی ٹریکنگ آئی ڈی سے گاڑیوں کی لاہور واقعے سے اسلام آباد میں گاڑیوں کے پارک ہونے تک کا روٹ واضح ہے، گاڑیوں کی ٹریکنگ آئی ڈی سے ایس ایچ او ترنول کے پولیس مقابلے کے دعوے کی بھی نفی ہوتی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ایس پی سی آئی سینٹر اسلام آباد پیش ہو کر رپورٹ دیں کہ گاڑیاں کیسے قبضہ میں لی گئیں، ایس پی سی آئی اے لاہور سے پنجاب پولیس کے ہاتھوں فیملی کے مبینہ اغواء میں اپنے کنڈکٹ کے حوالے سے بھی وضاحت کریں۔
عدالتِ عالیہ میں کیس کی مزید سماعت 28 اکتوبر کو ہو گی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: میں ملوث ہونے کی تحقیقات پولیس اہلکاروں کے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب پولیس اسلام ا باد اغواء میں گاڑیوں کی کے اغواء پولیس کے عدالت نے ا ئی اے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ: عدم پیشی پر دو اعلیٰ سرکاری افسران کے وارنٹ گرفتاری جاری
اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی طلبی کے باوجود مسلسل عدم پیشی پر ڈائریکٹر ایڈمن ایرا و این ڈی ایم اے کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
جسٹس خادم حسین سومرو نے محمد شہباز قیصر کی ایرا کے این ڈی ایم اے میں ضم ہونے کے بعد ایرا ملازمین کی سروس کا معاملے سے متعلق درخواست پر سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ طلبی نوٹس کے باوجود ڈائریکٹر ایڈمن ایرا و این ڈی ایم اے عدالت پیش نہیں ہورہے، ڈی آئی جی پولیس وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرائیں یا ذاتی طور پر پیش ہوکر وجوہات سے آگاہ کریں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ پیش نہ ہونے کا مطلب جان بوجھ کر عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے کے مترادف ہے، عدالت کے پاس قابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا، عدالت ڈائریکٹر ایڈمن ایرا و این ڈی ایم اے کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتی ہے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ڈی آئی جی پولیس اسلام آباد وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرائیں، وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں ڈی آئی جی پولیس ذاتی طور پر عدالت پیش ہوکر وجوہات سے آگاہ کریں۔ کیس کی آئندہ سماعت 28 اکتوبر کیلئے مقرر کی جاتی ہے۔