آزادی کشمیر کی صبح قریب، پاکستان ہر فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑتا رہے گا،انجینئر امیر مقام
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
آزادی کشمیر کی صبح قریب، پاکستان ہر فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑتا رہے گا،انجینئر امیر مقام WhatsAppFacebookTwitter 0 26 October, 2025 سب نیوز
لاہور(آئی پی ایس )وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر، گلگت بلتستان و سیفران انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ 27 اکتوبر کا دن مقبوضہ جموں و کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں یومِ سیاہ کے طور پر منایا جا ئے گا، یہ دن کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے اور جب تک کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں مل جاتا، یہ دن اسی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا رہے گا،کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ضرور کامیاب ہوگی۔وہ اتوار کو یہاں ایوان اقبال میں یومِ سیاہ کے حوالے سے منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اس موقع پر آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما فیض احمد نقشبندی شبیر عثمانی اور دیگر نمائندگان بھی موجود تھے۔انجینئر امیر مقام نے کہا کہ 27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے ناجائز طور پر اپنی افواج کشمیر میں اتار کر قبضہ جمایا۔ کشمیری عوام نے گزشتہ سات دہائیوں سے آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ اب تک 97 ہزار سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں، جن میں 8 ہزار 316 شہادتیں جیلوں اور جعلی مقابلوں میں ہوئیں۔ ایک لاکھ سے زائد مکانات تباہ کیے گئے، 22 ہزار خواتین بیوہ ہوئیں، 1 ہزار 916 بچے یتیم ہوئے جبکہ 11 ہزار 229 خواتین کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ کشمیری رہنما یاسین ملک سمیت متعدد حریت قائدین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں جبکہ مقبوضہ وادی کو نو لاکھ بھارتی فوج نے محاصرے میں لے رکھا ہے، جو اسے ایک بڑی جیل میں تبدیل کر چکی ہے۔امیر مقام نے عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ سے اپیل کی کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ کشمیری عوام کو انصاف اور آزادی مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا غاصبانہ قبضہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا، ظلم کی رات اب ختم ہونے کو ہے اور حق و انصاف کی صبح ضرور طلوع ہوگی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جرات مندانہ انداز میں عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے۔پاکستان کی بہادر افواج نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔معرکہ حق کے بعد بھارت کو پیغام دیا گیا کہ کشمیر کا مسئلہ ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پیر کی صبح 10 بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی جبکہ اسلام آباد، مظفرآباد اور دیگر شہروں میں یکجہتی واکس اور ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ یہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، جس پر پوری قوم متحد ہے۔امیر مقام نے کہا کہ حکومت پاکستان کی وزارتِ امورِ کشمیر کی زیر نگرانی سیمینارز، تقریبات، بینرز اور فلیکسز کے ذریعے دنیا کو کشمیر میں بھارتی مظالم سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مختلف ممالک کے سفیروں اور سفارتی نمائندوں کو بھی اس موقع پر بریفنگ دی جائے گی تاکہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے موثر کردار ادا کرے۔آزاد کشمیر کے سیاسی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ آزاد کشمیر کی حکومت میں تبدیلی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)آزاد کشمیر میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور پیپلز پارٹی کے حکومت بنانے کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی تاکہ ان علاقوں کے عوام بھی قومی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔خیبرپختونخوا کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انجینئر امیر مقام نے کہا کہ وزیراعلی کے پی کے کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ان کی تقریر میں کے پی کے عوام کے مسائل کا ذکر تک نہیں تھا، جو افسوسناک ہے۔کے پی کے پاکستان کا حصہ ہے، اسے وفاقی نظام سے الگ کر کے پیش کرنا ملک کے اتحاد کے لیے نقصان دہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر پاک فوج ہٹ جائے تو ملک کی سلامتی اور اتحاد دو دن بھی برقرار نہیں رہ سکتا ۔امیر مقام نے مزید کہا کہ امورِ کشمیر سے متعلق زمینوں اور املاک کے تحفظ کے لیے بھی جامع اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ کسی بیرونی مداخلت یا غیر قانونی قبضے کو روکا جا سکے۔آخر میں انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ان کی جدوجہد آزادی جلد اپنی منزل کو پہنچے گی ، پاکستان ہر فورم پر کشمیری عوام کا مقدمہ لڑتا رہے گا۔اس موقع پر آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما فیض احمد نقشبندی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 27 اکتوبر وہ دن ہے جب بھارت نے سرینگر میں اپنی فوجیں اتار کر قبضہ کیا، ہم آج بھی اس قبضے کو مسترد کرتے ہیں۔انہوں نے حکومتِ پاکستان، وزیراعظم محمد شہباز شریف اور افواجِ پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کا مقدمہ عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی ٹی آئی آزادکشمیر فارورڈ بلاک کے 5وزرا کا پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان پی ٹی آئی آزادکشمیر فارورڈ بلاک کے 5وزرا کا پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان ایران امریکا کیساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کیلئے تیار ہے، ایرانی وزیرِ خارجہ وزیر ریلوے حنیف عباسی کا تہران استنبول ٹرین سروس 31 دسمبر کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان ڈیرہ غازی خان میں دہشتگردوں کے متعدد ٹھکانے تباہ ، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ملک بھر کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کیلئے ایک لاکھ 40 ہزار امیدوار، ٹیسٹ کا آغاز سوشل میڈیا پر بے بنیاد اور پروپیگنڈا کرنے والا ٹی ایل پی کا رہنما گرفتارCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: امیر مقام نے کہا انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام وفاقی وزیر کہ کشمیر کا مقدمہ کشمیر کی کے لیے کی صبح رہے گا
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، صحافیوں کے لیے خطرناک مقام
ریاض احمدچودھری
صحافیوں کے حقوق اور صحافتی آزادی کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ” رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” (آر ایس ایف )نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ جموںوکشمیر میں صحافی مسلسل دباؤ، دھمکی اور پر خطرماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ جموںو کشمیر اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والے خطوں میں سے ایک ہے ، اگست 2019 کے بعد سے علاقے میں آظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا، مئی 2025 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اس دوران میر گل نامی صحافی کو سوشل میڈیا پوسٹ پوسٹ پر گرفتار کیا گیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوجی کارروائیوں جیسے حساس موضوعات کو کور کرنے والے صحافیوں کو نگرانی، گرفتاریوں اور انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ 2019 کے بعد سے کم از کم 20 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں ”کشمیر والا ”کے ایڈیٹر فہد شاہ بھی شامل ہیں، فہد شاہ کو تقریبا دو برس قید رکھا گیا۔ ایک اور صحافی عرفان معراج کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے” کے تحت 2023 میں گرفتار کیا گیا۔آر ایس ایف کے ساؤتھ ایشیا ڈیسک کی سربراہ Célia Mercier نے کہاجموں و کشمیر میں میڈیا کے پیشہ ور افراد مستقل دھمکیوں کے ماحول میں کام کر رہے ہیں،انہیں شدید پابندیوں اور مسلسل نفسیاتی دباؤ کا سامناہے۔ انہوںنے بھارت پر زور دیا کہ وہ پریس کی آزادی کا احترام کرے۔ پاسپورٹ کی منسوخی، پریس کارڈ کی فراہمی سے انکار اور بھارتی حکام کے دیگر ناروا اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو کو سفری دستاویزات کے باوجود 2022 میں بیرون ملک جانے نہیں دیا گیا۔
2022 میں کشمیر پریس کلب کی بندش نے مقامی رپورٹرز کو پیشہ ورانہ جگہ سے محروم کردیااور انہیں مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔ کشمیر میں انٹرنیٹ کی پابندیاں ایک مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، خدمات کو 2G تک محدود کر دیا گیا۔ فوجی کارروائیوں کے انٹرسروس معطل کر دی جاتی ہے۔آر ایس ایف نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت سے انکار نہ صرف صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ متنازعہ اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں لاکھوں لوگوں کو آزادانہ اور قابل اعتماد معلومات کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے۔
گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران متعدد صحافیوں کی تھانوں میں طلبی، گرفتاری اور مقدموں کی وجہ سے پہلے ہی یہاں کی صحافتی برادری عجیب الجھن کا شکار ہے۔ 5 اگست 2019 سے اب تک کم سے کم ایک درجن صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ کام کے لئے یا تو ہراساں کیا گیا یا جسمانی طور پر حملہ کیا گیا۔ 14 اگست 2019 کو عرفان امین ملک کو پولیس نے ترال میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا اور بغیر کسی وجہ کے حراست میں لیا۔ 31 اگست 2019 کو، گوہر گیلانی، کو دہلی کے ہوائی اڈے پر حکام نے روک لیا اور بیرون ملک پرواز سے روک دیا گیا۔ یکم ستمبر 2019 کو پیرزادہ عاشق کو پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا اور دبائو ڈالا گیا تاکہ وہ اپنی کہانی کے ذرائع کو ظاہر کرے۔ ایک آزاد صحافی مزمل مٹو کو اس وقت پیٹا گیا جب وہ سری نگر کے پرانے شہر میں کاوجا بازار کے علاقے میں مذہبی اجتماع کی کوریج کر رہے تھے۔ 17 دسمبر 2019 کو، پرنٹ کے اذان جاوید اور نیوز کلیک کے انیس زرگر پر پولیس نے اس وقت جسمانی حملہ کیا جب وہ سری نگر میں احتجاج کی کوریج کررہے تھے۔ 30 نومبر 2019 کو، اکنامک ٹائمز کے حکیم عرفان اور انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود کو پولیس نے طلب کیا اور ان کی خبروں کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ 23 دسمبر 2019 کو، ہندواڑہ میں بشارت مسعود اور اسکرول کے صفوت زرگر کو پولیس نے روک لیا، جب وہ ایک اسائنمنٹ پر تھے۔ انہیں ایس پی ہندواڑہ کے دفتر لے جاکر پوچھ گچھ کی گئی۔ 8 فروری 2020 کو ، آوٹ لک کے نصیر گنائی اور ہارون نبی کو پولیس نے طلب کیا اور جے اینڈ کے لبریشن فرنٹ کے جاری کردہ بیان پر رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ 16 فروری 2020 کو ، نیوز کلیک کے کامران یوسف کو ٹویٹر استعمال کرنے کے شبے میں پولیس نے اس کے گھر سے اٹھایا۔ اپریل 2020 کو، ایک مقامی انگریزی روزنامہ ، کشمیر آبزرور کے ساتھ کام کرنے والے صحافی مشتاق احمد کو جموں و کشمیر پولیس نے اس وقت مارا پیٹا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جب وہ شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ پولیس لاک اپ میں اسے دو دن تک حراست میں رکھا گیا۔ 20 اپریل 2020میں جموں و کشمیر پولیس نے مسرت زہرہ اور پیرزادہ عاشق کے بعد معروف ٹی وی پینلسٹ اور صحافی گوہر گیلانی کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ پچھلے سال اے ایف پی کے سینئر فوٹو جرنلسٹ توصیف مصطفی کو سب انسپکٹر عہدے کے ایک پولیس اہلکار نے اس وقت حبس بے جا میں رکھا جب وہ سرینگر ہوائی اڈے پر سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر علیحدگی پسند رہنماوں کی کوریج کررہے تھے۔ حملے کے دوران دیگر صحافیوں – فاروق جاوید اور شعیب مسعودی ، شیخ عمر اور عمران نصار بھی زخمی ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔