میری بات/روہیل اکبر
وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے ہمارے نظام صحت کا پول کھول دیا ہے، ان کاکہنا ہے کہ ملک میں ہیلتھ کیئر نہیں بلکہ سک کیئر سسٹم ہے یہ محض ایک طنزیہ جملہ نہیں بلکہ ہمارے نظامِ صحت کا چہرہ آئینے میں دکھا دیتا ہے۔ یہ وہ اعترافِ جرم ہے جو کسی اپوزیشن لیڈر نے نہیں بلکہ خود حکومتی وزیر نے کیا ہے سوال یہ ہے کہ اگر یہ سک کیئر سسٹم ہے تو اسے بنایا کس نے؟ اور درست کرے گا کون؟ہمارے ہسپتالوں میں علاج کے بجائے اذیت ملتی ہے ڈاکٹر وقت پر نہیں آتے دوائیں نایاب اور سہولتیں خواب بن چکی ہیں ۔بڑے شہروں کے چند ہسپتالوں کو چھوڑ کر پورے ملک میں عوام بنیادی طبی سہولتوں سے محروم ہیں حکمرانوں کے لیے بیرونِ ملک علاج آسان ہے مگر عام آدمی کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں داخلہ بھی مشکل یہی دوہرا معیار ہمارے صحت کے نظام کی بنیادیں ہلا چکا ہے ایک طرف غریب کے بچے ویکسین نہ ملنے سے مر جاتے ہیں دوسری طرف اربوں روپے کی مشینری زنگ کھا رہی ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر صحت کا یہ اعتراف دراصل ایک سوال ہے کہ اگر نظام بیمار ہے تو اسے صحت مند کرنے کا علاج کہاں سے شروع ہوگا؟کیا صرف بیانات سے علاج ممکن ہے؟جب تک ایمانداری، احتساب اور خدمت کا جذبہ صحت کے شعبے میں واپس نہیں آتا تب تک ہر وزیر یہ کہتے رہیں گے کہ یہ ہیلتھ نہیں سک کیئر سسٹم ہے اور عوام یہ سوچتے رہیں گے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟
یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہمارے پورے نظامِ صحت کی بدنما تصویر صاف دکھائی دیتی ہے ہمارے ہسپتالوں میں علاج کے بجائے اذیت ملتی ہے غریب مریض بستر سے زیادہ فرش پر لیٹے نظر آتے ہیں دوائیں غائب ہیں، عملہ لاپرواہ اور انتظامیہ بے حس جہاں ڈاکٹر مسیحا بننے کے بجائے وقت گزارنے پر مجبور ہیں وہاں عوام کے لیے علاج ایک خواب بن چکا ہے وفاقی وزیر صحت خود کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا آبادی والا ملک بننے جا رہا ہے مگر کیا ہم نے ہسپتال، ڈاکٹر، نرسز اور ادویات اسی رفتار سے بڑھائی ہیں؟تو اسکا جواب ہے نہیں! مزید المیہ یہ ہے کہ انہی وزیر صحت کے بقول کراچی سے گلگت تک سیوریج کا پانی استعمال ہو رہا ہے سوچنے کی بات ہے کہ جب پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں تو بیماریوں کے علاج کا کیا حال ہوگا؟آلودہ پانی ہیپاٹائٹس، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور درجنوں بیماریوں کو جنم دے رہا ہے اور ہمارے ہسپتال ان ہی بیماریوں سے بھرے پڑے ہیں یہ کیسا نظام ہے جہاں آبادی اور بیماریاں رکنے کا نام نہیں لے رہی اگر دیکھا جائے تو وفاقی وزیر کا اعتراف دراصل سوال ہے اگر نظام بیمار ہے تو علاج کہاں سے شروع ہوگا؟کیا بیانات سے دوائی بنے گی؟ پاکستان میں صحت کا شعبہ ہمیشہ سے ایک دردناک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہو چکے ہیں مگر علاج معالجے کی سہولتیں اب بھی پچھلی صدی کے معیار پر کھڑی ہیں صحت کے حوالہ سے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سرکاری و نجی ہسپتالوں کی تعداد تقریباً 13 سو سے زائد ہے جن میں بڑے تدریسی اسپتال، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز، تحصیل ہیڈکوارٹرز اور دیہی مراکز صحت شامل ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہسپتال24 کروڑ آبادی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں؟ افسوس کہ جواب نفی میں ہے دیہی علاقوں میں اکثر مراکز صحت بند پڑے ہیں وہاں ڈاکٹر تو درکنار، بنیادی دوائیاں بھی دستیاب نہیں شہری علاقوں میں صورتحال قدرے بہتر ہے لیکن وہاں بھی مریضوں کا رش، بستر کی کمی، پرانے آلات اور نااہلی کا رونا ہر روز سننے کو ملتا ہے بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں داخلے کے لیے سفارش، ٹوکن اور کبھی کبھار خوش قسمتی درکار ہوتی ہے گنگا رام، میو، پمز، جناح اور سول جیسے ہسپتال انسانیت کی آخری امید ضرور ہیں مگر ان کی حالت کسی جنگ زدہ ملک کے شفاخانوں سے مختلف نہیں دوسری طرف نجی ہسپتالوں نے علاج کو کاروبار بنا لیا ہے، فیسوں کے ایسے نرخ مقرر ہیں جو ایک عام شہری کی دسترس سے باہر ہیں آپریشن، سی سیکشن، یا ڈینگی کا علاج غریب آدمی کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ علاج اب صرف ان کا حق رہ گیا ہے جن کے پاس دولت ہے باقی عوام کے لیے دعا ہی واحد سہارا ہے حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات کوئی نہ لا سکا ۔اگر ہم اپنے بجٹ کا صرف دو فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد بھی صحت کے شعبے کو دے دیں تو بہتری ممکن ہے۔ دیہی مراکز صحت کو فعال بنانا ڈاکٹروں کو وہاں تعینات رکھنا اور ہر ضلع میں جدید تشخیصی مراکز قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔پاکستان کے عوام ٹیکس دیتے ہیں امید رکھتے ہیں کہ انہیں علاج کے وقت ذلت نہ اٹھانی پڑے مگر بدقسمتی سے آج بھی سڑک کنارے، بینچ پر یاہسپتال کے فرش پر دم توڑنے والے مریض ہمارے نظامِ صحت کے منہ پر تمانچہ ہیں ۔اس لیے حکمران ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی بچانے والے منصوبوں پر بھی توجہ دیں یونکہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے شہری صحت مند نہ ہوں۔ اوپر گنگا رام ہسپتال کا ذکر آیا ہے تو اس حوالہ سے عرض ہے کہ لاہور میںگنگا رام ہسپتال اپنی تاریخی اہمیت اور عوامی خدمت کی بدولت ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے، برسوں سے یہ ہسپتال غریب اور نادار مریضوں کے علاج کے لیے امید کی کرن سمجھا جاتا رہا ہے مگر آج اس عظیم ادارے کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہوتا ہے گنگا رام ہسپتال جو وزیرِ صحت اور سیکریٹری صحت کے دفاتر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے ۔صفائی ستھرائی کے معاملے میں شدید غفلت کا شکار ہے ہسپتال کے اردگرد اور اندرگندگی کے ڈھیر ، تعفن زدہ فضا اور کچرے سے اٹے راستے انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ حیرت ہے کہ جہاں سے روز وزیر، سیکریٹری اور دیگر اعلیٰ افسران گزرتے ہیں، وہاں یہ منظر ہے تو باقی صوبے کا کیا حال ہوگا ؟یہ صرف صفائی کا مسئلہ نہیں بلکہ غفلت اور عدم احساسِ ذمہ داری کی داستان ہے مریض علاج کی امید میں آتے ہیں مگر گندگی، مکھیاں اور بدبو ان کے دکھوں میں اضافہ کر دیتی ہیں ۔کیا صحت کے ذمہ داروں کو معلوم نہیں کہ ہسپتال میں صفائی ہی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کی پہلی شرط ہوتی ہے؟
افسوس کا مقام یہ ہے کہ صفائی مہموں کے بڑے بڑے نعرے لگانے والے ادارے عملی میدان میں کہیں دکھائی نہیں دیتے حالانکہ ایک صاف ستھرا ہسپتال نہ صرف مریضوں کی صحت بہتر کرتا ہے بلکہ حکومت کی نیک نامی کا باعث بھی بنتا ہے اگر گنگا رام جیسا ادارہ بھی گندگی کے ڈھیر تلے دب جائے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نظامِ صحت صرف کاغذوں پر زندہ ہے سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے ہسپتال صرف عمارتیں رہیں گے یا شفا خانے بھی بن پائیں گے اگر واقعی ہیلتھ کیئر سسٹم قائم کرنا ہے تو سب سے پہلے عوام کو پینے کا صاف پانی، دیانت دار انتظامیہ اور عملی اصلاحات دینا ہوں گی ورنہ آنے والے سالوں میں تاریخ یہی لکھے گی کہ پاکستان میں ہیلتھ کیئر نہیں سک کیئر سسٹم تھا اور قوم خاموش تماشائی تھی!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ہسپتالوں میں ہمارے ہسپتال سک کیئر سسٹم وفاقی وزیر نہیں بلکہ گنگا رام یہ ہے کہ ہیں مگر علاج کے صحت کے کے لیے صحت کا رہا ہے
پڑھیں:
نیا بلدیاتی قانون خوش آئند… نظام کے تسلسل کیلئے آئینی تحفظ دینا ہوگا!!
پنجاب حکومت نے حال ہی میں نیا بلدیاتی ایکٹ منظور کیا ہے جسے ماہرین خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
اس بل کا تفصیلی جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیما اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سمیع اللہ خان
(چیئرمین استحقاق کمیٹی و رکن سٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل باڈیز، پنجاب اسمبلی)
دنیا بھر میں لوکل گورنمنٹ سے گڈ گورننس ہوئی اور بہتر نتائج ملے ہیں، ہمیں بھی ان کے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں تیسرے درجے کی حکومت قائم نہیں ہوسکی لہٰذا بلدیاتی نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے اسے آئینی تحفظ دینا ہوگا۔
اس حوالے سے کام بھی ہو رہا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے دورمیں 2016ء میں قائم ہونے والی بلدیاتی حکومتوں کو اقتدار میں آتے ساتھ ہی ختم کر دیا۔تحریک انصاف نے جمہوری نظام کے ساتھ اچھا نہیں کیا اور پھر بلدیاتی انتخابات نہ کروا کر مزید برا کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف بلدیاتی ایکٹ بنایا ہے بلکہ اب ہم بلدیاتی انتخابات کی طرف بھی جا رہے ہیں۔ حلقہ بندیوں سمیت دیگر مراحل مکمل ہونے کے بعد آئندہ برس مارچ کے آخر یا اپریل کے آغاز میں الیکشن ہوں گے، امید ہے کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
نئے بلدیاتی ایکٹ کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ لوگوں کو درست معلومات نہیں ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مجھے اس ایکٹ میں غیر جماعتی انتخابات کا لفظ کہیں نظر نہیں آیا۔ اس ایکٹ میں تو جماعتوں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے۔ 9 امیدواروں کا پینل نہیں ہوگا، ہر کوئی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ سکتا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد نمائندے کسی بھی پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ نئے ایکٹ میں ڈسٹرکٹ کونسل کو ختم اور تحصیل کونسل کومضبوط کیا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ ٹاؤن و میونسپل کارپوریشن بھی بنا رہے ہیں۔ لاہور کے 10 ٹاؤنز بنیں گے اور ہر ٹاؤن کا ایک میئر اور دو ڈپٹی میئر ہوں گے۔
صوبے میں قائم اتھارٹیز اپنا کام کر رہی ہیں، مقامی حکومتوں کے نظام میں تمام اتھارٹیز کا ایک فورم ہوگا جس کا سربراہ سب سے بڑی تحصیل کاچیئرمین ہوگا، اس طرح بہتر کووارڈی نیشن سے عوامی مسائل حل کیے جائیں گے۔ نئے ایکٹ میں اگر کوئی خامی ہے تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
اس وقت ضروی یہ ہے نظام کو آگے بڑھنے دیں، جب 60 ہزار سے زائد نمائندے منتخب ہو کر آئیں گے تو وہ اپنے مسائل خود ہی حل کرلیں گے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہیں،و ہ چاہتی ہیں کہ مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام قائم ہو، یقین ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ انتخابات کے بعد لوکل گورنمنٹ فنانس کمیشن بھی قائم کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت ہمیشہ سے کارکردگی میں آگے رہی ہے اور یہاں سب سے زیادہ کام کیا گیا ہے۔ پنجاب کی گورننس کا مقابلہ کسی بھی ملک بلکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے بھی کیا جاسکتا ہے، ہماری کارکردگی اس سے بہتر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی
(ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سینٹر، جامعہ پنجاب)
باقی صوبوں کی نسبت پنجاب مقامی حکومتوں کے حوالے سے بدقسمت صوبہ ہے۔ اب بھی یہاں ایک طویل عرصے کے بعد بلدیاتی انتخابات ہوں گے اور نظام قائم ہوگا۔ آخری مرتبہ 2015ء میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں بننے والا بلدیاتی نظام مسائل کا شکار رہا اور نظام کا تسلسل بھی قائم نہ ہوسکا۔ بعدازاں 2019ء میں بلدیاتی ایکٹ بنا لیکن انتخابات نہ ہوئے۔ پھر 2022ء میں ایکٹ بنا مگر انتخابات نہیں ہوئے۔ اتنے برسوں میں لوگوں کے مسائل بڑھتے گئے۔ سموگ کا مسئلہ ہے۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن کا مسئلہ ہے۔
صفائی ستھرائی کے حوالے سے جو کام ہونا چاہیے تھا وہ درست انداز میں نہیں ہوا۔ ملک میں تیسرے درجے کی حکومت ہی موجود نہیں تھی تو لوگوں کے بنیادی مسائل کس طرح حل ہوتے۔ قومی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی حکومتوں کو اپنا بازو سمجھیں اور انہیں قائم کریں۔ میرے نزدیک بلدیاتی ایکٹ کا بننا خوش آئند ہے۔ مقامی حکومتیں سیاسی جماعتوں کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہاں سے قیادت ابھرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نام تو لوکل گورنمنٹ کا دیتے ہیں لیکن سلوک لوکل باڈیز والا کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ درست نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ مقامی حکومتوں کو آئین کے مطابق مالی اور انتظامی اختیارات نہیں دیے جاتے۔
نئے ایکٹ میں ضلعی حکومت ختم کر دی گئی ہے۔ اب نئے بلدیاتی ایکٹ کے مطابق ضلعی حکومتیں نہیں ہوں گی۔ دیہاتوں میں تحصیل کونسل اور شہروں میں میونسپل کارپوریشن ہوگی۔ایسا لگتا ہے کہ معاملات بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوں گے۔ تحصیل یا میونسپل کمیٹی کا چیئرمین ہوگا جس کیلئے ڈسٹرکٹ آفیسر سے رابطہ مشکل ہوگا۔ خدشہ ہے کہ اس نظام میں سرورس ڈیلوری کا مسئلہ آئے گا۔جب تک مقامی حکومتوں کو اختیارات نہیں دیے جائیں گے تب تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس نظام کوصحیح معنوں میں فائدہ ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات براہ راست ہونے چاہئیں، جو نمائندے براہ راست الیکشن لڑ کے آتے ہیں ان میں خود اعتمادی ہوتی ہے اور ان کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے۔
پروفیسر ارشد مرزا
(نمائندہ سول سوسائٹی)
بلدیاتی ادارے سیاسی قیادت کے پروان چڑھنے کی ہیچری ہیں۔ 1979ء کے انتخابات کے بعد جو نمائندے لوکل گورنمنٹ میں آئے وہ ملکی سطح پر سیاست میں آگے گئے۔ بلدیاتی حکومت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے نمائندوں کو بنیادی سطح پر مسائل حل کرنے اور معاملات بہتر کرنے کی مہارت حاصل ہوتی ہے جو آگے چل کے ان کے کام آتی ہے۔ مہذب دنیا میں جہاں بھی بلدیاتی نظام موجود ہے وہاں پر معاملات اچھے انداز میں چلتے ہیں اور عوام کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا حلقہ بڑا ہوتا ہے۔
اس میں کئی شہری و دیہی علاقے شامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام لوگوں کی اپنے نمائندے تک دسترس ہو۔ ایسے میں لوکل گورنمنٹ کے نمائندے عوام کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت اپنے علاقے میں ہوتے ہیں اور لوگوں کے مسائل فوری حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یہ خوش آئند ہے کہ پنجاب میں نیا بلدیاتی ایکٹ منظور ہوچکا ہے، گورنر پنجاب کے دستخط کے بعد اب یہ باقاعدہ قانون بن گیا ہے لہٰذا اب ہمیں آگے کا سوچنا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں بہت ساری مفید تجاویز جو اس بل کی مشاورت کے دوران دی گئیں تھیں وہ شامل نہیں کی گئیں تاہم اب چونکہ قانون بن گیا ہے تو اس میں اگر مگر کی گنجائش نکالنے کے بجائے بلدیاتی انتخابات کروا کر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا جائے۔
اس وقت سب سے ضروری نظام کا قائم ہونا ہے، تسلسل بنے تو مسائل خود بخود حل ہوتے جائیں گے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ملک میں جینڈر گیپ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ایک کروڑ 30 لاکھ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ اب چونکہ پنجاب بلدیاتی انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے تو یہاں انتخابات سے پہلے ہنگامی بنیادوں پر خواتین کے شناختی کارڈ بناکر ووٹر لسٹوں میں ان کا درست اندراج کیا جائے۔
آئین پاکستان کے مطابق خواتین کو ان کے ووٹ کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا، اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا فوری طور پر کریش پروگرام کا آغاز کریں ۔ ووٹر ٹرن آؤٹ کی بات کریں تو خواتین کی شرح 42 فیصد کے قریب ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں یہ شرح زیادہ ہونی چاہیے،ا س میں اضافے کیلئے کام کرنا ہوگا، خواتین ووٹرز کے مسائل دور کرنا ہوگے، انتخابی عمل میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ نئے بلدیاتی ایکٹ میں خواتین کیلئے صرف ایک نشست مختص کی گئی ہے جو کم ہے۔
ہمیں تمام طبقات کی بھرپور شمولیت یقینی بنانا ہوگی۔ ہمارے ہاں ووٹرز کا رویہ بھی جمہوری نہیں ہے۔ یہاں لوگ ذاتی مفاد، ملازمت، ذات پات، برادری یا کسی اور تعلق کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ نمائندے کی اہلیت کیا ہے، کیا وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ الیکشن سے پہلے سول سوسائٹی، این جی اوز، حکومت سمیت سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ووٹرز کی تربیت کریں تاکہ وہ ایسے نمائندے منتخب کریں جن میں کام کرنے کی صلاحیت اور جذبہ ہو اور وہ صحیح معنوں میں ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد نمائندوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے نمائندے بلدیاتی قانون کو پڑھیں گے اور کتنے نمائندوں میں یہ صلاحیت ہوگی کہ اپنا فرض پوری طرح سے ادا کر سکیں گے؟ ان میں سے تو بیشتر پہلی مرتبہ منتخب ہو کر آئیں گے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام بلدیاتی نمائندوں کی لازمی تربیت کروائی جائے تاکہ گڈ گورننس کو فروغ دیا جاسکے۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار)
بدقسمتی سے بلدیاتی حکومتوں کا نظام ہماری صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو تو اختیار منتقل ہوگئے لیکن صوبے اضلاع اور تحصیلوں کو اختیارات دینے کیلئے تیار نہیں ہیں بلکہ اتھارٹیاں اور کمپنیاں بنا کر ایک متبادل نظام کھڑا کر دیا گیا ہے۔
واٹراینڈ سینی ٹیشن، صاف ماحول، صفائی ستھرائی، ناجائز تجاوزات کا خاتمہ جیسے مسائل تو مقامی حکومتوں کے حل کرنے کے ہیںلیکن ان کے لیے تو الگ ادارے قائم کر دیے گئے ہیں، سوال یہ ہے کہ اب بلدیاتی نمائندے کیا کریں گے؟ میرے نزدیک یہ سب اتھارٹیاں اور کمپنیاں ان کے تابع ہونی چاہئیں۔ لاہور ہائی کورٹ کا 2013ء کا فیصلہ موجود ہے جس کے مطابق بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ نئے بلدیاتی ایکٹ میں نظام غیر جماعتی انتخابات کی بات کی گئی ہے۔
انتخابات کے بعد جیتنے والے آزاد امیدوار کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکیں گے۔ میثاق جمہوریت میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ طے کیا تھا کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے لہٰذا نئے بلدیاتی ایکٹ کے تحت غیر جماعتی انتخابات لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور میثاق جمہوریت دونوں کے منافی ہے۔ چیئرمین، نائب چیئرمین وغیرہ کے الیکشن براہ راست ہونے چاہئیں اور اختیارات بیورو کریسی کے بجائے عوامی نمائندوں کے پاس ہونے چاہئیں۔ اس وقت تعلیم، صحت، صفائی جیسے معاملات ڈپٹی کمشنرز چلا رہے ہیں۔ اضلاع کی سطح پر بھی ڈویلپمنٹ اتھارٹیاں قائم ہیں۔
نئے بلدیاتی ایکٹ میں ڈسٹرکٹ کونسل ختم، تحصیل اور میونسپل کارپوریشنز بنا ئی جا رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ صوبے سے بیٹھ کر معاملات چلانے کی کوشش کی جائے گی۔اگر نظام ایسے ہی چلانا ہے تو پھر بلدیاتی نظام کیسے فعال ہوگا؟ بلدیاتی نمائندے انتخابات میں پینل سسٹم کے تحت حصہ لیں گے۔ 9 امیدواروں کا ایک پینل ہوگا اور ایک ہی ووٹ کے ذریعے پورے پینل کا انتخاب ہوگا۔ وزیراعلیٰ کا کام لاہور سے پورا صوبہ چلانا نہیں ہے۔
میگا سٹیز کی ترقی تیزی سے ہو رہی ہے، دور دراز وعلاقوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سیلاب آیا تو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے سیلاب زدہ علاقوں میں گئے۔ این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور ڈی ڈی ایم اے موجود ہیں، ڈپٹی کمشنرزسیلاب کے دوران معاملات چلا رہے تھے۔ موثر جمہوری نظام کیلئے ضروری ہے کہ تیسرے درجے کی حکومت قائم کی جائے۔ بلدیاتی نظام کو آئین کے مطابق مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات دیے جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نیا بلدیاتی ایکٹ عوامی نمائندوں کا نہیں بیوروکریسی کا ہے، اسے بہت زیادہ اختیارات دیے جا رہے ہیں۔
نئے بلدیاتی ایکٹ میں خواتین کی نمائندگی کم کردی گئی، اب دو کے بجائے ان کیلئے صرف ایک نشست مختص کی گئی ہے۔سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دور میں 2010ء کے بلدیاتی ایکٹ میں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد کی گئی تھی، موجودہ ایکٹ تو خود مسلم لیگ (ن) کی اپنی پالیسی کے منافی ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کے بلدیاتی نظام میں خواتین آگے آئیں۔ وہ بلدیاتی نظام قدرے بہتر تھا لیکن اس سے لے کر آج تک یہاں بلدیاتی نظام کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔ ہر نئی آنے والے حکومت نے سب سے پہلے بلدیاتی نظام کو لپیٹا اور یہاں سب نے نئے نئے تجربات کیے ہیں۔ ہر مرتبہ قانون بھی بدل جاتا ہے اور نئی حلقہ بندیاں بھی ہوتی ہیں۔
اس سب کے باوجود بھی بلدیاتی نظام کا تسلسل قائم نہیں ہوتا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ اسے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی منسلک کیا جائے اور ایک ساتھ ہی الیکشن کروا لیے جائیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر عام انتخابات کے نتیجے میں آنے والے حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ 120 دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کروائے۔ اس کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے، سیاسی جماعتوں کو اس پر کام کرنا ہوگا۔
Tagsپاکستان