موسموں کی شدت کیسے ہماری زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
کائنات بہت وسیع ہے، اس میں تنوع کا حسین امتزاج ہے اس میں مزید دلکشی پیدا کرتا ہے۔چٹانیں، پہاڑ، دریا، سمندر، ندی نالے، میدان ، ریگستان، جنگل یہ سب ماحول کو زندگی بخشتے ہیں۔پاکستان جنوبی ایشیاء میں واقع ہے۔ یہاں ایک بہترین لینڈ سکیپ ہے۔ اس کا جغرافیائی محل وقوع اسے ایشیاء اور وسطی ایشیاء کو جوڑنے والا ملک بناتاہے۔ یہ میدانی، نیم میدانی اور پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔
یہاں کی زمین کو قدرت نے متنوع ماحول اور آب و ہوا سے نوازا ہے۔ گرمی ،سردی، بہار اور خزاں جیسے خوبصورت موسموں کا امتراج یہاںکے باسیوں کو بارہ ماہ میں قدرت کو مختلف انداز میں محسوس کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں موسموں کی شدت سے متعلق تبدیلیاں رونماہو رہی ہیں جو کے انسانی زندگیوںکو بڑے پیمانے پر متاثر کررہی ہیں۔ماہرین موسمیات انھیں کلائمیٹ چینج کا نام دیتے ہیں۔
کلائمیٹ چینج کیا ہے؟
یوں تو عام طور پہ اس کو موسمیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے مگر ناسا کے مطابق یہ موسم کے بنیادی چلن میں وقوع پذیر ہونے والی ایسی تبدیلیاں ہیں جو دیر پا ہوں اور جس سے زمینی ، علاقائی اور عالمی آب وہوا میں بدلاؤ کا باعث بنیں۔
عالمی موسم یا گلوبل کلائمیٹ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا طویل مدتی موسم پر منبی نظام جو کسی بھی خطے کی خصوصیات واضح کرتا ہوجیسا کہ درجہ حرارت، نمی، بارش، ہوا اور دیگر موسمی عوامل وغیرہ جو سالوں اور صدیوں پہ محیط ہو۔ ہم کہہ سکتے ہیںکہ کلائمیٹ چینج
کلاؤڈ برسٹ کیا ہوتا ہے؟
وقت کے ساتھ ہونے والی موسمیاتی تبدیلوں نے کلاؤڈبرسٹ کے کیسسز میں اضافہ کیا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ دراصل بادل کے پھٹنے کو کہتے ہیں۔جس میں چند منٹوں کے اندر بادل پھٹتا ہے اور آسمان سے آبشار کی مانند بارش کا پانی یک مشت زمین پہ آگرتا ہے۔ یہ پانی اپنی شدت اور حجم کے حساب سے خطرناک سیلابوں اور لینڈ سلائڈنگ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
یہ خصوصاً پہاڑی علاقوں میں مون سون کے موسم میں ہوتا ہے کیونکہ اس وقت ہوا میں نمی کی مقدار بڑھ چکی ہوتی ہے۔گرم ہوا پانی کو اسفنج کی طرح بادل میں بھر دیتی ہے، اضافی نمی کے نتیجے میں شدید بارش اور اچانک بادل پھٹنے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے خصوصاً جب وہ ہوا پہاڑوں سے ٹکراتی ہے۔ماہرین موسمیات کے نزدیک گرم سمندر مون سون میںاضافی نمی کا باعث بنتے ہیں اور جب نم ہوا پہاڑی ڈھلوانوں پر جا ٹکراتی ہے تو تیز بارش ہوتی ہے۔
کیا پاکستان موسمیاتی تبدیلیوںکا ذمہ دار ہے؟
پاکستان اس وقت دنیا میں کلائمیٹ چینج سے شدید متاثرہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہاں پرتباہ کن سیلاب، شدیدگرمی کی لہروں اور خشک سالی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ گلیشئر پگھلنے اور موسموں کے تغیر جیسے واقعات لاکھوں افراد کی سلامتی کے ساتھ پانی اور خوراک کے کمیابی کا باعث بن سکتے ہیں ۔
یورپی یونین کے اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں کرہ ارض کو گرم کرنے والی گیسوں کو صرف ایک فیصد خارج کرنے کا ذمہ دار ہے ۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کرہ ارض کو سب سے کم نقصان پہنچانے والا یہ ملک گلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس کے مطابق موسمیاتی بحران کا سب سے بڑا شکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں پہلے ہی خطے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
موسموں کی شدت اور وقت میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں موسم گرما طویل جبکہ موسم سرما مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ بارشیں یا تو ہوتی نہیں اور جب ہوتی ہیں تو سیلابی صورت حال کا سبب بن جاتی ہیں۔ ۔یہاں تک کے اب تو مون سون خود موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر ہے۔پاکستان میں سن 2022میں سب سے تباہ کن مون سون کے اثرات دیکھنے کو ملے جب بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب سے تقربیاً 2000افرد ہلاک جبکہ ہزاروں افراد بے گھر ہوئے اور محتاط اندازے کے مطابق چالیس بلین ڈالرکا مجموعی نقصان ہوا۔
جنوبی ایشیائی خطے کی بات کی جائے تو یہاں بالخصوص پاکستان اور بھارت میں مون سون کا موسم جون سے ستمبر کے مہینے میں آتا ہے اور عموماً یہی موسم بہت سے خورونوش اشیاء کی فصلوں کی کاشت کا موسم ہوتا ہے۔بارانی علاقوں میں بسنے والے کاشت کاروں کے لئے رحمت بن کر آنے والا موسم گزشتہ تین برس سے زخمت بن رہا ہے جہاں ریکارڈ تور بادل پھٹنے کے اور طوفانی بارشوں کے واقعات نا صرف فصلوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں بلکہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
بارشوں کے سبب آنے والے سیلابوں نے غریب کسانوںکی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ، تقریباً ایک ہزار افراد کی جان گئی اور تقریباً پچیس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔سینکٹروں میل سڑکیں اور بند ، درجنوں پلوں کے ساتھ سندھ، خیبر پختونخواء اور پنجاب کے بڑے آبپاشی والے علاقے تک بہہ گئے۔ تقریباً چار ہزار گاؤں اور دیہات زیر آب آگئے جس سے لوگ بے سروسمانی کا شکار ہوئے۔2025کے عالمی شماریات کے مطابق پاکستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی آبادی ہے اور اس کا مطلب ہے کے اتنی بڑی آبادی کو کسی دوسرے کے مقابلے میں اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرات لاحق ہیں ۔ پاکستان کے 96.
ان علاقوں میں گھر اکثر دریا کے کناروں، نکاسی آب کے طاسوں اور خشک دریا کے کنارے پر بنائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے سیلاب کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ بستیاں اکثرکیچڑاور چاول کی بھوسی سے بنائی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے وہ انتہائی کمزور ہو جاتے ہیں۔خاص طور پر شہری مراکز میں بلڈنگ کوڈز، جنگلات کی کٹائی، اور فلڈ زون میں عمارتوں کا کمزور نفاذ نقصان کے پیمانے کو بڑھاتا ہے۔ سیلابوں کو روکنے کے قدرتی طریقوں کے ناقص ہونے کی بڑی وجہ جنگلات کا کٹاؤ اور زرخیر زمینوں کو کمرشل ایریز میں بدل دینا بھی ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے نبٹنے کے لئے اقدامات کر رہا ہے جس میں جنگلات کی کٹائی کو روکنا، شجر کاری ، قابل تجدید توانائی اور حفاظی اقدامات شامل ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے جس کا کام عالمی سطح پر سمندری اور ماحولیاتی تغیر و تبدل کو ٹریک کرنے سے لے کر مقامی خطرات اور ان کے ممکنہ اثرات کا اندازہ لگانا اور آگاہ رکھنا ہے ۔ قدرتی یا انسانی ساختہ کسی بھی آفت کی صورت میں موثر حکمت عملی تیار کرنا اورتمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔
پیش گوئیاں کیا کہتی ہیں؟
ماہرین موسمیات کے مطابق رواں برس پاکستان دہائیوں بعد سرد ترین موسم کا سامنا کرے گا۔ اقوام متحدہ اور انٹرسیکٹر کوآرڈینیشن گروپ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخواء، گلگت بلتستان اور شمالی پنجاب میں درجہ حرارت معمول سے کئی ڈگری کم رہنے کا امکان ہے۔ جنوبی پنجاب میں ہلکی اور معمولی بارشیں متواقع ہیں۔ ماہرین نے لانینا کے باعث غیر معمولی درجہ حرارت میں کمی کی پیش گوئی کی ہے ۔
لانینا اس وقت بنتی ہے جب بحرالکاہل کے پانی کا درجہ حرارت معمول سے کم ہوجاتا ہے۔موسمیاتی تدیلیوں کی پیشن گوئیوںمیں مسلسل گلوبل وارمنگ شامل ہے جس میں سالانہ درجہ حرارت کے 2025سے 2029کے درمیان 1.5 Cسے بڑھ جانے کا امکان ہے۔جس کے نتیجے میں موسموں کی شدید ، سطح سمندرمی اضافہ زراؑعت کو درپیش خطرات اور ماحولیاتی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔ کچھ انداروں کے مطابق سمندر کی سطح 2050تک 10سے12 انچ تک بڑھ سکتی ہے اور کچھ علاقوں میں فصل کی پیداوار میںکمی واقع ہوسکتی ہے۔ جس سے موسمیاتی خطرات اور معاشروں، معیشتوں اور پائیدار ترقی پر اثرات بڑھیں گے۔
رپورٹ میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ 2025 اور 2029 کے درمیان ہر سال کے لیے سالانہ اوسط عالمی اوسط قریب سطح کا درجہ حرارت 1.2 ° C اور 1.9 ° C کے درمیان 1850-1900 کے اوسط سے زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس بات کا 80% امکان ہے کہ 2025 اور 2029 کے درمیان کم از کم ایک سال ریکارڈ کے گرم ترین سال (فی الحال 2024) سے زیادہ گرم ہوگا۔ اور اس بات کا 86% امکان ہے کہ کم از کم ایک سال صنعتی سے پہلے کی سطح سے 1.5°C سے زیادہ ہو۔ یہ تمام باتیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کے کلائمیٹ چینج کو لے کر پاکستان کا مستقبل کوئی خوشی کی نوید سناتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس لئے ضروری ہے کے ہم ماحول کو بہتر بنانے کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنا کردار ادا کریں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلیوں کلائمیٹ چینج علاقوں میں موسموں کی کے درمیان کے مطابق امکان ہے کے ساتھ نے والے کا باعث ہوتا ہے کے لئے ہے اور
پڑھیں:
’’سلام کسان کے ذریعے جدید زراعت اور غذائی تحفظ کی جانب قدم‘‘
تحریر: محمد شیراز خان
پاکستان کا زرعی شعبہ، جو قومی استحکام، معاشی کارکردگی اور دیہی معیشت کی بنیاد ہے، تیزی سے بڑھتے موسمیاتی تبدیلی کے باعث نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
پہلے ہی ساختی مسائل سے بوجھ تلے دبا ہوا غذائی نظام اب غیر متوقع موسمی حالات سے دوچار ہے جو یہ طے کر رہے ہیں کہ ملک میں کیا اگایا جا سکتا ہے، کہاں اگایا جا سکتا ہے اور کس قیمت پر۔
سال 2022 اور پھر 2025 کے سیلاب نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی موسمیاتی کمزوری اور غذائی تحفظ پر اس کے سنگین اثرات کو نمایاں کر دیا ہے۔
سال 2025 کے سیلاب نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ موسمیاتی آفات اب کبھی کبھار رونما ہونے والے حادثات نہیں رہے۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق جنوبی اور وسطی زرعی علاقے شدید متاثر ہوئے، جن میں گندم، چاول، چارہ اور کپاس کی فصلیں نمایاں طور پر تباہ ہوئیں۔ مسلسل آفات نے نہ صرف مقامی کاشتکاری کے وسائل کو بے بس کر دیا بلکہ اس شعبے کی کمزور بنیادوں کو بھی بے نقاب کر دیا، جو 23.5 فیصد جی ڈی پی اور 37 فیصد سے زائد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
ان موسمیاتی تباہ کاریوں کے تسلسل نے فصلوں کی جغرافیائی حدود تک بدلنا شروع کر دی ہیں۔ وہ علاقے جو کبھی مخصوص فصلوں کے لیے موزوں تھے اب غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں، جس کی وجہ بے ترتیب بارشیں، طویل گرمی کی لہریں اور تیزی سے خراب ہوتی ہوئی مٹی کی کوالٹی ہے۔
فلوڈ ڈیمیج اسسمنٹ(Flood Damage Assesment) رپورٹ 2025 کے مطابق زرعی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، جسے 430 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔
ملک میں 34 لاکھ کپاس کی گانٹھیں، 10 لاکھ ٹن چاول، 33 لاکھ ٹن گنا اور پنجاب میںخریف کی 13 لاکھ ایکڑ اراضی سیلاب کی نذر ہوئی۔ بہاولنگر میں کپاس کی 80 فیصد فصل تباہ ہوئی جبکہ خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں میں ہزاروں ایکڑ زیرِ کاشت زمین بہہ گئی۔
ملک کی 82 لاکھ کاشتکار خاندانوں کے لیے جن میں 90 فیصد چھوٹے کسان ہیںایسی تباہی کسی سانحے سے کم نہیں۔ ایک ہی فصل کا تباہ ہو جانا نہ صرف گھریلو آمدن ختم کر دیتا ہے بلکہ یہ ان کی اگلی فصل کے لیے سرمایہ کاری، زرعی ادویات اور بیج خریدنے کی صلاحیت کو بھی شدید متاثر کرتا ہے، جس سے نہ صرف ان کا روزگار بلکہ ملک کے غذائی ذخائر بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔
پاکستان کے زرعی نقشے میں تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بڑھتے درجہ حرارت کے باعث گندم اور مکئی کی کاشت شمال کی طرف منتقل ہو رہی ہے، جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں کپاس کی بیلٹ سکڑ رہی ہے اور وہ علاقے جہاں چاول کی بھرپور پیداوار ہوتی تھی اب غیر یقینی مون سون کے باعث شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف پرانے ذخیرہ اور سپلائی چین سسٹم فصل بچ جانے کے باوجود بھی بعد از برداشت نقصانات میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ تمام مسائل مل کر غذائی عدم تحفظ کو بڑھا رہے ہیں، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ پیدا کر رہے ہیں اور شہروں و دیہات میں سستی غذائی اجناس کی دستیابی کم کر رہے ہیں۔
اسی تناظر میں نجی شعبے کے چند اداروں نے بہت پہلے خطرے کی گھنٹی کو محسوس کیا اور عملی اقدامات شروع کیے۔ ان میں فاطمہ فرٹیلائزر نمایاں ہے جس نے روایتی زرعی طریقوں اور بدلتے موسمی حالات کے درمیان بڑھتی خلیج کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس پر بروقت کردار ادا کیا۔
کسانوں کی خدمات کے اعتراف اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے 18 دسمبر 2019کو کمپنی نے ''کسان ڈے'' کی بنیاد رکھی ۔ یہ ایک علامتی قدم آج ایک مضبوط قومی تحریک بن چکا ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر قومی کسان ڈے قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ‘‘سلام کسان’’پروگرام کسانوں کی آواز کو مزید مضبوط بنا رہا ہے، ان کے چیلنجز کو دنیا کے سامنے لا رہا ہے اور غذائی تحفظ میں ان کے کلیدی کردار کو تسلیم کروانے میں مدد دے رہا ہے۔
فاطمہ فرٹیلائزر نہ صرف اس عزم کی وکالت کر رہی ہے بلکہ زرعی جدیدیت اور کسانوں کی بااختیاری میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
سرسبز پاکستان ایپ کے ذریعے موسم کی فوری اطلاعات، 4R نیوٹریئٹ گائیڈنس اور فصل کے ہر مرحلے کی تکنیکی معلومات فراہم کی جاتی ہیں، تاکہ کسان بہتر فیصلے کر سکیں۔ اسمارٹ فارمنگ، غذائی نقشہ سازی، جدید آبپاشی اور ہائبرڈ بیج جیسے جدید طریقے زرائع کے بہتر استعمال اور موسمی نقصانات میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ جاز کیش، موبی لنک بینک، زی ٹی بی ایل اور فسل پے جیسے مالیاتی شراکت کاروں کے ذریعے کسانوں کو فوری سرمایہ فراہم کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے SDG امپیکٹ فریم ورک کی پاکستان میں پہلی بار نجی سطح پر اپنانے سے کمپنی نے پائیدار ترقی کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے عزم کو ثابت کیا ہے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ غذائی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے موسمیاتی مزاحمت کو فوری ترجیح بنایا جائے۔ جدید آبی ڈھانچے، مضبوط حفاظتی بند، اپ گریڈ شدہ آبپاشی نظام، اور گرمی و سیلاب برداشت کرنے والے بیجوں پر تحقیق ناگزیر ہو چکی ہے۔
چھوٹے کسانوں کے لیے بغیر گارنٹی قرض، ڈیجیٹل قرض کی سہولیات، جدید ایگری ٹیک، ریموٹ سینسنگ، غذائی نقشہ سازی، اور حقیقی وقت میں موسمی نگرانی جیسے نظام کو تیزی سے اپنانا ہوگا۔ بہتر کولڈ چین، جدید گودام اور موثر نقل و حمل کی سہولیات فصل بچ جانے کے باوجود ضائع ہونے سے بچا سکتی ہیں۔
ان تمام اصلاحات کے لیے مربوط پالیسی سازی، عوامی و نجی شراکت داری، اور طویل مدتی سرمایہ کاری لازمی ہے۔
جدید زراعت کوئی مستقبل کا خواب نہیں—یہ آج عملی طور پر اپنا اثر دکھا رہی ہے اور فاطمہ فرٹیلائزر اس کی نمایاں مثال ہے۔
کمپنی Pivot Irrigation سسٹمز، جدید ٹریکٹرز، سیٹلائٹ امیجنگ، موسم، مٹی کی نمی اور غذائیت کی نگرانی جیسی ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے۔ لیب سپورٹڈ ایڈوائزری ٹیمیں ہر سال 52 سے زائد میگا سیمینارز کے ذریعے ہزاروں کسانوں کو تربیت دیتی ہیں۔
کمپنی کی 10فیصد پیداوار میں بہتری کے دعوے کو اس سال کے شاندار مقابلہ گندم نتائج نے ثابت کر دیا ہے93 اضلاع میں پہلی پوزیشنیں اور 3 صوبائی اعزازات حاصل کیے گئے۔
موسمیاتی تبدیلی پہلے ہی پاکستان کے زرعی نقشے کو بدل چکی ہے۔ اب یہ فیصلہ پاکستان کو خود کرنا ہے کہ کیا وہ اس تبدیلی کو مستقبل کا مقدر بننے دے گا یا وسیع پیمانے پر اصلاحات کے ذریعے اپنے غذائی مستقبل کو محفوظ کرے گا۔ راستہ ابھی ختم نہیں ہوا، مگر عمل کرنے کی مہلت ضرور کم ہو رہی ہے۔
آج کیے گئے فیصلے طے کریں گے کہ آنے والے دہائیوں میں پاکستان غذائی طور پر محفوظ رہے گا یا نہیں۔