حالیہ ہتھیاروں کے تجربات ’ایٹمی نہیں‘ ٹرمپ کے ایٹمی تجربات کے اعلان پر روس کا رد عمل
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
روس نے جمعرات کے روز امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی ایٹمی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی، جب روس کے 2 نئے ایٹمی صلاحیت کے حامل ہتھیاروں کے تجربات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایٹمی تجربات کا حکم دیا۔
کریملن کا کہنا ہے کہ ایٹمی توانائی سے چلنے والے اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ہتھیاروں، بیوریویستنک کروز میزائل اور پوسائیڈن زیرِ آب ڈرون، کے تجربات کو براہِ راست ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ نے پینٹاگون کو ایٹمی تجربات فوری طور پر دوبارہ شروع کرنے کا حکم دے دیا
دونوں ممالک عملی طور پر ایٹمی وار ہیڈز کے تجربات پر پابندی پر عمل پیرا ہیں، تاہم روس باقاعدگی سے ایسی فوجی مشقیں کرتا ہے جن میں ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے نظام شامل ہوتے ہیں۔
If Trump is referring to Russia's statements about its new missiles and torpedos, it did not actually test nuclear weapons but new delivery vehicles, which are apparently nuclear powered.
— Shibley Telhami (@ShibleyTelhami) October 30, 2025
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کے مطابق پوسائیڈن اور بیوریویستنک کے تجربات کے حوالے سے ہم امید کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو معلومات درست طور پر پہنچائی گئی ہوں گی۔
میڈیا بریفنگ کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیمتری پیسکوف نے کہا کہ اسے کسی بھی صورت میں ایٹمی تجربہ نہیں کہا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: روس نے نیوکلیئر ہتھیار سے لیس سپر تارپیڈو کا کامیاب تجربہ کرلیا
صدر ولادیمیر پیوٹن پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ روس نے پوسائیڈن ایٹمی صلاحیت کے حامل سپر تارپیڈو کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے جمعرات کے روز کہا کہ انہوں نے دیگر ممالک کے اقدامات کے جواب میں امریکی ایٹمی تجربات کا حکم دیا ہے، اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس وقت روس اور امریکا کے پاس دنیا کے 90 فیصد ایٹمی ہتھیار یعنی تقریباً 11 ہزار وارہیڈز موجود ہیں۔
انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ دیگر ممالک کے تجرباتی پروگراموں کے پیشِ نظر، میں نے محکمہ جنگ کو ہدایت کی ہے کہ وہ مساوی بنیادوں پر ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات شروع کرے۔
مزید پڑھیں: روسی میڈیا نے برطانیہ کے ٹرائیڈنٹ میزائل کی ناکامی کا مذاق کیوں اڑایا؟
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ صدر ٹرمپ کا اشارہ براہِ راست ایٹمی وارہیڈز کے تجربے کی جانب تھا، جو امریکا نے آخری بار 1992 میں کیا تھا یا پھر ان ہتھیاری نظاموں کے تجربے کی طرف جنہیں ایٹمی وارہیڈز سے لیس کیا جا سکتا ہے۔
کریملن نے اشارہ دیا ہے کہ اگر امریکا نے عملی طور پر ایٹمی تجربہ کیا، تو روس بھی ایسا ہی کرے گا۔
دیمتری پیسکوف نے کہا کہ اگر کوئی ملک اس موریتوریم سے انحراف کرے گا تو روس بھی اسی کے مطابق ردعمل دے گا۔
صدر پیوٹن پہلے ہی متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکا نے دوبارہ ایٹمی تجربات شروع کیے، تو روس بھی اس کی پیروی کرے گا۔
مزید پڑھیں: روس کے مشرق بعید میں لاپتا ہونے والا مسافر طیارہ تباہ، ملبہ مل گیا
یاد رہے کہ 1996 میں دونوں ممالک نے جامع ایٹمی تجربوں کی ممانعت سے متعلق معاہدے پر دستخط تو کر دیے تھے، لیکن اس کی اب تک توثیق نہیں کی گئی ہے۔
یہ معاہدہ فوجی یا سویلین مقاصد کے لیے کسی بھی قسم کے ایٹمی دھماکے پر پابندی عائد کرتا ہے۔
حالیہ تجربات کے اعلان کے موقع پر صدر پیوٹن نے فخر سے کہا کہ روس کے نئے ایٹمی توانائی سے چلنے والے آلات دنیا کے کسی بھی براعظم تک پہنچ سکتے ہیں اور موجودہ دفاعی نظام انہیں روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ امریکا ایٹمی تجربہ ایٹمی وارہیڈز دفاعی نظام روس صدر پیوٹن صدر ٹرمپ کریملنذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایٹمی تجربہ دفاعی نظام صدر پیوٹن دیمتری پیسکوف ایٹمی تجربات ہتھیاروں کے کے تجربات تجربات کے کے مطابق ہیں کہ کہا کہ
پڑھیں:
چین اور امریکا کو بدلہ لینے کےخطرناک چکر میں نہیں پڑنا چاہیے: چینی صدر کا ٹرمپ سے ملاقات کے بعد بیان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین اور امریکا کو کسی بھی صورت میں بدلہ لینے کے خطرناک اور نقصان دہ چکر میں نہیں پڑنا چاہیے، کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات اور عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر سے ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین کی معیشت ایک سمندر کی طرح وسیع اور مضبوط ہے، جو ہر طرح کے خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ چین کا مقصد کسی ملک کو چیلنج کرنا یا اس کی جگہ لینا نہیں بلکہ اپنے داخلی نظام اور ترقیاتی منصوبوں کو بہتر بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بات چیت ہمیشہ محاذ آرائی سے بہتر ہوتی ہے، اور خوش آئند بات یہ ہے کہ چین اور امریکا کے تعلقات عمومی طور پر استحکام کی طرف جا رہے ہیں۔ صدر شی نے کہا کہ دونوں ممالک کی ٹیموں کو مذاکراتی عمل کو جاری رکھنا چاہیے، جبکہ تجارت اور معیشت کو باہمی تعلقات کا بنیادی ستون بنانا چاہیے تاکہ دیرپا تعاون ممکن ہو۔
چینی صدر کا کہنا تھا کہ اقتصادی و تجارتی تعلقات کو چین امریکا دوستی کی بنیاد بننا چاہیے، دونوں ممالک کو تعاون کے طویل المدتی مفادات پر نظر رکھنی چاہیے اور جذبات یا انتقام کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق دونوں ممالک کی اقتصادی اور تجارتی ٹیموں کے درمیان تفصیلی مذاکرات ہوئے جن میں کئی امور پر اتفاق رائے حاصل ہوا۔ مزید بتایا گیا کہ غیر قانونی امیگریشن، ٹیلی کام فراڈ، مصنوعی ذہانت کے منفی استعمال اور منی لانڈرنگ جیسے معاملات پر بھی تعاون کے مثبت رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
چینی سرکاری میڈیا کے مطابق، ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون بڑھانے اور مستقبل میں مسلسل بات چیت برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔