ٹرمپ کا ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کو حکم دیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات فوری طور پر دوبارہ شروع کرے تاکہ امریکا دیگر جوہری ممالک کے ساتھ برابر کی بنیاد پر کھڑا ہوسکے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان جنوبی کوریا کے شہر بوسان سے اپنے ایشیائی دورے کے اختتام پر وطن واپسی سے قبل کیا۔
انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری آبدوز بنانے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے۔
صدر ٹرمپ نے ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ میں نے محکمہ جنگ (محکمہ دفاع) کو ہدایت دی کہ ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ دیگر ممالک کی طرح اور فوری شروع کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ دیگر ممالک، خصوصاً چین اور روس، اپنے ایٹمی پروگراموں کے تجربات تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے بقول امریکا کے پاس دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں لیکن چین اگلے پانچ برسوں میں اس سطح کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ انھوں نے جنوبی کوریا کو اپنی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت دے دی ہے۔
یہ آبدوز فلاڈیلفیا (امریکا) میں جنوبی کورین کمپنی ہنوا (Hanwha) کے شپ یارڈ میں تیار کی جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنوبی کوریا اب اپنی پرانی، ڈیزل آبدوزوں کو الوداع کہے گا۔ نئی جوہری آبدوزیں زیادہ جدید، تیز اور پائیدار ہوں گی۔
اس فیصلے سے جنوبی کوریا ان چند ممالک میں شامل ہو جائے گا جو جوہری آبدوزوں کے مالک ہیں، جن میں اس وقت امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور بھارت شامل ہیں۔
جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے ٹرمپ سے ملاقات میں مطالبہ کیا تھا کہ امریکا-جنوبی کوریا جوہری معاہدے میں نرمی کی جائے تاکہ سیول یورینیم کی افزودگی اور ایندھن کی ری پروسیسنگ میں زیادہ خود مختاری حاصل کر سکے۔
تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ٹرمپ ایٹمی دھماکوں کی بات کر رہے تھے یا جوہری ہتھیاروں سے لیس میزائلوں کے تجربات کی۔
یاد رہے کہ امریکا نے آخری بار 1992 میں ایٹمی دھماکا کیا تھا جس کے بعد صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے ایٹمی تجربات پر پابندی عائد کر دی تھی۔
1996 میں جامع ایٹمی تجربہ بندی معاہدہ (CTBT) پر دستخط کیے گئے اور اس کے بعد صرف تین ممالک بھارت (1998)، پاکستان (1998، دو بار) اور شمالی کوریا (پانچ بار) نے جوہری دھماکے کیے۔
اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا کے پاس تقریباً 5,550 جوہری ہتھیار ہیں جن میں سے 3,800 فعال ہیں۔
روس کے پاس 5,459 ہتھیار ہیں جب کہ چین کا ذخیرہ تیزی سے بڑھ کر 600 کے قریب ہو چکا ہے جو 2030 تک 1,000 سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنوبی کوریا کے تجربات
پڑھیں:
صدر ٹرمپ اور شی جن کی اہم ملاقات جنوبی کوریا میں شروع
اس ملاقات میں ایک ایسا معاہدہ طے پانے کی توقع ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان مسلسل جاری تجارتی جنگ کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ یہ دونوں رہنماؤں کی پہلی ملاقات ہے، جب سے ٹرمپ نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کا آغاز کیا اور دنیا کے بیشتر ممالک پر ٹیرف عائد کیے، جن میں چین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کی ملاقات جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں شروع ہوگئی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس ملاقات میں ایک ایسا معاہدہ طے پانے کی توقع ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان مسلسل جاری تجارتی جنگ کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ یہ دونوں رہنماؤں کی پہلی ملاقات ہے، جب سے ٹرمپ نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کا آغاز کیا اور دنیا کے بیشتر ممالک پر ٹیرف عائد کیے، جن میں چین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مئی میں عارضی طور پر ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت جوابی ٹیرف کو کم کر دیا گیا تھا، جو کہ دونوں طرف 100 فیصد سے تجاوز کر گئے تھے۔ تاہم چین کو چپس تک رسائی اور امریکہ کو نایاب دھاتوں تک رسائی کے مسائل نے پھر سے کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔
اس ملاقات میں چینی ملکیت ٹک ٹاک کی امریکہ میں سرگرمیوں کا مستقبل بھی زیرِ بحث آئے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تناؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ ملاقات بوسان کی ایک معمولی سی جگہ پر ہو رہی ہے، جہاں ایئرپورٹ کی عمارتوں کے پیچھے خار دار تاریں اور چیک پوائنٹس ہیں۔ یہاں کی میڈیا اور پولیس کی بھاری موجودگی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ عالمی طاقتوں کے رہنماؤں کی ملاقات ہو رہی ہے اور اس ملاقات کا اثر دنیا بھر پر پڑنے والا ہے۔