ٹی ٹی پی وسطی اور جنوبی ایشیا کیلئے سنگین خطرہ، عبوری افغان حکام سے تعاون حاصل کررہی ہے، ڈنمارک
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
ڈنمارک نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی وسطی اور جنوبی ایشیا میں موجودگی کو ’سنگین خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ افغانستان کے عبوری حکام سے لاجسٹک اور مالی معاونت حاصل کر رہا ہے۔
ڈنمارک نے یہ خدشات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے آئی ایس آئی ایل (داعش) اور القاعدہ پر پابندی سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے نیو یارک میں بدھ کو ہونے والے اجلاس میں پیش کیے۔
افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی موجودگی طویل عرصے سے اسلام آباد اور طالبان انتظامیہ کے درمیان تنازع کا محور رہی ہے، 2021 میں طالبان کے کابل میں اقتدار واپس آنے کے بعد پاکستان نے الزام لگایا کہ طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجوؤں کو پناہ دے رہے ہیں، جنہوں نے خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
ڈنمارک کی نائب مستقل مندوب سینڈرا جینسن لانڈی نے اجلاس میں بتایا کہ ٹی ٹی پی کے تقریباً 6 ہزار جنگجو ہیں اور یہ گروہ خطے کے لیے ایک اور سنگین خطرہ ہے، جسے افغانستان کے عبوری حکام سے لاجسٹک اور مالی معاونت حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی نے افغان سرزمین سے پاکستان میں متعدد بڑے حملے کیے ہیں، جن میں بعض میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
جینسن لانڈی نے داعش، القاعدہ اور ان کے شراکت داروں کے بڑھتے ہوئے خطرات کا جائزہ بھی پیش کیا، جو تجزیاتی معاونت اور پابندی مانیٹرنگ ٹیم کے تازہ ترین اندازوں پر مبنی تھا۔
انہوں نے کہا کہ داعش، القاعدہ اور ان کے شراکت دار خطے میں مسلسل سرگرم ہیں اور افریقہ میں سب سے زیادہ شدت دیکھی گئی ہے، یہ گروہ سوشل میڈیا کے ذریعے تشدد کی تعریف، نوجوانوں کی بھرتی اور فنڈز جمع کرنے میں مصروف ہیں، کرپٹو کرنسی کا استعمال پابندیوں کے نفاذ کے لیے ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے۔
جینسن لانڈی نے مزید کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں نقصان کے بعد داعش نے اپنا مرکز افریقہ کی طرف منتقل کر دیا ہے، جہاں اسلامی ریاست مغربی افریقہ (آئی ایس ڈبلیو اے پی) نے سرگرمیاں اور پروپیگنڈا بڑھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش خراسان وسطی اور جنوبی ایشیا میں سب سے سنگین خطرات میں سے ایک ہے، جس کے کم از کم 2 ہزار جنگجو ہیں، جن کی قیادت ثنااللہ غفاری کر رہا ہے، یہ شیعہ کمیونٹیز، افغان عبوری حکام اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بالخصوص شام، افریقہ اور وسطی ایشیا کے درمیان غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کی نقل و حرکت رکن ممالک کے لیے ایک مستقل تشویش ہے۔
جینسن لانڈی نے یہ بھی کہا کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت کمزور اور حد درجہ کم اثر ہے، جبکہ شراکت دار گروہ بشمول جماعت نصر الاسلام و المسلمین نے مقامی اختلافات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے، القاعدہ جزیرہ نما عرب بھی حملے بھڑکانے اور فنڈز جمع کرنے میں سرگرم ہے۔
جینسن لانڈی نے کہا کہ مجموعی طور پر، داعش اور القاعدہ نے خود کو مستحکم، ہم آہنگ اور موقع پرست ثابت کیا ہے، اور علاقائی عدم استحکام، کمزور حکومت اور جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر اثرورسوخ قائم رکھا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1267 پابندیوں کے تحت مسلسل نگرانی اور کثیرالجہتی تعاون کی ضرورت ہے۔
جینسن لانڈی کی بریفنگ کے بعد پاکستان کے نائب مستقل مندوب عثمان جدون نے اجلاس میں خطاب کیا۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ عالمی دہشت گردی کا منظرنامہ مسلسل بدل رہا ہے، خود کو تیزی سے بدلتی دنیا کے مطابق ڈھال رہا ہے، جہاں نئی اور ابھرتی ہوئی خطرات تیز رفتار تکنیکی ترقی کے سائے میں سامنے آ رہی ہیں۔
عثمان جدون نے کہا کہ طویل، غیر حل شدہ تنازعات، بیرونی مداخلتیں اور دہشت گردی کی جڑیں اب بھی باقی ہیں، جو دہشت گردی کے خطرے کو جاری رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف صف آرا ملک کے طور پر پاکستان نے اس کے خاتمے کی کوششوں میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جس میں 80 ہزار سے زائد جانیں اور اربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان شامل ہے۔
عثمان جدون نے کہا کہ القاعدہ بڑی حد تک پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں تباہ ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بہادر سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کر رہے ہیں، جہاں داعش خراسان، کالعدم ٹی ٹی پی اور ان کے شراکت دار، کالعدم بی ایل اے اور مجید بریگیڈ اپنے میزبانوں کی سرپرستی میں اور ہمارے اہم حریف کی مدد سے سرگرم ہیں۔
عثمان جدون نے زور دیا کہ 1267 پابندیوں کا نظام، جو داعش اور القاعدہ پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے سلامتی کونسل کا فریم ورک ہے، زمینی حقائق کی عکاسی کرے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی دائرہ کار کو مذہب، نسل یا قومیت سے بالاتر ہوکر افراد اور اداروں کی فہرست بنانے کے لیے وسیع کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فہرست سازی اور فہرست سے نکالنے کے معاملات کو شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے حل کرنا ضروری ہے، اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے لیے صفر برداشت کی پالیسی اپنانے کے لیے، اقوامِ متحدہ کی انسداد دہشت گردی کی تشکیل کو دنیا بھر میں تشدد پسند، الٹرا نیشنل، انتہائی دائیں بازو، اسلاموفوبک اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی شناخت کے لیے ضروری اوزار بھی رکھنے چاہئیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ جینسن لانڈی نے دہشت گردی کے ٹی ٹی پی رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
پہلے سیکیورٹی پھر تجارت، پاک افغان سرحد غیر معینہ مدت کیلئے بند
اسلام آباد:(نیوزڈیسک)پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحدیں غیر معینہ مدت کیلئے بند رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق دوطرفہ کشیدگی میں اضافے کی وجہ طالبان حکام کی افغان تاجروں کو وارننگ ہے کہ وہ پاکستان پر انحصار ختم کرکے دیگر ملکوں کیساتھ تجارت کریں۔
حکام نے بتایا کہ حکومت نے اس فیصلے سے کابل کو واضح پیغام دیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی ودیگر دہشتگرد تنظیموں کے خاتمہ کیلئے ٹھوس اقدامات تک تجارت و دیگر سرگرمیوں کیلئے سرحدیں نہیں کھلیں گی۔
حکام نے کہا کہ سرحدی بندش معمول کا انتظامی اقدام نہیں بلکہ پالیسی میں سٹریٹجک تبدیلی ہے۔ افغان طالبان قیادت کو مطلع کر دیا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کیخلاف ٹھوس کارروائی تک مزید مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
ایک سرکاری افسر نے کہا کہ پاکستان اپنے موقف سے ہٹنے کے موڈ میں نہیں، ’’سکیورٹی پہلے، تجارت بعد میں‘‘ اب اسلام آباد کا نیا موقف ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاک افغان سرحدوں کی بندش کو ایک ماہ سے زائد ہو چکا ہے جس کے باعث دونوں اطراف ہزاروں ٹرک اور کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں، اس وقت سرحدی گزرگاہیں صرف انسانی بنیادوں پر کھلی ہیں جوکہ افغان مہاجرین اور سرحدوں پر پھنسے افراد کی واپسی تک محدود ہے۔
ایک سینئر افسر نے بتایا کہ ہمارے لئے تجارت اور معیشت سے زیادہ اہم اپنے لوگوں کی زندگی ہے جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔