سابق وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری برقرار
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کے وارنٹ گرفتاری کیس میں پیش رفت نہ ہونے کے باعث عدالت نے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے ہیں۔
ڈپلومیٹک پاسپورٹ کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ہوئی، جس میں عدالت نے سابق وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ احمد شہزاد گوندل کی غیر موجودگی کے باعث نہ ہو سکی، اور کیس کی مزید سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا ہوا ہے، اور اس سے قبل عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سردار تنویر الیاس وارنٹ گرفتاری وارنٹ گرفتاری جاری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سردار تنویر الیاس وارنٹ گرفتاری وارنٹ گرفتاری جاری وارنٹ گرفتاری
پڑھیں:
بینچز تشکیل، چیف جسٹس آئینی عدالت کا صوابدیدی اختیار برقرار
اسلام آباد:وفاقی حکومت نے اپنے سابقہ موقف کے برعکس وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کے صوابدیدی اختیار کو ریگولیٹ کرنے کیلیے کوئی قانون سازی نہیں کی جبکہ اب تک آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
سابق اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی کہ صرف وہ انٹرا کورٹ اپیلیں جو سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں، انھیں سنا جا سکتا ہے لیکن مستقبل میں آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف کوئی انٹراکورٹ اپیل دائر نہیں ہو سکے گی۔
انھوں نے آئین کے آرٹیکل 175(E)(4) کا حوالہ دیا جس میں واضح طور پر درج ہے کہ صرف زیرِ التوا اپیلیں ہی سنی جائیں گی اور مستقبل کی اپیلوں کے لیے کوئی شق نہیں۔ عبادالرحمان لودھی ایڈووکیٹ نے بھی ایک کیس کی سماعت کے دوران یہی نکتہ اٹھایا۔
آئینی عدالت کے فیصلوں کیخلاف اپیل کے حق کی عدم موجودگی کے حوالے سے ایک سرکاری اہلکار نے اعتراف کیا کہ ابھی تک کوئی حقِ اپیل موجود نہیں جب تک کہ خود آئینی عدالت اپنے قواعد میں اس کی گنجائش نہ دے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے یہ حق فراہم نہ کیا جائے۔
یہ بھی غیر واضح ہے کہ آیا حکومت اپیل کا حق دینے کے لیے کوئی قانون سازی کرے گی یا نہیں۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں حکمران جماعتیں بینچ تشکیل دینے کے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
اس مقصد کیلئے پی ڈی ایم حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 متعارف کرایا اور عوامی مفاد کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان سمیت اکثریتی ججوں نے اس قانون کی توثیق بھی کی تاہم اب آئینی عدالت میں بطور ماسٹر آف روسٹر وہ خود بینچ تشکیل دے رہے ہیں۔
سینئر وکلا یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ آئینی عدالت کے تمام بینچوں میں تمام صوبوں کی مناسب نمائندگی کیوں نہیں۔
اس وقت دو یا تین رکنی بینچ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور بعض بینچوں میں ایک ہی صوبے سے تعلق رکھنے والے جج شامل ہیں۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ جی ٹین سیکٹر کی پرانی عمارت میں منتقل ہونے والی ہے۔
سینئر سرکاری افسر نے تصدیق کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جنوری میں اسلام آباد ہائیکورٹ کو منتقل کر دیا جائے گا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ بار اسے فروری تک مؤخر کرنے کی درخواست کر رہی ہے۔