data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ اسمبلی کے اجلاس میں جمعہ کو ارکان نے عوامی اہمیت کے حامل مختلف توجہ دلائو نوٹس پیش کیے۔ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی صابر قائمخانی نے اپنے توجہ دلائو نوٹس میں اس امر کی جانب توجہ دلائی کہ ڈیٹھا ٹول پلازا میرپور خاص روڈ پر حیدرآباد کے مقامی شہریوں سے بھی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ جتنا سفر کیا جائے اتنا ہی ٹول ٹیکس دیا جاتا ہے۔ مقامی شہریوں سے ٹیکس وصول کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔میرا مطالبہ ہے کہ ٹنڈو الہٰیار، ٹنڈو جام اور میرپور خاص کے لوگوں کے ساتھ انصاف کیا جا ئے۔

اسٹاف رپورٹر گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

بچوں کوزیادہ کھلونوں کی نہیں توجہ کی ضرورت ہے!

تخلیقی صلاحیت ان لمحوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے جو ہمیں یہ گنجائش دیتے ہیں کہ ہم رک کر زندگی کے نشیب و فراز کے دکھ اور سکھ کو سوچ سکیں، محسوس کر سکیں اور یاد کر سکیں۔ مگر آج کے دور میں، جب ہم زیادہ کی لعنت میں مبتلا ہیں حد سے زیادہ خوراک، حد سے زیادہ تحفظ، حد سے زیادہ مصروفیت تو خالی دماغ ایک معدوم شے بن کر رہ گیا ہے۔

زیادہ کھلونوں، زیادہ آلات اور زیادہ مشاغل نے ہمارے بچوں کوبھی کسی ایک ٹھوس یا غیرمرئی چیز پر توجہ قائم رکھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ فراوانی نے ہم سے ورڈزورتھ کے اندرونی چشم نہائی کی مسرت کو چھین لیا ہے۔2018 کی ایک معروف عملی تحقیق میں، امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹولیڈو سے کارلی ڈاؤچ اور ان کے ساتھیوں نے یہ مفروضہ جانچا کہ کم کھلونوں والا ماحول بچوں کے بہتر معیار کے کھیل کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے پایا کہ جن ننھے بچوں کو کم کھلونے دیے گئے، وہ زیادہ دیر تک کھیل میں مشغول رہے اور کھیلنے کے زیادہ متنوع طریقے استعمال کیے۔ کم دینا دراصل زیادہ اعتماد کرنا ہے ان کی تخلیقی صلاحیت، ان کی برداشت، ان کی خوشی تلاش کرنے کی صلاحیت پر اعتماد۔زیادہدراصل والدین کی فیاضی کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے، مگر حقیقت میں یہ والدین کے صبر کی کمی ہوتی ہے۔ یہ زیادہ دراصل کم ہے: کم تجسس، کم تخیل، کم حیرت، کم صبر۔ اس کے برخلاف، کمی ایک ایسا خلا پیدا کرتی ہے خالی ذہنی جگہ جہاں میٹا کوگنیٹو سوچیں گونجتی ہیں۔آج کے دور میں خالی بیٹھے رہنا ناکامی کی علامت بن گیا ہے۔ بچے جنونی انداز میں ایک جان لیوا معمول کے پیچھے لگا دیے جاتے ہیں اسکول، ہوم ورک، اکیڈمی اور پھر رات گئے تک گھریلو ٹیوشن۔ 250 امریکی اسکولوں کے کنسلٹنٹ، کم جان پین کہتے ہیں کہ کم اب بھی زیادہ ہے۔ بچوں کو کھیلنے کے لیے بہت سارے کھلونوں کی ضرورت نہیں، نہ ہی کسی خاص کھلونے کی۔ انہیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے غیرساختہ وقت۔بچپن کی خاص علامت یہ ہے کہ وہ بغیر وجہ خوش رہ سکتا ہے۔ دیپک چوپڑا کہتے ہیں کہ بغیر وجہ خوش رہو، بالکل ایک بچے کی طرح۔ اگر تم کسی وجہ سے خوش ہو تو مشکل میں ہو، کیونکہ وہ وجہ تم سے چھن سکتی ہے۔ باوجود اس کے کہ ہمارے طلبہ بے شمار ذرائع اسکولوں، اکیڈمیوں، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ اور اب اے آئی سے علم اور معلومات حاصل کر رہے ہیں، وہ معلومات سے دانش تک کا سفر طے نہیں کر پاتے۔ وہ ہر چیز کے سامنے بے نقاب ہیں مگر کسی چیز سے وابستہ نہیں۔

وہ بچے جو مایوسی، محرومی، نقصان یا انتظار جیسے تجربات سے محفوظ رکھے جاتے ہیں، ان کی مزاحمتی قوت کے دل کے پٹھے کمزور ہونے لگتے ہیں۔ خواہشات کی فوری تکمیل انہیں زیادہ چڑچڑا بنا دیتی ہے۔ ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ کے ذریعے کی جانے والی بے جا ناز برداری انہیں مشکل تجربات سے ملنے والے سبق سے محروم کر دیتی ہے۔زیادہ کا اصل متضاد کمی نہیں بلکہ کافی ہے۔ کافی وہ بنیادی مواد فراہم کرتا ہے جس سے حیرت جنم لیتی ہے: وقت، جگہ اور تخیل۔ ایک بوجھل ذہن، جسے کوئی وقفہ میسر نہ ہو، نئے زاویوں سے سوچنے کے لمحے نہیں پاتا۔ ایسا ذہن کبھی بھی باکس سے باہر سوچنے کی ہمت نہیں کرتا اور یوں اچانک آنے والی تخلیقی دریافتوں سے محروم رہتا ہے۔کم امکانات کے ماحول میں، بچے دستیاب چیزوں کے ساتھ گزارا کرنا سیکھتے ہیں۔ اس سے انسانی رشتوں کو فوراً توڑ دینے کی عادت بھی کم ہو سکتی ہے۔ بچے یہ بھی سیکھتے ہیں کہ چیزوں سے دیر تک جڑے کیسے رہنا ہے ایک ایسی عادت جو اہداف کے حصول کی جدوجہد میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔جہاں کمی دیرپا تخلیقی مشغولیت کو پروان چڑھاتی ہے جو کہ ہر تخلیقی کاوش کی بنیادی شرط ہے وہیں زیادتی عجلت میں جنم لینے والی تخلیقیت کو جنم دیتی ہے۔ یہ ذہنی پراسیسنگ کو آہستہ کر دیتی ہے اور فوری جواب ڈھونڈنے کی عادت بن جاتی ہے۔ طویل سوالات، خاص طور پر ریاضی کے مسائل، ایسے طلبہ کو الجھا دیتے ہیں جو مسلسل اپنی توجہ کا مرکز تبدیل کرنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ یکسوئی (مائنڈفلنیس) بھی فراوانی کی قربانی بن جاتی ہے۔ کم کے الفاظ کو پھر دہراتے ہوئے کہ آخرکار یہ اہم نہیں کہ آپ اپنے وقت کے ساتھ کیا کرتے ہیں، بلکہ یہ کہ کیا آپ کے پاس وقت ہے کہ آپ اسے اپنا بنا سکیں۔والدین فطری طور پر اپنے بچوں کے لیے فراوانی لانے پر مجبور نہیں ہوتے۔ پہلی وجہ یہ کہ وہ والدین جنہوں نے اپنے بچپن میں محرومیاں دیکھی ہوں، وہ اپنے بچوں کی راحت کے حوالے سے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچپن کے زخم ان کے بچوں کی میراث بنیں۔ والدینی فیاضی کے پیچھے والدینی خوف چھپا ہوتا ہے بچہ پیچھے رہ نہ جائے، بور نہ ہو جائے یا تکلیف نہ اٹھائے۔ دوسری وجہ یہ کہ بیرونی دنیا میں درپیش خطرات بچوں کا استحصال، اغوا، ٹریفک حادثات والدین کو مجبوری کے تحت فراوانی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کی ہدایت پر تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس میں کمی کی تیاری، سپر ٹیکس مرحلہ وار ختم کرنے کا فیصلہ
  • میرپور خاص: جوڈیشل مجسٹریٹ 2نے 22ملزمان کے خلاف چالان منظور کرلیے
  • حسن اسکوائر میں رات گئے پولیس اہلکاروں کی جانب سے شہریوں کی ہراسانی
  • بچوں کوزیادہ کھلونوں کی نہیں توجہ کی ضرورت ہے!
  • راولپنڈی ،مقامی انتظامیہ کی عدم توجہ کے باعث راجا بازار میں تجاوزات کی بھرمار ہے
  • اداروں، شہریوں کیخلاف بندوق اٹھانے والوں سے بات کرنے کی ضرورت نہیں، طارق فضل چوہدری
  • مرحوم ماں کا روپ دھار کر اسی کی پنشن وصول کرنے والا بہروپیا پکڑا گیا
  • ملک میں سونے کے نرخ مقرر کرنے کا کوئی مارکیٹ میکانزم موجود نہیں: کمپٹیشن کمیشن کی اسسمنٹ اسٹڈی
  • بھارت میں کام کرنے کا تجربہ اچھا رہا، ماہرہ خان