بی آر ٹی مین روٹ پر ہر قسم کے رکشوں اور لوڈرز پر پابندی عائد
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
ویب ڈیسک : پشاور میں بی آر ٹی مین روٹ پر ہر قسم کے رکشوں اور لوڈرز پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔
کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیر صدارت اجلاس میں بی آر ٹی مین روٹ پر ہر قسم کے رکشوں اور لوڈرز پر مکمل پابندی کا فیصلہ کیا گیا، جس کا مقصد ٹریفک کی روانی میں بہتری لانا ہے، ساتھ ہی وارننگ بھی دی گئی ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے رکشے کو ضبط کرکے مالکان کو جیل بھیجا جائے گا۔ اس کے علاوہ پنجاب سے نئے رکشوں، چنگچی اور لوڈرز کی درآمد پر بھی پابندی عائد، ڈرائیورز کی آگاہی کے لئے ٹریفک پولیس کو آج سے ہی بی آر ٹی اور ملحقہ روٹس پر پابندی سے متعلق بینرز آویزاں کرنے کی ہدایات جاری کردی گئی۔
لکی مروت: پولیس موبائل پر خودکش حملہ، ایک اہلکار شہید، 6 زخمی
شہر میں چلنے والے رکشوں، چنگچی اور لوڈرز کی تعداد معلوم کرنے اور آبادی کے لحاظ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی رجسٹریشن اور روٹ پرمٹ کے اجراء کے لیے ضلعی انتظامیہ، محکمہ ٹرانسپورٹ، ٹریفک پولیس، محکمہ ایکسائز اور محکمہ ماحولیات کے انتظامی افسران پر مشتمل کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔
کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام متعلقہ ادارے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں تاکہ ٹریفک اژدہام کو کنٹرول کرکے شہریوں کو ذہنی کوفت سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔
لکی مروت: پولیس موبائل پر خودکش حملہ، ایک اہلکار شہید
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: اور لوڈرز بی آر ٹی روٹ پر
پڑھیں:
پشاور میں رواں سال 517 قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے: پولیس کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں امن و امان کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہوتی جا رہی ہے، پولیس کی تازہ رپورٹ کے مطابق رواں سال کے دوران شہر میں قتل و غارت، اغوا اور اسٹریٹ کرائم کے سنگین واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی کو موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق پشاور میں سال بھر میں 517 افراد کو قتل کیا گیا، جب کہ اقدامِ قتل کے 785 واقعات بھی مختلف تھانوں میں درج ہوئے، جو شہر میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کی سنگینی واضح کرتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں ماہ کے ابتدائی تین ہفتوں میں ہی 9 شہری قتل ہوئے، جب کہ اسٹریٹ کرائمز کے دوران راہزنوں نے 10 افراد کو زخمی کیا۔ امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شہر میں 8 بچوں سمیت مجموعی طور پر 37 افراد کو اغوا کیا گیا۔ ان واقعات میں اغواء برائے تاوان کے 9 کیسز شامل ہیں، جنہوں نے شہریوں میں غیر معمولی خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔
پشاور میں املاک سے متعلق جرائم بھی قابو سے باہر دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق چوری اور ڈکیتی کے 370 مقدمات درج ہوئے، جب کہ کاری چوری کے 89 اور کار چھیننے کے 40 واقعات رپورٹ ہوئے۔
موٹر سائیکل جرائم کی صورتحال بھی خاصی خراب رہی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں موٹر سائیکل چوری کے 219، جب کہ موٹر سائیکل چھیننے کے 314 واقعات پیش آئے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے سنگین چیلنج بن چکے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق جرائم کی اس بڑھتی لہر پر قابو پانے کے لیے خصوصی حکمتِ عملی تشکیل دی جا رہی ہے، تاہم شہری حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ زمینی سطح پر پولیسنگ کو مزید موثر بنایا جائے تاکہ بڑھتے ہوئے جرائم کے رجحان کو روکا جا سکے۔