کراچی (نیوزڈیسک) صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ بہت اہم ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ کارونجھر منصوبہ سندھ حکومت نے منسوخ کیا ہے، وہاں کسی کی لیز نہیں۔

سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے جس دور سے گزر رہے ہیں، اس کی وجہ انکا منفی پروپیگنڈا ہے۔ فیلڈ مارشل کے نوٹیفکیشن پر بھی ایسا ہی پروپیگنڈا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایم کیو ایم کی باتوں کو ہم سنجیدہ نہیں لیتے، سندھ کی تقسیم کی باتیں وہ خود کو زندہ رکھنے کے لیے کرتے ہیں، ایم کیو ایم والے صرف شوشا چھوڑتے ہیں۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سب سے زیادہ بااختیار بلدیاتی نظام اس وقت سندھ میں ہے، ایم کیو ایم سندھ کے بلدیاتی نظام میں شامل ہی نہیں ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں کم سن بچے کا گٹر میں گرنا انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، وزیر اعلیٰ نے کوتاہی برتنے پر سب کو معطل کردیا ہے۔

صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ کوئی اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، سپر اسٹور والے پارکنگ کے پیسے تو لے لیتے ہیں لیکن ان سے چھوٹا سا گڑھا نہیں بھرا گیا۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے، پہلے یہاں کانوائے چلا کرتے تھے اب ایسی صورتحال نہیں، قبائلی تصادم روکنے کیلئے کوششیں جاری ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ایم کی

پڑھیں:

ایک کہانی جس کا انجام توقع کے برعکس نکلا

پہلے آپ یہ کہانی پڑھ لیں پھر اس سے آگے بڑھتے ہیں، اگر آپ نے سوشل میڈیا پر پچھلے دو تین دنوں میں اس کہانی کو پڑھا ہو تو معذرت، مگر فکر نہ کریں، ہم آج کے کالم میں آپ کو یہ چلا ہوا پرانا سودا نہیں بیچ رہے، کچھ اور کہنا ہے۔

پاکستانی سوشل میڈیا پر انجانے سورس سے نمودار ہونے والی کہانی کچھ یوں ہے:

’ایک تصویر پورے جرمنی میں تیزی سے وائرل ہوئی، گیمز آف تھرون کے ایک مقبول اور مشہور کردار آریا سٹارک کو ادا کرنے والی اداکارہ میسی ولیمز جرمن میٹرو میں بیٹھی ہے، اس کے ساتھ بیٹھا نوجوان بالکل بے نیاز ہے، اسے کوئی پروا نہیں کہ سائیڈ والی چیئر پر اتنی مشہور اداکارہ اور سیلیبریٹی بیٹھی ہے۔ مشہور جرمن میگزین ڈیر شپیگل نے اس تصویر کی کھوج شروع کی اور اس میں بیٹھے بھارتی نوجوان کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔ آخرکار سراغ میونخ میں ملا، اور پتا چلا کہ وہ نوجوان وہاں غیر قانونی طور پر رہ رہا تھا۔ صحافی نے اس انڈین نوجوان سے پوچھا، ’تمہیں پتا بھی تھا کہ تمہارے ساتھ بیٹھی سنہری بالوں والی لڑکی معروف اداکارہ میسی ولیمز تھی؟ لوگ اس سے ایک سیلفی لینے کے لیے بھی ترستے ہیں، اور تم نے کوئی خاص ردعمل ہی نہیں دیا، کیوں؟‘

وہ نوجوان بالکل پرسکون تھا، اس نے بس اتنا کہا، ’جب تمہارے پاس رہائش کا کاغذ نہ ہو، جیب میں ایک یورو بھی نہ ہو، اور تم روز ٹرین میں چھپ کر سفر کرتے ہو، تو پھر تمہیں اس بات کی فکر ہی نہیں رہتی کہ تمہارے ساتھ کون بیٹھا ہے۔‘ نوجوان کی صاف گوئی نے صحافی اور میگزین کو اتنا متاثر کیا کہ ڈیر شپیگل نے اسے فوراً ایک ڈاکیے کی نوکری دے دی۔ تنخواہ 800 یورو ماہانہ۔ اسی ملازمت کے کنٹریکٹ کی بنیاد پر اسے باقاعدہ رہائشی اجازت نامہ بھی مل گیا۔ وہ سارا مسئلہ جو اس کے سر پر تلوار بنا ہوا تھا، لمحوں میں ختم ہوگیا۔ یہ پوری کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ رزق کہاں سے اور کس طرح آ جائے، انسان سوچ بھی نہیں سکتا، بس دل ہمت نہ ہارے۔ مشکلیں وقتی ہوتی ہیں، اور اللہ ہمیشہ وہی راستہ کھولتا ہے جس کی ہم نے توقع بھی نہیں کی ہوتی۔ امید رکھو، بھروسہ رکھو۔ تمہارا وقت بھی آتا ہے۔‘

یہ دلچسپ موٹیویشنل اسٹوری گزشتہ روز پڑھی، پھر رات بھر میں اسے کئی پوسٹوں کی زینت بنے دیکھا۔ ہمارے ہاں کاپی پیسٹ کرنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ لوگ ایک سکینڈ میں پوسٹ کاپی کرکے اپنے پاس چسپاں کردیتے ہیں۔ بعض اوقات نیک نیتی اور کسی اچھی تحریر کو مثبت تشہیر کے لیے پھیلانے کے خیال سے بھی یہ کیا جاتا ہے کہ پوسٹ شیئر کرنے سے زیادہ ریچ نہیں ملتی، البتہ کاپی پیسٹ کرنے سے وہ اوریجنل پوسٹ کی طرح بڑی ریچ لے سکتی ہے۔

مجھے اس اسٹوری میں ایک دو باتیں کھٹک رہی تھیں، ایک تو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایسے ایک رینڈم تصویر سے کسی اخبار یا صحافی کے لیے کسی گمنام مسافر کو کھوجنا آسان نہیں، پھر اس تصویر میں ایسا کوئی اچھوتا پن بھی نہیں تھا کہ کوئی اتنا کشٹ اٹھاتا۔

خیر میں نے اس اسٹوری کو جانچنے کا فیصلہ کیا، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے (اس بدقسمتی کی وضاحت آگے کروں گا) ہم آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دور میں جی رہے ہیں جہاں کچھ مفت میں اور پھر تھوڑے سے پیسے دے کر پیڈ اے آئی ایپس بہت سا کام کر دیتی ہیں۔ میں نے دو تین مختلف پہلوانوں کو یہ ٹاسک سونپا۔ چیٹ جی پی ٹی، گروک، جیمنائی۔ نتیجہ دلچسپ نکلا۔

پتا چلا کہ یہ اسٹوری بالکل جعلی ہے۔ ایسا کوئی واقعہ جرمنی میں نہیں ہوا۔ ڈیر شپیگل نے ایسی کوئی اسٹوری سرے سے شائع ہی نہیں کی۔ عالمی میڈیا کو کھنگالنے سے میسی ولیمز کے حوالے سے ایسی کوئی اسٹوری نہیں ملی۔ میسی ولیمز نے اپنے کسی انٹرویو میں بھی اس حوالے سے نہیں بتایا۔

چیٹ جی پی ٹی نے رپورٹ دی: ’میں نے جرمن ذرائع (میگزینز، نیوز سائٹس) اور انگریزی ذرائع دونوں کو دیکھا، مگر کسی بھی معتبر نیوز پورٹل، آرکائیو یا فیکٹ چیک سائٹ پر اس پورے واقعے کی کوئی خبر یا رپورٹ نہیں ملی، نہ ہی ڈیر شپیگل کا کوئی ریکارڈ ملا جس میں یہ واقعہ درج ہو، سوشل میڈیا پوسٹ یا ویب آرکائیو میں بھی ایسا کچھ نہ مل سکا۔ ’چیٹ جی پی ٹی نے محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ یہ پوسٹ تصدیق شدہ نہیں ہے اور اس حوالے سے جو معلومات دستیاب ہیں، وہ غیر تصدیق شدہ ہیں۔

گروک البتہ اپنے مالک ایلون مسک کی طرح کچھ زیادہ ہی منہ پھٹ اور تھوڑا بدلحاظ ہے۔ اس نے صاف اسے جعلی اور جھوٹی اسٹوری قرار دے دیا، البتہ یہ مہربانی کی کہ اسے ایک موٹیویشنل مقصد کے لیے گھڑی جانے والی کہانی کہا۔

اب آیا تصویر کا معاملہ، گوگل پر ریورس امیج کی سہولت دستیاب ہے جس سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ یہ تصویر اصلی ہے یا جھوٹی، یا کب کی ہے۔ تھوڑی سی تحقیق ہم نے بھی فرمائی مگر زیادہ ہم نے چیٹ جی پی ٹی اور گروک سے کرائی۔

معلوم ہوا کہ یہ تصویر جرمنی میٹرو کی ہے ہی نہیں، یہ لندن میٹرو کی تصویر ہے اور 2019 کی ہے یعنی 6 سال قبل کی۔ گوگل ریورس امیج نے تو 6 سال پرانا ایک ٹوئٹ بھی نکال کر دکھا دیا جس میں کسی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ جس طرح یہ نوجوان میسی ولیمز کو اگنور کررہا ہے ویسے میں ہر ایک کو اگنور کرنا چاہتا ہوں۔

چیٹ جی پی ٹی نے مزید تفصیل سے بتایا کہ سیٹ کور کا ڈیزائن لندن میٹرو جیسا ہے، ایسے رنگین پیٹرن جرمنی کی میٹرو میں نہیں۔ تصویر میں نظر آنے والے دروازے کا اسٹائل بھی لندن میٹرو جیسا ہے، ویسا پیلا بار، سفید سائیڈ پینل، دروازے کے اوپر کَروڈ فریم۔ یہ لندن انڈرگراؤنڈ کی ایس کلاس کا مخصوص ڈیزائن ہے۔ فلور، گرپ ریل، کیرج لائٹس کی کنفیگریشن وہی ہے جو لندن ٹیوب کی ایس سٹاک ٹرینوں میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے یہ 100 فی صد لندن میٹرو کی تصویر ہے، جرمن میٹرو کی نہیں۔ اسی سے یہ کہانی جھوٹی اور فرضی ثابت ہوگئی۔

اب یہاں تک پہنچ کر یہ قصہ تو تمام ہوا، ثابت ہوگیا کہ یہ ایک فرضی اور جعلی کہانی کسی نے موٹیویشنل مقصد کے لیے گھڑ کر پھیلا دی۔ ہمارے معصوم جنوبی ایشیائی کنزیومرز نے اسے وائرل کردیا۔ چلیں ٹھیک ہوگیا، بات کلیئر ہوگئی۔

میرا دکھ مگر یہ نہیں، بطور لکھاری میرا افسوس اور غم یہ ہے کہ یہ کم بخت مارے اتنے سارے تفتیشی ایجنٹ پیدا ہوگئے ہیں کہ بندہ اپنے کالم میں اب کچھ فکشن بھی نہیں ڈال سکتا۔ ہم سے پہلے والے کیا کچھ نہیں کرتے رہے۔ ہر قسم، ہر نسل اور ہر رنگ کی کہانیاں انہوں نے گھڑ کر اپنے کالموں کی زینت بنائیں اور خوب شہرت اور نام کمایا۔ ایک معروف کالم نگار تو کالم میں دھڑلے سے عجیب وغریب اعداد وشمار بھی دے دیتے، جیسے لکھ ڈالتے کہ پاکستان میں 13 لاکھ 87 ہزار 512 موٹر سائیکلیں ہیں۔ ہم پڑھ کر ہکا بکا رہ جاتے کہ اتنے ایکوریٹ قسم کے اعدادوشمار انہوں نے کہاں سے لے لیے۔ میرے کالم نگاری کے آغاز میں ہمیں نیٹ کی سہولت میسر ہوچکی تھی، بہت بار نیٹ پر سرچ کرتے رہے کہ شاید ایسے اعدادوشمار والی جادوگر ویب سائٹس ہمیں بھی مل جائے، کہیں سے کچھ نہ ملا۔ سرکاری اداروں کی ویب سائٹ چیک کرتے تو وہاں کچھ بھی نہ ہوتا۔ بہت بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ سب اٹکل پچو تھا۔

تو بھائی لوگو، لکھنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ اب کچھ اچھا، متاثرکن، مؤثر لکھنے کے لیے پتا پانی کرنا پڑے گا، جان مارنا پڑے گی، پھر لفظوں میں زندگی کے اثار نظر آئیں گے۔ آپ اگر ادھر اُدھر سے اٹھا کر کچھ بھی الٹ سلٹ لکھ دیں، اگلے چند منٹوں میں چیٹ جی پی ٹی، گروک، جیمنائی جیسے تفتیشی ایجنٹوں سے اصل حقیقت اگلوا لیں گے۔ اب سچ مچ موٹی کتابیں پڑھنا پڑتی ہیں۔ کتابوں کی سمری مل جاتی ہے، مگر وہ اتنی بور، خشک اور بے جان ہوتی ہے کہ آدمی اس ’مردے‘ کو کالم میں ڈالنے کی جرات ہی نہیں کرتا۔ خاکسارکے ساتھ کئی بار یہ ظلم بھی ہوا کہ کئی سو صفحات کی کتاب پڑھ لینے کے بعد بھی کالم کا مواد نہ مل سکا۔ یعنی ایسا کچھ جو کالم میں پیش کیا جا سکے۔ اب ہر کوئی اقبال دیوان تھوڑی ہے کہ ایسی بائیوگرافی لکھ ڈالے جس سے کئی کالم جنم لے سکیں۔

اردو کے منفرد لکھاری محمد خالد اختر نے اپنے ایک دلچسپ مضمون میں ایک کردار کی زبانی بتایا کہ اس نے سمرسٹ ماہم اور تین چار دیگر انگریزی کے ادیبوں کی کہانیوں کے ٹکڑے لے کر ایک کہانی بنا ڈالی، اسے ایک اردو ادبی جریدے میں بھیج دیا۔ جریدے میں وہ کہانی ایک شاندار تعریفی نوٹ کے ساتھ چھپ گئی۔ وہ ادیب چوڑا ہو کر ہر ادبی اجلاس میں پہنچ جاتا اور تعریف وصول کرتا۔ یہ اور بات کہ اگلے شمارے میں ایک پرانے کہنہ مشق، محقق مزاج نقاد کا مضمون چھپا جس نے ان تمام انگریزی کے ادیبوں کے اصل ٹکڑے نقل کرکے بتایا کہ کس طرح ادبی سرقہ کیا گیا۔ مصنف پر تو گویا بجلی گر گئی۔ وہ کئی دنوں تک گھر سے ہی نہ نکلا اور قسم کھائی کہ جب تک اس محقق نقاد جیسے منحوس زندہ ہیں، تب تک کوئی ادبی مضمون یا کہانی نہیں لکھنی۔

آج کے دور میں قلم سے کمانے والے ہم معصوم، نمانے لکھاریوں کا المیہ زیادہ بڑا ہے کہ اب واسطہ مصنوعی ذہانت سے ہے۔ ان ایپس سے ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بہتر ہوں گی، ان کی پرفارمنس، ایکوریسی بہتر سے بہترین ہوتی جائے گی۔ اس لیے ان کے فنا ہونے کی امید یا توقع لاحاصل ہے، اپنے آپ ہی کو بہتر بنانا ہوگا۔ زیادہ تخلیقی، زیادہ محنتی، زیادہ مرتب، انسانی دماغ کا مقابلہ مصنوعی ذہانت سے ہے۔ دیکھیں مقابلہ کس راؤنڈ تک جاتا ہے؟ یہ بھی کہ فاتح کون ہوگا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

wenews جرمنی سوشل میڈیا کہانی لکھاری وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ابراہیم کی موت
  • سندھ کی تقسیم کی باتیں ایم کیو ایم خود کو زندہ رکھنے کیلئے کر رہی ہے، ناصر حسین شاہ
  • قومی ایئرلائن کی کراچی سے اڑان بھرنے والی پرواز میں فنی خرابی، وزیر بلدیات ناصرحسین بھی سوار
  • ایک کہانی جس کا انجام توقع کے برعکس نکلا
  • ایم ڈبلیو ایم سندھ کے تحت اجتماعی دعائے توسل و مجلس بسلسلہ وفات حضرت ام البنین (س) کا انعقاد
  • سندھ کا حق چھیننے پر ردعمل آئے گا: اسلام آباد چاہتا ہے تعلیم، بہبود آبادی کے حقوق اپنے پاس رکھے، اقدام غلط ہوگا، بلاول
  • این ایف سی ایوارڈ اور پسماندہ اضلاع
  • کراچی شہرکا المیہ
  • گٹر پر نہیں، ڈھکن کرپشن پر لگانا ہوگا، یاسر حسین