Jasarat News:
2025-12-05@23:33:09 GMT

بندگی ٔ بے غرض

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

میں: تم نے گزشتہ نشست میں اقبال کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بندگی کی غرض جنت کے انعام اور دوزخ کے عذاب کے ڈر سے ماورا ہونی چاہیے۔ لیکن یہ یقین دہانی تو خود اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعے کرائی ہے کہ جس نے ایمان لانے کے بعد دنیا میں نیک عمل کیے اسے انعام میں جنت عطا کی جائے گی اور وہ دوزخ سے بچا لیا جائے گا۔ اور مجھے اس بات پورا یقین ہے کہ میں جو بھی نیک عمل کروں گا، تو انعام میں خدا مجھے وہ سب کچھ دے گا جس کا اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔

وہ: لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمہیں یہ یقین کیوں ہے؟

میں: اس لیے کہ اللہ اس ساری کائنات کا خالق ہے، ہمارا پروردگار ہے، پالن ہار ہے، اسی نے مجھے پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز اس کے حکم کی تابع وپابند ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

ہے سزاوار کبریائی کا
وہی مالک ہے کل خدائی کا

اور دوسرے یہ کہ میں خدا اور اس کی بنائی ہوئی ہر شہ کے آگے عاجز ہوں اسی لیے اس کائنات کی تمام چیزوں کی طرح بحیثیت انسان میں بھی اس کا حکم ماننے کا پابند ہوں۔

اور سب سے اہم چیز جو مجھے ہر دم بندگی کی روش پر قائم رکھتی ہے کہ نہ مجھے اپنی زندگی پرکوئی اختیار ہے نہ موت پر۔ یعنی جب خود اپنی تخلیق میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے تو مجھے اپنے وجود پر اختیار کیسے ہوسکتا ہے؟ …

وہ: مگر اس تمام بے اختیاری کے باوجود تمہیں اس زندگی میں اپنے عمل پر پورا اختیار ہے اور اس اختیار کی جواب دہی کے بعد آخرت میں جزا وسزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہی وہ غرض ہے جو خدا کے مقام و مرتبے اور اس دنیا میں بندے کی حیثیت کی بنیاد پر اسے نیک عمل پر آمادہ اور برائی سے باز رکھتی ہے۔

میں: لیکن وہ ابتدائی سوال ابھی بھی جواب طلب ہے کہ کسی غرض کے بغیر بندگی کے لیے انسان کی آمادگی کیوں کر ممکن ہے؟

وہ: اصل میں بندگی مکمل سپردگی یعنی Complete Surrender اور سراپا عقیدت کا نام ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب بندے کو اس کائنات اور اس کے بنانے والے کی مقتدرت، خلاقیت، اور کاریگری کا مکمل ادراک ہوگا۔ بقول اسمٰعیل میرٹھی ؔ

ہر چیز سے ہے تیری کاریگری ٹپکتی
یہ کارخانہ تونے کب رائیگاں بنایا

اور مشکل یہ ہے کہ آج کے انسان کے پاس اس خلاقی اور کاریگری کو دیکھنے، سمجھنے، غورو فکر کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ وہ اقبال نے کہا ہے نا

حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے

میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ انسان صرف اس کائنات میں موجود اشیاء و عناصر، چرند پرند، ہوا، اشجار، دریا، پہاڑ، آسمان اور بادل اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ فقط ان کو ہی اپنے مشاہدے میں لا کر عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کرے تو شاید اس کے سامنے خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں موجود کیمیا گری اور حکمت کا کوئی راز افشا ہوجائے۔ پھر وہ اس تخلیق کے سامنے خود کو عاجز سمجھتے ہوئے بندگی کا فریضہ بجالائے؟

وہ: لیکن ذرا تم ہی بتائو تمہاری اور میری زندگیوں میں یہ مرحلہ ٔ حیرانی کتنی بار آیا ہے؟

میں: شاید ایک بار بھی نہیں بقول میرؔ

سرسری تم جہان سے گزرے

ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

مگر تمہاری اس بات سے میرے ذہن میں ایک اور بات آرہی ہے، کیا اس کی وجہ وہ نظام ِفکر اور طریقۂ علم ہے جو بہت کچھ پڑھنے اور سیکھ جانے کے بعد بھی مجھے حیران نہیں کررہا ہے، میری نیندیں نہیں اڑا رہا، مجھے بے کل نہیں کررہا، میری کسی ایسے لمحہ ٔ فکر کی طرف رہنمائی نہیں کررہا جہاں سے میں اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی جستجو خود سے کرسکوں۔

وہ: تمہاری بات درست ہے کیوںکہ آج کا ہر شعبۂ علم فرد میں صرف ڈگری کے حصول کی جوت جگاتا ہے اور اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا اس کی آخری منزل قرار پاتا ہے۔ یعنی آج کی درس گاہیں ایک جیسی اُن مختلف فیکٹریوں کی طرح ہیں جہاں سے انسان کی شکل میں لاتعداد مشینیں ہرسال ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بن کرنکل رہی ہیں جو سوچنے سمجھنے سے عاری، خود کو خدا کا بندہ سمجھنے اور ماننے سے انکاری اور اپنے مقصد ِ وجود کو جاننے سے قاصر ہیں۔ بقول اقبالؔ

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہوکہ انسان کو اپنے علم اور شعور کے ذریعے خدا کی قدرت اور اپنی کم مائیگی کا ادراک رکھتے ہوئے کسی غرض اور لالچ کے بغیر بندگی کا فرض ادا کرنا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسان غرض کا بندہ ہے اور خدا نے اسی سرشت پر اسے تخلیق کیا ہے۔ اسی لیے نفس کو مرغوب اشیا کے ذریعے اسے نیک عمل کی ترغیب دلائی اور آگ میں جلنے اور سزا کا خوف دلا کر برائی سے رکنے کا درس دیا۔ تو پھر اگر میں انعام کی لالچ اور آگ کی لپٹ سے بچنے کے لیے ربّ کی بندگی کررہا ہوں تو اس میں حر َج کیا ہے؟ جبکہ آج کے انسان کا حال تو یہ ہے کہ وہ کسی غرض کے لیے بھی بندگی کا روادار نہیں ہے اور تم بے غرض بندگی کی بات کررہے ہو۔

وہ: میں نے کب کہا کہ اس میں کوئی حر َج ہے یا ایسا کرنا کسی ضرر کا باعث ہے، بندگی کے انعام میں جنت میں گھر تو سراسر منافع کا سودا ہے۔ اور رہی بات آج کے انسان کی تو وہ تو خود کو خدا کا بندہ ہی ماننے سے انکاری ہے توکیا غرض اور کیا بے غرض بندگی۔ اگر غور کرو تو یہ fan following کا دور ہے۔ آج کا انسان خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنی بنائی ہوئی سوشل میڈیا کی دنیا میں رہ رہا ہے اور وہ اس دنیا میں کسی بھی فرد کے اچھے کاموں یا اکثر مواقع پر خرافات سے متاثر ہو کر اپنی کسی ذاتی غرض اور فائدے کے بغیر اس کا فین بن جاتا ہے۔ میں چوبیس گھنٹے اس خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں آزادی سے سانس لے رہا ہوں، انواع واقسام کی اشیا سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی آسان سے آسان بنا رہا ہوں، مگر میں خدا کو ایک لمحے کے لیے بھی اپنے شب وروز میں شامل کرنے، اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اور بات وہیں آکر ختم ہوجاتی ہے، اصل میں آج کا سماج، آج کی تعلیم، آج کی اقدار مجھے اللہ میاں کا فین نہیں بنارہی بلکہ انسان کو خود اسی کا فین بنانے کی طرف مائل کررہی ہے۔ کیوں کہ اللہ میاں کا فین بننے کے لیے اس کا بندہ بننا پڑے گا اور یہ کام تو نفس پر بڑاں گراںگزرتا ہے۔ بقول مولانا حالیؔ

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

شرَفِ عالم سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی بنائی ہوئی اس دنیا میں کہ انسان کا بندہ نیک عمل کا فین کیا ہے ہے اور کے لیے اور اس خدا کی

پڑھیں:

کسی عمل کو معمولی نہ سمجھیے!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اعمال کے مختلف درجات ہیں۔ ان کے اعتبار سے ان پر حاصل ہونے والے اجر وثواب یا سزا و عذاب کے درجات بھی مختلف ہیں۔ کسی نیک عمل پر بڑے اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو کسی پر اس سے کم تر اجر وثواب کا۔ اسی طرح کسی گناہ کے کام پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے تو کسی پر اس سے کم تر عذاب کی۔ لیکن یہ بڑی نادانی کی بات ہوگی کہ کم تر اجروثواب والے عمل کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اس پر توجہ نہ دی جائے اور معمولی گناہ کو ہلکا سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرلے، وہ انسان کو روزِ قیامت سرخ رو کرسکتا ہے، خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ اور جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہو، وہ انسان کے لیے موجبِ ہلاکت ہوسکتا ہے خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور ہلکا کیوں نہ ہو۔ احادیث میں اس پہلو پر بہت زور دیا گیا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کرامؓ کو بہ تاکید نصیحت فرمائی ہے کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو‘‘ (مسلم، ترمذی، سنن ابی داؤد، مسنداحمد)۔
خندہ پیشانی سے پیش آنا: سیدنا ابوذر غفاریؓ بڑے جلیل القدر اور قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیؐ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو (مسلم)۔
کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا بظاہر ایک بہت معمولی عمل ہے۔ بسااوقات ہم میں سے کسی کی بھی توجہ اس طرف نہیں جاتی۔ لیکن عملی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی سے گفتگو کرنا یا اس سے کچھ دریافت کرنا چاہیں اور وہ ہماری طرف التفات نہ کرے یا ترش روئی کے ساتھ جواب دے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر بات کرنے والا یا کچھ دریافت کرنے والا سماجی اعتبار سے کم مرتبے کا ہے تو جواب دینے والا اس کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے اور اس کے چہرے پر وہ انبساط نہیں آتا جو مطلوب ہے۔ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے اس حال میں ملے کہ اس کے چہرے پر تکبر اور رعونت کے آثار ہوں یا وہ بالکل سپاٹ اور انبساط، محبت اور اپنائیت کے احساسات سے عاری ہو۔
سیدنا ابوجری جابر بن سُلیم الھجیمیؓ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک وفد کے ساتھ آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ ہمیں کچھ کارآمد باتوں کی نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارے اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی انڈیلنا ہو، یا تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ گفتگو کرنا ہو (مسنداحمد)۔

دوسری روایت میں ابتدائی الفاظ یہ ہیں: کوئی نیک کام کرنے میں بخل سے کام نہ لو۔
ہجیمی صحابی ہی سے مروی دوسری روایت میں کسی قدر تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرتؐ سے اچھے کاموں کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:
اچھے کاموں میں سے کسی کام کو معمولی نہ سمجھو خواہ یہ کام ہوں: کوئی چیز باندھنے کے لیے رسّی دینا، جوتے کا تسمہ دینا، اپنے برتن سے پانی کسی پیاسے کے برتن میں انڈیلنا، راستے سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے والی کوئی چیز ہٹادینا، اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا، ملاقات کے وقت اپنے بھائی کو سلام کرنا، بدکنے والے جانوروں کو مانوس کرنا (مسند احمد)۔
حدیثِ بالا میں جن کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ دیکھنے میں بہت معمولی ہیں۔ روزمرہ کی ضرورت کی چیز کسی کو دینا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا، خوش روئی کے ساتھ کسی سے گفتگو کرنا اور اس طرح کے دیگر کام یوں تو بہت معمولی نوعیت کے ہیں۔ اتنے معمولی کہ بسااوقات ان کی طرف ذہن بھی نہیں جاتا۔ لیکن سماجی اور اخلاقی حیثیت سے ان کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس لیے انھیں نظرانداز کرنا اور خاطر میں نہ لانا درست رویہ نہیں ہے۔

سادگی سے دعوت اور معمولی تحفے کو حقیر جاننا: عموماً کسی کو دعوت اس موقع پر دی جاتی ہے یا کسی کو کھانا اس وقت کھلایا جاتا ہے جب گھر میں معیاری اور اچھے کھانے کا اہتمام ہو، ورنہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ کھانے کے معیار کو کھلانے والے کی سماجی حیثیت سے جوڑا جاتا ہے۔ آدمی کسی کو گھر کا عام معیار کا کھانا کھلانے میں اپنی سب کی محسوس کرتا ہے۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کھانے والے اس کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں بنائیں اور کیسے کیسے تبصرے کریں؟ اسی طرح جس کو دعوت دی جاتی ہے وہ بھی کھانے کے معیار کو دعوت دینے والے سے اپنے تعلق کا پیمانہ بناتا ہے۔ دعوت کا زبردست اہتمام اس کے نزدیک قربت اور تعلقِ خاطر پر دلالت کرتا ہے اور اس کا عدم اہتمام تعلقات میں سرد مہری کا پتا دیتا ہے۔ یہی معاملہ تحفے کے لین دین کا بھی ہے۔ تحفہ دینے والے اور تحفہ لینے والے، دونوں کی نظر اس کے معیار اور مالیت پر ہوتی ہے۔ قیمتی تحفے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور معمولی اور کم قیمت تحفے کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اللہ کے رسولؐ نے اس رجحان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ اصل اہمیت دعوت یا تحفے کو دینی چاہیے نہ کہ اس کے معیار کو۔ اس لیے کہ ایک دوسرے کو دعوت دینے سے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا ہے اور تحائف کا تبادلہ کرنے سے باہم محبت بڑھتی ہے۔ صحابیِ رسولؐ سیدنا جابرؓ کی خدمت میں کچھ دوسرے صحابہ ملنے آئے۔ اس وقت ان کے گھر میں صرف روٹی اور سرکہ موجود تھا۔ انھوں نے وہی ان کے سامنے پیش کردیا اور کہا: میں نے اللہ کے رسولؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
بہترین سالن سرکہ ہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس کے پاس اس کے کچھ بھائی آئیں تو اس وقت اس کے گھر میں جو کچھ کھانے کو موجود ہو، اسے ان کے سامنے پیش کرنے میں شرمائے اور ان لوگوں کے لیے بھی ہلاکت ہے جو اس معمولی کھانے کو، جو ان کے سامنے پیش کیا جائے، حقارت سے دیکھیں (مسنداحمد)۔

ایک دوسری حدیث سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ کا ارشاد ہے: اگر مجھے کھانے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا خواہ کھانے میں دست ہو یا پائے۔ اور اگر مجھے تحفہ دیا جائے تو قبول کرلوں گا خواہ تحفہ میں دست ہو یا پائے (بخاری)۔
شاید عورتوں میں یہ جذبہ دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ کسی کو کھانا کھلانا یا کسی کے یہاں کھانے کی کوئی چیز بھیجنا اس وقت پسند کرتی ہیں جب ان کے یہاں اہتمام ہو۔ دوسری صورت میں انھیں اپنی حیثیت مجروح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے یہاں پڑوس سے کھانے کی کوئی معمولی چیز آگئی تو وہ اسے پسند نہیں کرتیں اور اس میں اپنی تحقیر محسوس کرتی ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کتنی ہی معمولی چیز کیوں نہ ہو، نہ اسے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے یہاں بھیجنے میں شرمانا چاہیے اور نہ جس کے یہاں وہ بھیجی گئی ہو، اسے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ فرمایا کرتے تھے:
اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو حقارت سے نہ دیکھے خواہ تحفہ میں بھیجی جانے والی چیز بکری کا کھُر ہو (مسلم)۔
معمولی اور حقیر گناہ موجبِ ہلاکت: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اچھے کاموں میں سے کسی کام کو حقیر اور معمولی سمجھ کر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے اسی طرح بُرے اور گناہ کے کاموں میں سے بھی کسی کام کو معمولی سمجھ کر اس کے ارتکاب پر جری نہیں ہونا چاہیے۔ بُرا کام بُرا ہے خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا اور رائی کا ایک ایک دانہ جمع ہوکر پہاڑ بن جاتا ہے اسی طرح اگر انسان معمولی گناہوں سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہ کرے تو معمولی معمولی بہت سے گناہ اکٹھا ہوکر اس کے لیے موجب ہلاکت بن جائیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ وہ اکٹھا ہوکر انسان کے لیے موجب ہلاکت بن سکتے ہیں (مسنداحمد)۔

اسی بات کو آں حضرتؐ نے ایک تمثیل کے ذریعے سمجھایا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ ایک بیابان میں ٹھیرے۔ وہاں انھیں کھانا پکانے کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑی۔ تمام لوگ منتشر ہوگئے اور ایک ایک آدمی ایک ایک لکڑی لے آیا۔ اس طرح انھوں نے ڈھیر سا ایندھن اکٹھا کرلیا اور اس کے ذریعے کھانا تیار کرلیا۔ اسی طرح کہنے کو تو ایک بہت معمولی سا گناہ ہوتا ہے لیکن ایک ایک کرکے انسان بہت سے گناہوں میں لت پت ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہلاکت اور خسران اس کا مقدر بن جاتا ہے (مسنداحمد)۔
دنیا کی کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انسان جو کچھ یہاں کرتا ہے، سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے اور اس کے مقرر کردہ فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں:
اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو، اس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو (یونس: 16)۔
قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں انسان کا نامۂ اعمال اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس کا معمولی سے معمولی عمل بھی خواہ وہ نیکی کا ہو یا گناہ کا، اس میں درج ہوگا اور اس کے مطابق اس کے ساتھ برتائو کیا جائے گا:
پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا (الزلزال: 7-8)۔
اسی لیے اللہ کے رسولؐ صحابہؓ کو معمولی معمولی گناہوں سے بھی بچنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے اور انھیں ہوشیار کرتے تھے کہ بارگاہِ الٰہی میں ان کا بھی حساب دینا ہوگا۔ اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
اے عائشہ! معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ اللہ کے یہاں ان کا بھی حساب ہوگا (مسنداحمد، سنن ابن ماجہ)۔

محمد رضی الاسلام ندوی گلزار

متعلقہ مضامین

  • ابراہیم کی موت
  • کسی عمل کو معمولی نہ سمجھیے!
  • آئی ایل ٹی20 ،دبئی کیپیٹلز کے کپتان داسون شناکااگلے میچ کے لیے پر عزم
  • بیوی کے قاتلوں کو گرفتار کرکے مجھے تحفظ فراہم کیاجائے، ایڈووکیٹ رسول بخش
  • انسانی علم متروک ہونے والا ہے، حیران کن پیشگوئی
  • بگ بیش لیگ میں اپنا بہترین کھیل پیش کرنے کی کوشش کروں گا، محمد رضوان
  • خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا
  • میڈیا نے میری والدہ سری دیوی کی موت کو میم بنا دیا، اداکارہ جھانوی کپور کی سخت تنقید
  • مجھے ہر جنگ رُکوانے پر نوبیل انعام ملنا چاہیے لیکن میں لالچی نہیں بننا چاہتا: ٹرمپ