بھارتی رویے کے باعث 11 سال سے سارک کا عمل جمود کا شکار ہے، صدر مملکت
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
اسلام آباد:
صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ بھارت کی عدم شرکت کے باعث گزشتہ 11 برس سے سارک کا عمل جمود کا شکار ہے، بھارت کا رویہ مؤثر علاقائی تعاون میں بڑی رکاوٹ ہے۔
سارک چارٹر ڈے کی 40ویں سالگرہ کے موقع پر صدر مملکت نے پیغام دیتے ہوئے جنوبی ایشیائی خطے کے عوام و حکومتوں کو مبارکباد دی۔
صدر مملکت نے کہا کہ اسلام آباد نے چوتھے اور بارہویں سارک سربراہ اجلاس کی میزبانی کی لیکن انیسواں اجلاس 2016 میں بھارت کی عدم شرکت کے باعث ملتوی ہوا۔ گزشتہ 11 برس سے سارک کا عمل جمود کا شکار ہے۔
صدر زرداری نے کہا کہ بھارت کا رویہ مؤثر علاقائی تعاون میں بڑی رکاوٹ ہے، خطے کی ترقی اور امن غیر ضروری طور پر تعطل کا شکار ہے۔ سارک کے متبادل نئے علاقائی فریم ورک پر غور بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور چین کی شمولیت سے علاقائی رابطہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان جامع، تعاون پر مبنی علاقائی نظام کے لیے پُرعزم ہے۔ تجارت، ٹرانزٹ اور توانائی کے روابط کے فروغ کے لیے تیار ہیں۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ خطے کے مسائل مشترکہ ہیں، حل بھی مشترکہ ہونے چاہئیں۔ باہمی احترام اور تعاون سے خطہ زیادہ پرامن اور خوشحال بن سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا شکار ہے صدر مملکت
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر: اقوامِ متحدہ کی ہوشربا رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251208-03-2
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ریاستی جبر کوئی نئی بات نہیں، لیکن نریندر مودی کے دورِ اقتدار نے اس تاریک تاریخ میں سفاکیت اور انسانیت سوز رویّوں کا ایسا اضافہ کیا ہے جس پر عالمی برادری بھی اب خاموش نہیں رہ سکتی۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی حالیہ رپورٹ نے اس ظلم کی وہ پرتیں کھولی ہیں جنہیں دہائیوں سے بھارتی پروپیگنڈا اور میڈیا سنسرشپ کے پردوں میں چھپایا جاتا رہا ہے۔ مودی سرکار کی حکومت، جس کی بنیاد ہندو انتہا پسندی اور طاقت کے زعم پر قائم ہے، نے پوری وادی کو ایک ایسی جیل میں بدل دیا ہے جہاں سانس لینا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ پہل گام حملے کے بعد بھارتی اقدامات کے نام پر جو کارروائیاں کی گئیں، وہ کسی جمہوری ملک کی نہیں بلکہ ایک جابرانہ ریاست کی نشانی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے مناسب الفاظ میں جس تشویش کا اظہار کیا ہے، وہ دراصل اس حقیقت کی گونج ہے کہ جموں و کشمیر انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا میدان بن چکا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی موجودگی اور عالمی نظرثانی کے باوجود بھارت نے جس بے حسی اور سنگدلی کے ساتھ وہاں کے مقامی لوگوں کا بنیادی حق چھینا ہے، وہ مودی حکومت کے سفاک چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھارتی حکام نے انتہا پسندی کے نام پر 2,800 سے زائد افراد کو گرفتار کیا، جن میں انسانی حقوق کے محافظ، مقامی رہنما، صحافی اور نوجوان شامل ہیں۔ ان میں سے کئی افراد آج بھی بلاجواز نظربند ہیں، جب کہ تشدد، جعلی مقابلوں اور مشتبہ ہلاکتوں کا سلسلہ مودی حکومت کے اشارے پر جاری ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جنہیں کسی بھی حوالے سے سیکورٹی پالیسی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کشمیریوں کی آواز دبانے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہیں۔ مودی سرکار کے ہندو قوم پرست نظریات کے زیر ِ سایہ مسلمانوں اور کشمیری عوام کے خلاف نفرت کو حکومتی پالیسیوں کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں 1,900 مسلمانوں کی غیر قانونی ملک بدری، املاک کے انہدام، اور روز مرہ زندگی میں آئے روز ہونے والی ہراسانی کا ذکر صرف اعداد وشمار نہیں بلکہ ظلم کی وہ زندہ حقیقت ہے جسے دنیا اب مزید نظرانداز نہیں کر سکتی۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویہ صرف سماجی نفرت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھنے والی منظم مہم ہے، جس کا مقصد ایک کثیرالثقافتی ملک کو ہندو راج کی شکل دینا ہے۔ بھارت کی جانب سے رابطوں کی بار بار بندش، میڈیا پر قدغن، صحافیوں کی گرفتاری، اور انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی صرف اسی لیے ہے کہ سچ دنیا تک نہ پہنچ سکے۔ کسی بھی معاشرے میں صحافت کو خاموش کرنا ریاستی دہشت گردی کی سب سے بھیانک مثال ہے اور مودی حکومت نے اس ہتھیار کو بار بار استعمال کیا ہے۔ آج کشمیر دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں سچ بولنا جرم اور سچ سننا ناقابل ِ معافی گناہ قرار دے دیا گیا ہے۔ بھارتی انسدادِ دہشت گردی قوانین کا اصل مقصد دہشت گردی روکنا نہیں بلکہ ریاستی جبر کو قانونی لبادہ پہنانا ہے۔ ان قوانین کے تحت نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کر دینا، بغیر مقدمے کے برسوں جیلوں میں رکھنا، اور جب چاہے جھوٹے الزامات لگا دینا معمول بن چکا ہے۔ عالمی تنظیمیں بارہا کہہ چکی ہیں کہ یہ قوانین بھارت کے آئین، بین الاقوامی انسانی حقوق کے منشور اور بنیادی انصاف کے اصولوں سے براہ راست متصادم ہیں، لیکن مودی حکومت اپنی سیاسی بقا کے لیے ان قوانین کو استحصال کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔ کشمیری 75 سال سے ظلم سہنے کے باوجود آزادی کی امید پر جدوجہد جارہے رکھے ہوئے ہیں اور پرعزم ہیں۔ بھارت جتنا بھی جبر کرے، رابطے بند کرے، آوازیں دبائے، یا نوجوانوں کو لاپتا کرے،کشمیر کی مزاحمت آج بھی اسی مضبوطی سے کھڑی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے جس خوفناک صورتحال کی نشاندہی کی ہے، وہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر کا معاملہ محض سرحدی تنازع نہیں، یہ انسانیت، انصاف، اور بنیادی حقوق کی جنگ ہے۔ بھارتی ظلم و جبر کے مقابلے میں کشمیریوں کا حوصلہ آج بھی بلند ہے، اور جب تک وادی میں آزادی کی خواہش کا چراغ روشن ہے، ظلم کی یہ سیاہ رات ختم ہوکر رہے گی۔ ظلم کی حکومت کبھی قائم نہیں رہتی اور مودی سرکار کی سفاک پالیسیوں کا انجام بھی اسی اصول کے مطابق تاریخ کے کوڑے دان میں لکھا جائے گا۔