روہنگیا مسلمان۔۔۔۔۔ کہاں جائیں
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ برما کے رہنماﺅں کا اقلیتی روہنگیا کیخلاف یہ رویہ سیاسی وجوہات کے باعث ہے۔ روہنگیا بے حد چھوٹی اقلیت ہیں اور عوامی جذبات اُنکے خلاف ہیں، لہٰذا حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی اُنکی مدد کیلئے تیار نہیں۔ برما کے یہ حالات نہ صرف مسلمانوں، بلکہ پوری دُنیا کے انسانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، کسی انسان کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کو چاہیئے کہ وہ برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور برمی مسلمانوں کے تحفظ کے تمام سفارتی ذرائع بروئے کار لائے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
روہنگیا کے مسلمانوں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور انہیں دور دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ان کی دربدری کی مشکلات دیکھ کر دل کڑتا ہے۔ غزہ سمیت کئی علاقوں میں مسلمانوں کی حالت زار پر کہیں نہ کوئی ردعمل سامنے آتا ہے، لیکن میانمار کے مسلمانوں کو ہم نے مکمل نظرانداز کر رکھا ہے۔ ان مسلمانوں کی حالت زار سن کر کسی بھی مسلمان ملک یا ادارے سے کوئی موثر آواز سامنے نہیں آرہی۔ دوسری طرف میانمار حکومت عالمی برادری سے مسلسل ٹال مٹول کر رہی ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ میانمار کی فوجی جنتا نے ملک میں بغاوت کے چار سال مکمل ہونے سے ایک دن پہلے ہنگامی حالت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ میانمار اس وقت مختلف علاقوں میں خانہ جنگی میں مصروف ہے۔
دوسری طرف روہنگیا مسلمان، جنہیں فوج اور انتہاء پسند بدھسٹوں کے پرتشدد اور مہلک حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی درخواست کے باوجود میانمار کی فوجی حکومت ان کے مسائل کے حل کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت بھی اس ملک کی حکومت کے ساتھ بنگلہ دیش سے آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی واپسی پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ اس صورتحال نے بنگلہ دیشی حکومت کو روہنگیا پناہ گزینوں کو، جن کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے، کو دور دراز جزیروں کے کیمپوں میں بھیجنے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔
میانمار میں خانہ جنگی کے نتیجے میں تیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر روہنگیا مسلمان ہیں، جو میانمار کے مختلف حصوں اور خطے کے ممالک بشمول بنگلہ دیش، ملائیشیا، بھارت، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں زندگی کے دشوار ایام گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، میانمار کی فوجی حکومت پر نسل کشی کا الزام لگاتے ہوئے، میانمار میں پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دریں اثنا، اقوام متحدہ نے میانمار میں خانہ جنگی کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنے پر زور دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ متحارب فریقوں کے درمیان موجودہ صورت حال غیر موثر ہے اور انہیں اس ذہنیت پر قابو پانا چاہیئے اور میانمار کے عوام کے مسائل کے حل میں مدد کرنی چاہیئے۔ بے گھر افراد کو دربدری برداشت کرنے کے علاوہ متعدد معاشی اور خوراک کے مسائل کا بھی سامنا ہے، جس سے خواتین اور بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
اگرچہ میانمار کی فوجی حکومت نے اس سال انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی واضح نقطہ نظر سامنے نہیں ہے، کیونکہ فوج نے میانمار میں انتخابات کے انعقاد کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی ہے اور یہ صرف علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے الیکشن کرانے کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ ممکنہ فوجی انتخابات کے نتائج پہلے ہی معلوم ہوچکے ہیں، اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ ایسے انتخابات اس ملک کے عوام کی مرضی کے خلاف ہوں گے اور وہ انہیں قبول نہیں کریں گے، اس لیے انہوں نے علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں سے کہا ہے کہ ایسے انتخابات کے نتائج کے اعلان کو قبول نہیں کرتے۔ بہرحال، میانمار کی ایک تہائی آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور ملک پر حکمرانی کرنے والی فوج پر دباؤ ڈالنے کا واحد راستہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) ہے۔
میانمار اس کے دس ارکان میں سے ایک ہے، لیکن چونکہ یونین اپنے قانون کے مطابق اپنے ارکان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، اس لیے میانمار کی فوجی حکومت پر اثر و رسوخ رکھنے والے واحد ممالک چین اور کسی حد تک بھارت ہیں، جن سے میانمار کے لوگ اپنے مسائل کے حل کی توقع رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برما کے رہنماﺅں کا اقلیتی روہنگیا کے خلاف یہ رویہ سیاسی وجوہات کے باعث ہے۔ روہنگیا بے حد چھوٹی اقلیت ہیں اور عوامی جذبات اُن کے خلاف ہیں، لہٰذا حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی اُن کی مدد کے لئے تیار نہیں۔ برما کے یہ حالات نہ صرف مسلمانوں، بلکہ پوری دُنیا کے انسانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، کسی انسان کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کو چاہیئے کہ وہ برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور برمی مسلمانوں کے تحفظ کے تمام سفارتی ذرائع بروئے کار لائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میانمار کی فوجی حکومت میانمار میں اقوام متحدہ میانمار کے تیار نہیں سے کوئی ہے اور
پڑھیں:
بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
کراچی:’’یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘ جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم منیجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔
تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کے لیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کو جانے کا کہہ دیا، انہیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا، بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو انہیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا، اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بیحد منفی رہا، بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے، اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی۔
نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا، پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔
پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہوگی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے، شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے، پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا۔
البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟ کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جا رہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا، ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی۔
جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں، جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے، ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرنا ہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔
اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں، البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے، ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟ ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟۔
آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے، پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا، فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل رائونڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا۔
صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا، بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آئوٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے، یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہوگیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔
کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔