Islam Times:
2025-04-25@05:51:33 GMT

روہنگیا مسلمان۔۔۔۔۔ کہاں جائیں

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

روہنگیا مسلمان۔۔۔۔۔ کہاں جائیں

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ برما کے رہنماﺅں کا اقلیتی روہنگیا کیخلاف یہ رویہ سیاسی وجوہات کے باعث ہے۔ روہنگیا بے حد چھوٹی اقلیت ہیں اور عوامی جذبات اُنکے خلاف ہیں، لہٰذا حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی اُنکی مدد کیلئے تیار نہیں۔ برما کے یہ حالات نہ صرف مسلمانوں، بلکہ پوری دُنیا کے انسانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، کسی انسان کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کو چاہیئے کہ وہ برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور برمی مسلمانوں کے تحفظ کے تمام سفارتی ذرائع بروئے کار لائے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

روہنگیا کے مسلمانوں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور انہیں دور دور تک  امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ان کی دربدری کی مشکلات دیکھ کر دل کڑتا ہے۔ غزہ سمیت کئی علاقوں میں مسلمانوں کی حالت زار پر کہیں نہ کوئی ردعمل سامنے آتا ہے، لیکن میانمار کے مسلمانوں کو ہم نے مکمل نظرانداز کر رکھا ہے۔ ان مسلمانوں کی حالت زار سن کر کسی بھی مسلمان ملک یا ادارے سے کوئی موثر آواز سامنے نہیں آرہی۔ دوسری طرف میانمار حکومت عالمی برادری سے مسلسل ٹال مٹول کر رہی ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ میانمار کی فوجی جنتا نے ملک میں بغاوت کے چار سال مکمل ہونے سے ایک دن پہلے ہنگامی حالت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ میانمار اس وقت مختلف علاقوں میں خانہ جنگی میں مصروف ہے۔

دوسری طرف روہنگیا مسلمان، جنہیں فوج اور انتہاء پسند بدھسٹوں کے پرتشدد اور مہلک حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی درخواست کے باوجود میانمار کی فوجی حکومت ان کے مسائل کے حل کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت بھی اس ملک کی حکومت کے ساتھ بنگلہ دیش سے آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی واپسی پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ اس صورتحال نے بنگلہ دیشی حکومت کو روہنگیا پناہ گزینوں کو، جن کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے، کو دور دراز جزیروں کے کیمپوں میں بھیجنے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

میانمار میں خانہ جنگی کے نتیجے میں تیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر روہنگیا مسلمان ہیں، جو میانمار کے مختلف حصوں اور خطے کے ممالک بشمول بنگلہ دیش، ملائیشیا، بھارت، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں زندگی کے دشوار ایام گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، میانمار کی فوجی حکومت پر نسل کشی کا الزام لگاتے ہوئے، میانمار میں پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دریں اثنا، اقوام متحدہ نے میانمار میں خانہ جنگی کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنے پر زور دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ متحارب فریقوں کے درمیان موجودہ صورت حال غیر موثر ہے اور انہیں اس ذہنیت پر قابو پانا چاہیئے اور میانمار کے عوام کے مسائل کے حل میں مدد کرنی چاہیئے۔ بے گھر افراد کو دربدری برداشت کرنے کے علاوہ متعدد معاشی اور خوراک کے مسائل کا بھی سامنا ہے، جس سے خواتین اور بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

اگرچہ میانمار کی فوجی حکومت نے اس سال انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی واضح نقطہ نظر سامنے نہیں ہے، کیونکہ فوج نے میانمار میں انتخابات کے انعقاد کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی ہے اور یہ صرف علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے الیکشن کرانے کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ ممکنہ فوجی انتخابات کے نتائج پہلے ہی معلوم ہوچکے ہیں، اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ ایسے انتخابات اس ملک کے عوام کی مرضی کے خلاف ہوں گے اور وہ انہیں قبول نہیں کریں گے، اس لیے انہوں نے علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں سے کہا ہے کہ ایسے انتخابات کے نتائج کے اعلان کو قبول نہیں کرتے۔ بہرحال، میانمار کی ایک تہائی آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور ملک پر حکمرانی کرنے والی فوج پر دباؤ ڈالنے کا واحد راستہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) ہے۔

میانمار اس کے دس ارکان میں سے ایک ہے، لیکن چونکہ یونین اپنے قانون کے مطابق اپنے ارکان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، اس لیے میانمار کی فوجی حکومت پر اثر و رسوخ رکھنے والے واحد ممالک چین اور کسی حد تک بھارت ہیں، جن سے میانمار کے لوگ اپنے مسائل کے حل کی توقع رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برما کے رہنماﺅں کا اقلیتی روہنگیا کے خلاف یہ رویہ سیاسی وجوہات کے باعث ہے۔ روہنگیا بے حد چھوٹی اقلیت ہیں اور عوامی جذبات اُن کے خلاف ہیں، لہٰذا حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی اُن کی مدد کے لئے تیار نہیں۔ برما کے یہ حالات نہ صرف مسلمانوں، بلکہ پوری دُنیا کے انسانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، کسی انسان کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کو چاہیئے کہ وہ برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز) کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور برمی مسلمانوں کے تحفظ کے تمام سفارتی ذرائع بروئے کار لائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میانمار کی فوجی حکومت میانمار میں اقوام متحدہ میانمار کے تیار نہیں سے کوئی ہے اور

پڑھیں:

متنازع کینالوں کے برعکس نیا پروجیکٹ، جس میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) جب گرین پاکستان انیشیٹو کا آغاز کیا گیا تو بعض ماہرین نے صوبوں کو پہلے سے مختص پانی، خصوصاً نئی نہروں کی تعمیر سے لاکھوں ایکڑ بنجر زمین سیراب کرنے کی فزیبلٹی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔ ان خدشات کو دور کرنے کیلئے آبی وسائل کے پاکستانی اور امریکی ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم کے ذریعے تحقیق کرائی گئی۔ اس ٹیم نے ایک اصلاحاتی حل پیش کیا جو آبپاشی کا ایک پائیدار، سرمایہ کاری کیلئے مؤثر اور وقت کے لحاظ سے موثر طریقہ ہے جو نئی نہروں کی تعمیر کے بغیر تمام وفاقی اکائیوں کے پانی کے حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے، اور وفاقی اکائیوں کے حصے کو متاثر کیے بغیر، یہ حل ان کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد بھی دے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، اس تحقیق اور اس کے نتائج کا بھی وہی حشر ہوا جو اب سے پہلے ہوتا آیا ہے۔ تحقیق مکمل ہوئی تو ماہرین کو معاہدے کے تحت 10؍ کروڑ روپے دیے گئے، لیکن ان کی رپورٹ کو داخل دفتر کر دیا گیا۔ ٹیم کی جانب سے متعدد مرتبہ پریزنٹیشن وغیرہ کیلئے رابطے کیے گئے لیکن حکومت کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس تحقیقی ٹیم کی قیادت امریکا کی مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی سے آبی وسائل اور ہائیڈرو لوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر حسن عباس نے کی جبکہ پاکستان کی زیزاک پرائیوٹ لمیٹڈ اور امریکا کی ہائیڈرو سیمولیٹکس انکارپوریٹڈ نے اس کام میں اشتراک کیا۔ یہ رپورٹ گزشتہ سال اپریل میں گرین پاکستان اینیشیٹیو کے کرتا دھرتائوں کو پیش کی گئی لیکن باضابطہ طور پر اب تک یہ رپورٹ جاری نہیں کی گئی کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رپورٹ پیش باضابطہ طور پر جاری کرنے کیلئے رپورٹ تیار کرنے والوں کی موجودگی ضروری ہوگی۔ ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ صوبوں کیلئے مختص کردہ پانی استعمال کیے بغیر اور ساتھ ہی متنازع چولستان کینال جیسی نئی مہنگی نہریں تعمیر کیے بغیر بنجر زمینیں سیراب کرنا ممکن ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • ںہروں کا مسئلہ حل، دھرنے ختم کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ
  • متنازع کینالوں کے برعکس نیا پروجیکٹ، جس میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں
  • لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
  • اڈیالہ جیل پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں: ملک احمد خان
  • مسلمانی کا ناپ تول
  • رشتہ ایک سرد مہری کا
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • بابراعظم دراصل کہاں غلطی کر رہے ہیں ؟ محمد عامرکا ناقص پرفارمنس پر مشورہ
  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں، کہاں بھاگ کر جائیں گے: سپریم کورٹ
  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں بھاگ کر کہاں جائیں گے، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ریمارکس