پاکستان بنگلہ دیش ، محبتیں اور قربتیں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
صدر مرکزی مسلم لیگ ( پنجاب )
پاکستان اور بنگلہ دیش ۔۔۔ دو بھائی ہیں جو بچھڑ گئے تھے ۔ دونوں کے درمیان دشمنوں نے غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان تفریق اور خلیج حائل ہو گئی تھی لیکن چونکہ غلط فہمی کی بنیاد ہی غلط فہمی پر ہوتی ہے جس کی کچھ بھی حقیقت اور اصلیت نہیں ہوتی۔ جب حقیقت اور صداقت سامنے آئے تو غلط فہمی دور ہو جاتی ہے اور دل مل جاتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
دونوں بھائیوں کو باہم لڑانے میں بنیادی کردار ہمارے ازلی دشمن بھارت کا تھا۔ بھارت نے اختلافات کو ابھارنے اور ان میں ہوا بھرنے کے لیے شیخ مجیب الرحمن اور اس کے گماشتوں کو استعمال کیا۔ اگرچہ اس میں ذوالفقار علی بھٹو، جنرل یحییٰ خان اور مغربی پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کی بھی غلطیاں تھیں جنھیں تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو او ر یحییٰ خان نے اقتدار کی ہوس میں ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔ حالات کا ادراک نہ کیا اور جلتی پر مزید تیل ڈالا جس سے اختلافات شعلہ جوالہ بن گئے۔ شیخ مجیب نے رائی کا پہاڑ بنایا دونوں خطوں اور بھائیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کیں نتیجے میں دونوں بھائی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔
تاہم جلد ہی بنگالی بھائیوں نے اپنے دشمن شیخ مجیب الرحمن اور اس کے سرپرست بھارت کو پہچان لیا پھر شیخ مجیب 15اگست 1975ء کے دن اپنے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوا۔ شیخ مجیب کی دو بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ اس لیے بچ گئیں کہ وہ ملک سے باہر تھیں ۔ یاد رہے کہ 15اگست بھارت میں یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے جیسے ہی بھارت میں شیخ مجیب کے قتل کی خبر پہنچی ان کا یوم آزادی یوم سوگ میں بدل گیا۔ حالت یہ ہوئی ہے کہ شیخ مجیب کی لاش کئی دن تک بے گوروکفن پڑی رہی ۔ پھر بنگلہ دیش میں جنرل ضیاء الرحمن اور جنرل ارشاد جیسے پاکستان سے محبت کرنے والے اقتدار میں آتے رہے۔
ان ایام میں دونوں بھائی اس طرح سے ایک دوسرے کے قریب آگئے کہ گویا ان میں اختلافات کبھی بھی نہ تھے۔ وقت گزرتا رہا پھر ایک وقت آیا جب شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد اقتدار میں آگئی۔ کہنے کی حد تک اس خاتون کا نام ’’ حسینہ ‘‘ ہے لیکن عملاََ یہ خاتون اپنے کردار کے اعتبار کچھ اور ہی ہے ۔ حسینہ واجد کا شمار تاریخ کی ظالم اور سفاک ترین عورتوں میں ہوتا ہے اس نے اپنے دور اقتدار میں وہ مظالم ڈھائے کہ تاریخ آنے والے وقت میں اسے ظالم ترین عورت کے نام سے یاد کرے گی۔ اس خونخوار عورت نے بوڑھے، ضعیف، سفید ریش بزرگ بھی تختہ دار پر لٹکا دیے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں ڈال دیے گئے جن میں کئی ایسے نامور صحافی بھی تھے جو 1971ء میں شیخ مجیب کے ساتھ تھے۔ حسینہ واجد کا خیال تھا کہ وہ جبر اور ظلم کی بیساکھیوں کے سہارے ہمیشہ اقتدار میں رہے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ ظلم کو دوام اور بقا نہیں بقول ساحر لدھیانوی
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی صورت میں جو ظلم برپا تھا وہ مٹ گیا اور بہنے والا خون جم گیا یہ خون ۔۔۔ اب ظالموں سے حساب اور جواب مانگ رہا ہے۔ بیگناہ شہیدوں کا خون رنگ لے آیا ہے۔ حسینہ واجد بھارت نواز تھی، سیکولر تھی اور اسلام دشمن بھی تھی۔ اس نے بنگلہ دیش سے اسلام کی اعلیٰ روایات واقدار کو مٹانا چاہا تو بنگالی مسلمانوں نے اس کے اقتدار کو ہی مٹا ڈالا اور پاؤں نیچے روند ڈالا اور ثابت کردیا کہ وہ پکے سچے مسلمان ہیں، ان کے دلوں میں اسلام بستا ہے۔ حسینہ واجد کی تمام تر اسلام دشمنی کے باوجود بنگلہ دیشی عوام آج بھی اسلام سے محبت کرتے ہیں۔
ان کے دلوں میں آج بھی نظریہ پاکستان کی صداقت زندہ ہے۔ بنگلہ دیش میں ایسی حکومت اقتدار میں آچکی ہے جو انصاف پسند ہے، انسانی قدروں پر یقین رکھتی ہے اور پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے نگران ڈاکٹر محمد یونس ہیں جو نیک نام اور غریب پرور انسان ہیں، انھوں نے لاکھوں بنگالیوں کو روز گار مہیا کیا یہ اسی سالہ بزرگ ڈاکٹر یونس بھی حسینہ واجد کے عتاب کا شکار رہے اور قید وبند کی صعوبتیں اٹھاتے رہے ہیں۔
حسینہ واجد کے خلاف چلنے والی تحریک نے ڈھاکہ یونی ورسٹی سے جنم لیا۔ یہ تحریک یہاں سے ہی اٹھی، پلی بڑھی، جوان ہوئی پھر جلد ہی بنگلہ دیش کے گلی کوچوں اور بازاروں میں پھیل گئی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ 1971ء میں پاکستان مخالف احساسات اور رجحانات نے اسی یونی ورسٹی سے جنم لیا تھا۔ جس یونیورسٹی کو بھارت اور ہندو اساتذہ نے اپنے سازشوں کا مرکز بنایا تھا اسی یونی ورسٹی سے حسینہ واجد کے خلاف تحریک چلی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔
حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے فرار ہونے اور نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تیزی کے ساتھ محبتیں اور قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ مقام شکر ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک ایسی حکومت بر سر اقتدار آچکی ہے جو پاکستان سے محبت کرتی اور بھارت سے نفرت کرتی ہے۔ وہ تمام لوگ جو پاکستان کے ساتھ محبت کے جرم میں جیلوں میں بند تھے ۔۔۔۔ سب رہا کئے جا چکے ہیں۔
رہا ہونے والوں میں بیگم خالدہ ضیا بھی ہیں ۔ بیگم خالدہ ضیا کے شوہر جنرل ضیاء الرحمن پی ایم اے کاکول کے تربیت یافتہ تھے ان کے دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مثالی برادرانہ تعلقات قائم ہوئے یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے فوجی دستے ٹریننگ کیلئے پاکستان آتے تھے۔ ایک بہت ہی خوبصورت بات یہ ہوئی کہ بنگلہ دیش میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر سید احمد معروف نے اپنی اہلیہ سمیت بیگم خالدہ ضیا سے ڈھاکہ میں ان کی رہائش گاہ پر خوشگوار ماحول میں ملاقات کی جو نوے منٹ تک جاری رہی۔ سید احمد معروف نے بیگم خالدہ ضیا کی خیر وعافیت دریافت کی، ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کو بہتر بنانے پر تبادلہ خیالات ہوا وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کی طرف سے ان کو پیغام تہنیت بھی پہنچایا۔
نیشنل پریس کلب ڈھاکہ میں 12ستمبر کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کی مناسبت سے اردو شاعری اور گیتوں کے ساتھ ایک تقریب کا انعقاد ہوا جس میں ڈھاکہ میں تعینات پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کامران دھنگل کے علاوہ مقامی سیاستدانوں وکلا ، طلبہ ، صحافیوں ، سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر مستفیض الرحمن نے کلیدی مقالہ پڑھا جس نے انھوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی ، ان کی جد وجہد اور قیام پاکستان کے اسباب پر روشنی ڈالی۔ ایک دوسرے مقرر محمد شمس الدین نے کہا اگر 1947 ء میں بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کے طور پر آزاد نہ ہوتا تو آج ہماری حالت بھی مقبوضہ جموں کشمیر جیسی ہوتی جہاں ہندوستانی فوج ہتھیاروں اور اسلحے سے لیس ہر کشمیری پر بندوق تانے کھڑی ہے۔
انھوں نے مزید کہا نئی دھلی چاہتا تھا کہ ڈھاکہ میں علامہ اقبال ہال اور جناح ایونیو کے نام ختم کر دیے جائیں مگر ہم نے ایسا نہ ہونے دیا۔ معروف شاعر جعفرالحق جعفر نے اردو نظم کے ذریعے بانی پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا۔ بنگلہ دیش میں زیرِ تعلیم دو پاکستانی طلباء محمد طاہر اور کامران عباس نے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں اردو ترانے پیش کیے۔ الغرض بہت عرصے بعد پہلا موقع تھا کہ نیشنل پریس کلب ڈھاکہ میں قائد اعظم کی یاد میں شاندار اور پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا اور بانی پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ تمام مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بنگلہ دیش بھارت کے مقابلے میں چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرے۔
ڈھاکہ یونی ورسٹی کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اس مناسبت سے اب مزید نئی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ 13نومبر 2024ء کو یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد خان کی صدارت میں یونی ورسٹی سینیڈیکٹ کے اجلاس میں پاکستانی طلبہ کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس فیصلے کا مقصد دونوں ممالک کی نئی نسل کو ایک دوسرے کے قریب لانا، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا اور تعلیمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یونی ورسٹی حکام نے پاکستانی طلبہ کے لیے یونی ورسٹی کے دروازے ہی نہیں کھولے یوں سمجھیں کہ بنگالی عوام نے اہل پاکستان کے لیے دلوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی بنگلہ دیشی شہریوں اور طلبہ کیلئے ویزے کا حصول بہت آسان کر دیا گیا ہے۔ سمندری راستے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھی بحال ہو چکی ہے۔1971ء کے بعد پہلی دفعہ مال برادر جہاز کراچی سے چٹاگانگ بندر گاہ دس دن کی مختصر مدت میں پہنچا ہے۔
چٹاگانگ بندر گاہ پر لنگر انداز ہونے والے جہاز کا استقبال پاکستانی ہائی کمشنر اور بنگلہ دیشی حکام نے کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان سول رابطوں کے بعد فوجی رابطے بھی بحال ہو چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں بنگلہ دیش کے آ رمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹننٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے ایک وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا اور فوج کے ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں پاکستان کے آ رمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر سے ملاقات کی۔ آ رمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر اور جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے ملاقات کے دوران خطے کے بدلتے سکیورٹی حالات اور معاملات پر مفصل بات چیت کی اور دونوں ممالک کے درمیان مزید فوجی تعاون کی راہیں نکالنے پر غور کیا گیا۔ دونوں فوجی سربراہان نے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دفاعی تعاون کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان شراکت داری اور تعاون بیرونی اثرات سے بالاتر ہونی چاہیے۔
بنگلہ دیشی وفد نے بعد ازاں کراچی میں پاک بحریہ کے کمانڈر فلیٹ رئیرایڈمرل عبدالمنیب ، کمانڈر کوسٹ رئیرایڈمرل فیصل امین اور ایم ڈی کراچی شپ یارڈ رئیرایڈمرل سلمان الیاس سے بھی ملاقات کی۔ وفد نے پاک بحریہ کے جہازوں اور یونٹس کا بھی دورہ کیا۔ بنگلہ دیشی وفد نے پاک فضائیہ کے سربراہ سے بھی ملاقات کی اور جی ایف تھنڈر طیاروں کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی۔ دوطرفہ تعلقات میں گرم جوشی کے اس ماحول میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آئندہ ماہ ڈھاکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔
ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا یہ پہلا دورہ بنگلہ دیش ہو گا۔ اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کی بھی بنگلہ دیش کے حکومت کے نگران ڈاکٹر محمد یونس سے دوبار ملاقات ہوچکی ہے۔ ایک ملاقات قاہرہ میں ہوئی تھی اور دوسری ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی جس میں شہباز شریف نے ڈاکٹر محمد یونس کو پاکستان کے دورہ کی دعوت دی تھی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ میں بھارتی لابی بنگلہ دیش کی نئی حکومت پر پابندیاں لگوانے کیلئے متحرک ہو چکی ہے۔ بات صرف یہ نہیں کہ بھارت بنگلہ دیش کا دشمن بن چکا ہے بھارت پاکستان کا بھی ازلی دشمن ہے۔ اسی بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1971ء میں اپنے ملک کی لوک سبھا میں کہا تھا ’’ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘ آج اگر اندرا گاندھی زندہ ہوتی تو وہ دیکھتی کہ نظریہ پاکستان آج بھی زندہ ہے اور خلیج بنگال کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
آج مودی کو بھی یاد کرنا چاہئے کہ وہ7جون 2015ء کو جب اس نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو اس موقع پر اس نے پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی کردار کا اعتراف کیا تھا۔ اس موقع پر مودی نے جو گفتگو کی اس کا ایک ایک لفظ پاکستان دشمنی میں ڈوبا ہوا تھا۔ مودی کا کہنا تھا’’بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارتی فوجیوں کا خون بھی شامل ہے، ہمارے لوگوںنے بھی بنگلہ دیشیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کی، ہم مکتی باہنی کے ساتھ مل کر لڑے۔ ہمارے فوجیوں کے علاوہ عام ہندوو ں کا بھی بنگلہ دیش بنانے (پاکستا ن توڑنے ) میں حصہ ہے۔
بنگلہ دیش بنانے (پاکستان توڑنے کی تحریک) میں میں نے بھی بطور رضاکار حصہ لیا ۔ مودی نے اس دوران پاکستان توڑنے کی پرانی یادوںاور باتوں کو دھر اتے ہوئے یہ بھی بتایا ’’واجپائی نے اس کارنامے (پاکستان توڑنے) پر اندرا گاندھی کو درگا میئتا کا خطاب دیا تھا ۔ مودی کی اس تقریر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان دشمنی میں سرتاپا غرق ہے لہذا یہ وقت ہے کہ پاکستان سیاسی ، معاشی اور عسکری سطح پر بنگلہ دیش کے ساتھ دست تعاون دراز کرے اس میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش سارک پلیٹ فارم کو متحرک کریں تاکہ خطے میں بھارت کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان بیگم خالدہ ضیا کہ یونی ورسٹی بھی بنگلہ دیش حسینہ واجد کے بنگلہ دیش میں بانی پاکستان میں پاکستان بنگلہ دیشی پاکستان کے میں بھارت ملاقات کی پاکستان ا ڈھاکہ میں ایک دوسرے کیا گیا کے ساتھ دورہ کی ہے اور اور اس
پڑھیں:
پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور بھارت کے تعلقات قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک غیر یقینی حالات کا شکار رہے ہیں۔ سفارتی روابط سے لے کر ثقافتی منصوبوں تک، دونوں ممالک کے تعلقات بار بار بحال ہوئے اور پھر ٹوٹ گئے۔ یہی حال دو طرفہ معاہدات کا بھی رہا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد، جس کا الزام بھارت نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر پاکستان پر لگا دیا، نئی دہلی نے فوری طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ پاکستان کے درمیان اب تک کون کون سے معاہدے طے پاچکے ہیں؟
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد دریائے جہلم اور نیلم کی کیا صورتحال ہے؟
1950 کا نہرو-لیاقت معاہدہ:
یہ معاہدہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تھا جس میں دونوں ممالک نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ یہ معاہدہ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے تناظر میں طے پایا۔
1960 کا سندھ طاس معاہدہ:
سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا۔ یہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق تھا۔ اس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کو اور مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ 65 سال تک نافذ رہا اور جنگوں کے باوجود برقرار رہا لیکن اب مودی سرکار نے اسے معطل کردیا ہے۔
پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ، آگے کیا ہوسکتا ہے؟ سی این این کی رپورٹ آگئی
1972 کا شملہ معاہدہ:
یہ 1971 کی جنگ کے بعد طے پایا۔ شملہ معاہدہ دونوں ممالک کو باہمی طور پر مسائل حل کرنے کا پابند بناتا تھا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
مذہبی زیارات کا معاہدہ:
سنہ 1974 کے مذہبی زیارات کے پروٹوکول کے تحت دونوں ممالک کے زائرین کو ایک دوسرے کے ممالک میں مقدس مقامات پر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان میں 15 اور انڈیا میں پانچ مذہبی مقامات کیلئے ویزے جاری کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔اس معاہدے کے تحت پاکستان نے سکھ زائرین کو تین ہزار ویزے جاری کرنے تھے لیکن رواں سال ریکارڈ چھ ہزار 751 ویزے جاری کیے جب کہ انڈیا نے صرف 100 پاکستانیوں کو ویزے دیے۔
باہمی رضا مندی کے بغیر مزید کوئی نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیر اعظم شہباز شریف
جوہری تنصیبات کے تحفظ کا معاہدہ:
دونوں ملکوں میں 1988 میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی ممانعت کا معاہدہ طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک ہر سال اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست ایک دوسرے کو فراہم کرتے ہیں۔ اس معاہدے کا نفاذ 27 جنوری 1991 کو ہوا اور اس کے بعد سے دونوں ملک ہر سال یکم جنوری کو جوہری تنصیبات کی دستاویزات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی جوہری تنصیبات کا بلا واسطہ یا بالواسطہ نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
فضائی حدود کی خلاف ورزی کا معاہدہ:
لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے درمیان میچ کا ٹاس ہو گیا
6 اپریل 1991 کو نئی دہلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کا مقصد پڑوسی ممالک کے درمیان حادثاتی یا غیر ارادی ہوائی حدود کی خلاف ورزی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اس معاہدے میں فوجی طیاروں کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے گئے کہ وہ ایک دوسرے کی ہوائی حدود سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر رہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی طیارہ دوسرے ملک کے سرحدی پانیوں کی حدود میں بغیر پیشگی اجازت کے داخل نہیں ہو سکتا۔
لاہور اعلامیہ:
یہ اعلامیہ فروری 1999 میں سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کے ہم منصب نواز شریف کے درمیان بھارتی وزیر اعظم کے پاکستان کے دورے کے دوران دستخط ہوا۔ اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا کہ "امن اور سلامتی کا ماحول دونوں اطراف کے اعلیٰ قومی مفاد میں ہے اور تمام حل طلب مسائل، بشمول جموں و کشمیر کا حل اس مقصد کے لیے ضروری ہے"۔ انہوں نے یہ بھی اتفاق کیا کہ وہ "تمام مسائل، بشمول جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کو تیز کریں گے۔
پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے:شاہد خاقان عباسی
بیلسٹک میزائل تجربات کی پیشگی اطلاع کا معاہدہ:
یہ معاہدہ 2005 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان طے پایا ۔ اس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک بیلسٹک میزائل کے تجربے سے کم از کم تین دن پہلے ایک دوسرے کو اطلاع دیں گے۔ معاہدے کے مطابق ہر فریق کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تجرباتی پرواز کا مقام بین الاقوامی سرحد یا کنٹرول لائن سے 40 کلومیٹر کے اندر نہ ہو، اور منصوبہ بند اثر والا علاقہ 75 کلومیٹر کے اندر نہ ہو۔ یہ معاہدہ اب بھی قابل عمل ہے۔ تاہم گزشتہ سال پاکستان نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اس معاہدے کی مکمل پابندی نہیں کر رہا ۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرے کو کم کرنے پر معاہدہ:
جوہری حادثات پر معاہدہ 21 فروری 2007 کو پانچ سال کی ابتدائی مدت کے لیے نافذ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت، دونوں ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور سلامتی کو بہتر بنانے، ایک دوسرے کو کسی بھی جوہری حادثے کی اطلاع دینے، اور ایسے حادثے کے تابکاری اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کیا۔ مزید برآں دونوں ممالک میں سے ہر ایک جوہری حادثے کی صورت میں پابند ہے کہ وہ اپنے اقدامات کو دوسرے فریق کی طرف سے غلط سمجھے جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ 2012 اور 2017 میں معاہدے کو پانچ پانچ سال کے لیے مزید بڑھا دیا گیا۔
لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کا معاہدہ:
نومبر 2003 میں پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بارڈر پر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ معاہدہ کچھ سالوں تک قائم رہا لیکن 2008 سے باقاعدہ خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ دریں اثنا 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ۔ سنہ 2021 میں دونوں ممالک نے دوبارہ معاہدے کی پابندی کا عہد کیا۔ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، دونوں اطراف نے موجودہ طریقہ کار ہاٹ لائن رابطہ اور فلیگ میٹنگز کو دوبارہ زندہ کرنے پر اتفاق کیا تاکہ "کسی بھی غیر متوقع صورت حال یا غلط فہمی" سے نمٹا جا سکے۔