ٹرمپ کا پیوٹن سے رابطہ، یوکرین، مشرق وسطیٰ، توانائی اور مصنوعی ذہانت کے مسئلہ پر تبادلہ خیال
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو، یوکرین، مشرق وسطیٰ، توانائی اور مصنوعی ذہانت کے ایشو پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ یہ بات چیت یوکرین میں جاری تنازع کے خاتمے کی نئی کوششوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، جو اپنے چوتھے سال میں داخل ہونے والا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے یوکرین، مشرق وسطیٰ، توانائی، مصنوعی ذہانت، ڈالر کی طاقت اور مختلف دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
روسی حکام کے مطابق ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان تقریباً 90 منٹ تک بات چیت ہوئی، ٹرمپ کئی ہفتوں سے پیوٹن سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے وہ یوکرین تنازع کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف امریکا میں احتجاج، مظاہرین کا ٹرمپ سے جنگ میں نہ الجھنے کا مطالبہ
جیسے جیسے ٹرمپ انتظامیہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی جنگ میں مزید عملی کردار ادا کرنے پر غور کر رہی ہے، اسی تناظر میں واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین جمع ہو گئے ہیں جو امریکا کو ایران اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ میں براہِ راست مداخلت سے روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ ایران پر اسرائیلی اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ساتھ ہی امریکا کی جانب سے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرنے پر بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
مظاہرے کے شرکاء صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکا جنگ میں براہِ راست عسکری طور پر شامل نہ ہو، کیونکہ ایسا اقدام مشرق وسطیٰ میں تنازعے کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت امریکا کے تین طیارہ بردار بحری بیڑے (aircraft carrier groups) مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیڑے صرف دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے چاہئیں، نہ کہ جارحانہ کارروائیوں کے لیے۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا:
"No War with Iran", "Stop Funding War Crimes", "Diplomacy Not Bombs"۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے نے ایک خطرناک اور غیر متوقع صورتحال پیدا کر دی ہے اور امریکا کی براہ راست مداخلت دنیا کو ایک وسیع تر جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
سول سوسائٹی اور امن کے حامی گروپوں نے بھی مظاہرے کی حمایت کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی کارروائی کے بجائے سفارتی راستہ اختیار کرے تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔