Nai Baat:
2025-10-29@08:10:33 GMT

قیادت کا بحران

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

قیادت کا بحران

روایت ہے کہ حضرت ابو ذر غفاری ؓ نے آپؐ سے کوئی عہدہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا، تو آپ ؐ نے انکے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا، اے ابو ذرؓ تم کمزور ہو اور یہ عہدہ عوام کی امانت ہے،، اگر ذمہ دار اپنے فرائض منصبی احسن طریقہ سے انجام نہ دے سکے اس کو آخرت میں ندامت اٹھانا پڑے گی، مجھے تمھارے اندر جو کمزوری دکھائی دیتی ہے، میری ہدایت ہے کہ کبھی کوئی عہدہ قبول نہ کرنا، خواہ تمھیں دو افراد پر نگران ہی کیوں نہ لگایا جائے،یاد رکھو کبھی کسی یتیم کے مال کی رکھوالی کی ذمہ داری نہ لینا۔آپ ؐ کی اس نصیحت کا مقصد انکی دل آزاری نہ کرنا تھا بلکہ یہ سمجھانا تھا کہ لیڈر شپ کے لئے محض اخلاص کا فی نہیں بلکہ اہلیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
نبی ؐ مہربان نے ریاست مدینہ کے قیام میں اس فلسفہ کو بنیادی اور عملی طور پر اپنایا، امن معاہدے ، یا سفارت کاری کا میدان ہو، امت کی تربیت یا طریقہ فن تعمیر ہو، شہسواری ہو یا تجارت، انداز گفتگو ،یا عسکری مہارت،مذاکرات کا طریقہ یا افراد کو منظم کرنا ہو ،آپ ؐ کی حیات مبارکہ اس قابلیت اور صلاحیت سے مزین رہی ہے۔
ریاستی امور کی انجام دہی سے لے کر آئین کی تشکیل تک آپ ؐ کی معاملہ فہمی، دور اندیشی منفرد تھی،اس قائدانہ صلاحیت کا فیض تھا کہ مدینہ کا معاشرہ پرامن ہی نہیں تھا بلکہ مختلف ثقافتوں اور الگ الگ مذاہب کے لوگ محبت اور رواداری سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ سماج میں قتل و غارت کی ممانعت تھی،مساوات،عدل نمایاں تھا، پسماندہ طبقات کی نہ صرف مدد کی جاتی بلکہ انھیں تحفظ حاصل تھا، کسی کو آپ ؐ کی اجازت کے بغیرجنگ کا اعلان کرنے کی اجازت نہ تھی۔

ایسی سوسائٹی کا قیام اِن افراد کی اہلیت اور قابلیت کے مرہون منت تھا، جو آپؐ کے ساتھی تھے،بطور سپہ سالار کئی معرکوں کی قیادت آپ ؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓکے سپرد کی،سریلی آواز کی بنا پر حضرت بلال ؓکو اسلام کے پہلے موذن بننے کا شرف حاصل ہوا،پر اثر گفتگواور سفارت کاری کے ماہر حضرت جعفر بن ابی طا لب کوؓ اپنا نمائندہ بنا کر حبشہ بھیجا،معلمانہ خصوصیات رکھنے والے حضرت معصب بن عمیر ؓ کو لوگوں کی تعلیم کے لئے مدینہ منورہ بھیجا۔ بہترین عسکری حکمت عملی کی بدولت آپؐ حضرت سلیمان فارسیؓ سے جنگی معاملات میں مشاورت کرتے،علمی بصیرت اور اجتہادی فکر کی خوبیوں کی وجہ سے معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجا گیا۔

ایک با صلاحیت اور قابل راہنما کا اضافی وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے زیر تربیت افراد میں ان صلاحیتوں کو منتقل کرے جو بدلتے حالات میں کامیابی سے نظام چلانے کی طاقت اور اہلیت رکھتے ہوں۔ آپؐ کے بعد خلفاء راشدین نے ایسا نظام وضع کیا ، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، فی زمانہ دنیا کی فلاحی ریاستوں میںعمر ؓ لاز کا نفاذ آج بھی ہے۔خلفاء راشدین بھی با صلاحیت افراد اکی قدرو قیمت سے آگاہ تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ساتھیوں سے کہا کہ اپنی خواہش کا اظہار کرو، ایک ساتھی نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ تمام جگہ سونے سے بھر جائے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں،دوسرے نے جواب دیا کہ یہاں ہیرے جواہرات ، زیورات ہوں میں اللہ کے لئے وقف کروں، خلیفہ دوئم نے فرمایاکہ میری تمنا ہے کہ یہ مقام ابو عبیدہ بن الجراحؓ ،معاذ بن جبلؓ،حذیفہ بن یمانؓ سے بھر جائے، ابو عبیدہ ؓ کو دربار رسالت سے امین الامت کا خطاب ملا تھا، حضرت عمر ؓ بین السطور کہنا چاہتے تھے کہ اگر باصلاحیت، اہل، دیانت دار افراد ریاستی منصب پر فائز نہ ہوں تو قدرتی وسائل بھی بے معنی ہو جاتے ہیں۔

تاریخ میں دفن انقلابات اپنی اہمیت اس لئے کھو گئے کہ ان سے محدود لوگ ہی مستفید ہو سکے ان سے منسوب جبر ،ظلم،قتل و غارت کی کہانیاں بتاتی ہیں کہ انکی لیڈر شپ قطعی دور اندیش اور اعلیٰ صفات سے متصل نہ تھی، کسی نہ کسی تعصب کا شکار رہے،جہاں کہیں بھی حملہ آور ہوئے گردنوں کے مینار قائم کئے،جنگ و جدل کے وہ بازار گرم کئے کہ انسانیت ان سے پناہ مانگنے لگی۔
اس قبیل کے لوگ آج بھی نیو ورلڈ آڈر کے زعم میں دھمکی آمیز لہجہ میں فلسطین کو خالی کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں یہ صورت حال امت مسلمہ میں با صلاحیت قیاد ت کے فقدان کی عکاس ہے ایک زمانہ تھا جب امت کا طوطی بولتا تھا، یہ اس عہد کی بات ہے جب امت Right man for the right Job کی پالیسی پر عمل پیرا تھی،، طب، سائنس،فلسفہ، تاریخ، ریاضی ،جغرافیہ میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا، آج دنیا کی سو بہترین جامعات میں ایک بھی مسلم دنیا میں موجود نہیں ہے۔

اسلامی سلطنت کے زوال کے بعد خاندانی بادشاہت نے ہل من مزید کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے،نسل در نسل سے اقتدار پر براجمان مقتدر طبقہ نے نسل نو میں عقابی روح بیدار کرنے کی بجائے انھیں طائوس رباب کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے، انکے ذوق کی تان صحرائوں میں شکار کرنے ،سونے کی گاڑیاں رکھنے اور محلات بنانے، دولت جمع کرنے پر آکر ٹوٹ جاتی ہے۔ سرکاری اداروں کی شکست و ریخت کی داستانیں بھی پتہ دیتی ہیں کہ انکی قیادتیں بھی اہل مناصب سے خالی رہی ہیں، عالم یہ ہے کہ انھیں اب خریدنے کو کوئی تیار نہیں، جن کو فرخت میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
Beggers are not chooser کی مایوس کن صورت حال نے فیصلہ سازی کا اختیار بھی چھین لیا ہے، اداروں میںپالیسی سازی،ملازمین کی پنشن کی ادائیگی سے لے کر ضرویات زندگی کے علاوہ بجلی کے نرخ مقرر کرنے میں بھی بے بس نظر آتے ہیں، جن کے پیسوں سے ہم بجٹ بناتے ہیں، ان کی شرائط کے سامنے سرنگوں ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں،بے صلاحیت قیادت کے انتخاب کی یہ بھاری قیمت ہے جسے ادا ہی کرنا ہے۔

ہیومن ریسورس کے ماہرین کا کہنا ہے فرد کی کامیابی کے لئے فنی مہارت کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیت کا ہونا لازم ہے، جس میں ٹائم مینجمنٹ کلیدی کردار ادا کرتی ہے، ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک دنیا کے افق پر روشن ہیں ،جنہوں نے وقت کا بہترین استعمال اور باصلاحیت افراد کا انتخاب کر کے ذمہ داریاں انکے سپرد کیں،با صلاحیت قیادت کے انتخاب کی بابت نبی ؐ مہربان کا دیا ہوا سبق ہم نے فراموش کردیا ہے،آج امت مسلمہ قیادت کی ایسی بحرانی کیفیت سے گذ ر رہی ہے، جہاں دور دور تک روشنی دکھائی نہیں دیتی، ہماری صورت حال بھی اس سے یکسر مختلف نہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے لئے

پڑھیں:

غزہ میں 6 لاکھ 50 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں، یونیسف

ادارے نے واضح کیا ہے کہ الفاظ اور اعداد و شمار اس تباہی کی گہرائی کو بیان نہیں کر سکتے جو غزہ کے بچے بھگت رہے ہیں، اس انسانی سانحے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نفسیاتی اور سماجی بحران کئی نسلوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اقوامِ متحدہ کے ادارۂ برائے اطفال (یونیسف) کے علاقائی ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ غزہ پٹی کے بچے انتہائی سخت اور غیر محفوظ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، اور گزشتہ دو برسوں میں تقریباً 6 لاکھ 50 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔ یونیسف کے علاقائی سربراہ نے کہا کہ غزہ میں انسانی صورتحال تاریخ کے بدترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور علاقے کی 80 فیصد سے زیادہ بنیادی تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بچے نہ صرف مسلسل خوف اور ناامنی میں زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ تعلیم، صحت اور خوراک کے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق ایک ملین بچوں کی المناک حالت ہے۔ یونیسف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، اب تک 64 ہزار سے زائد بچے غزہ میں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ 58 ہزار بچوں نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو جنگ کے دوران کھو دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے اس ادارے نے واضح کیا ہے کہ الفاظ اور اعداد و شمار اس تباہی کی گہرائی کو بیان نہیں کر سکتے جو غزہ کے بچے بھگت رہے ہیں، اس انسانی سانحے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نفسیاتی اور سماجی بحران کئی نسلوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں تمام اسکول، اسپتال اور سماجی خدمات کے مراکز تقریباً مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں — اور علاقہ اپنی تاریخ کے بدترین تعلیمی و انسانی بحران سے دوچار ہے۔  

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کے دورہ جنوبی کوریا سے چند گھنٹے قبل، شمالی کوریا کا کروز میزائل تجربہ
  • افغان طالبان 3 حصوں میں تقسیم، یہ ٹی ٹی پی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے: میجر جنرل (ر) انعام الحق
  • ملتان، حضرت شاہ رکن الدین عالم کا 712 واں سالانہ تین روزہ عرس شروع، بڑی تعداد میں مرید شریک 
  • ناشتہ نہ کرنا صحت کے لیے نقصان دہ، ماہرین نے خطرناک بیماریوں سے خبردار کردیا
  • پاکستان آئینی بحران کا شکار، عدلیہ کو آئینی ترمیم کے ذریعے یرغمال بنایا گیا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • غزہ میں 6 لاکھ 50 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں، یونیسف
  • کسی بھی ٹیم کو ہرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سلمان آغا جنوبی افریقہ ہرانے کے لیے پرامید
  • وزیراعلٰی سہیل آفریدی کا اسٹیبلشمنٹ سے تصادم، صوبائی مشینری جام، عوام نظرانداز ۔۔۔ اس بحران کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
  • چینی مافیا، حکومتی ایوانوں سے منڈیوں تک پھیلا منظم کھیل
  • عملی زندگی میں عشق رسول ؐسادگی اور اخلاص کو اپنائیں،مقصود الٰہی