جدہ میں پہلے پاکستانی ڈاکٹرجنکوپریمیم ریذیڈنسی اقامہ اعزازی طورپرديا گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
ڈاکٹر سعد منظور فضل ہاشمی
ڈاکٹرسعد منظورفضل ہاشمی وزارت صحت میں غیرمعمولی صلاحیتوں کے ساتھ غالباً پہلے پاکستانی ڈاکٹر ہیں جن كو تعریفی طبی خدمات کے اعتراف میں پریمیم ریذیڈنسی اقامہ اعزازی طور پرديا گیا۔ ڈاکٹر سعد ان غیرملکیوں میں شامل ہیں جنہیں منفرد صلاحیتوں کے باعث اقامہ ممیزہ دیا گیا ہے۔
ڈاکٹرسعد ہاشمی 1985 سے جدہ العزیزیہ وزارت صحت کے ہاسپٹل میں کنسلٹنٹ پیڈیاٹرک خون اوراورام (آنکولوجی) کام کررہے ہیں۔ وہ شعبہ اطفال کے وائس چیئرمین، کوالٹی کوآرڈینیٹر اور انٹرنس ڈاکٹروں کے سپروائزرہیں۔ وہ – کلینکل اسسٹنٹ پروفیسر برائے طلباء کالج آف میڈیسن، رابغ، العزیزیہ ہسپتال میں (2017 – 2020)۔ رابغ ہسپتال میں شعبہ اطفال اور نرسری کے سابق سربراہ رہے۔
المساعدیہ زچگی اور بچوں کے ہسپتال میں جینیاتی خون کی بیماریوں اور شادی سے پہلے کے ٹیسٹ کے مرکز کے شریک بانی بھی ہیں۔ سعودی پیڈیاٹرک سوسائٹی اور سعودی بلڈ ڈیزیز سوسائٹی کے رکن ہیں۔ مختلف وزارتوں اور اداروں سے تعریفی سرٹیفکیٹ اور سابق وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز سے حج میڈل حاصل کرچکے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مختصر عرصے میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور کامیابی کی منزل حاصل کی۔ انہوں نے اقامہ ممیز کے حصول کو اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیا۔ اس سوال پر کہ کسی بھی شعبے میں کامیابی کی کنجی کیا ہے، ان کا کہنا تھا’ ہارڈ ورک اور سمارٹ ورک سے آپ اپنے مقاصد کے قریب پہنچتے ہیں، جبکہ قسمت مواقع آپ کے سامنے لاتی ہے۔ محنت اور لگن کے ساتھ حکمت عملی اور منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔ سمارٹ ورک سے مراد اپنے وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنا، درست فیصلے کرنا، اور مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے تاہم کچھ عوامل ہمارے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں، قسمت کا بھی کردار ہوتا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کو سرمایہ کاری اور رہائش کے حوالے سے محفوظ ملک قرار دیا اور کہا’ استحکام، مضبوط معیشت، اور بہتر انفراسٹرکچرکے باعث یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور رہائشیوں کے لیے پرکشش ہے۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا’ سعودی معاشرے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مختلف ثقافتی، سماجی، اورمذہبی اقدارکے باوجود لوگ مل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
ڈاکٹرسعد منظور فضل ہاشمی کراچی میں پیدا ہوئے۔1961میں چھوٹی عمرمیں والدین کے ہمراہ سعودی عرب آئے۔ ابتدائی تعلیم پاکستان انٹرنیشنل اسکول العزیزیہ جدہ سے حاصل کی۔ مصر سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔ آئرلینڈ ٹبلن سے پیڈیاٹرک میں ڈپلومہ اور پھر فیلو شپ ( پی ایچ ڈی) شام سے کی۔
ڈاکٹرسعد ہاشمی پاکستان انٹرنیشنل اسکول العزیزیہ کے صدر ہیں ۔ ان کے مطابق سعودی عرب کی ترقی اور تعمیر میں پاکستانی کمیونٹی کا اہم کردار رہا ہے۔ پاکستانی لیبر، انجینئرز، ڈاکٹرزاوردیگر
پروفیشنلزمختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی محنت اور مہارت نے سعودی معیشت اور معاشرے کو مضبوط بنانے میں مدد دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وژن 2030 اہم اور دوررس منصوبہ ہے جو مملکت کو معاشی، سماجی اور ثقافتی طور پر ترقی دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس وژن کے تحت سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر انحصار کم کرنے اور مختلف شعبوں میں تنوع لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یاد رہے منفرد اقامہ پروگرام کا آغاز 2019 میں کیا گیا تھا، بعدازاں 2024 میں مزید پانچ کیٹگریز متعارف کرائی گئیں جس کا مقصد مختلف شعبوں میں منفرد صلاحیتوں کے حامل افراد کو اقامہ ممیزہ جاری کرنا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مختلف وزارتوں اور محکموں میں ہزاروں سرکاری آسامیاں ختم
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی حکومت کے رائٹ سائزنگ اقدامات کے تحت مختلف وزارتوں اور محکموں میں ہزاروں سرکاری آسامیاں ختم کر دی گئیں، جس کا مقصد اخراجات میں کمی اور انتظامی ڈھانچے کو موثر بنانا ہے۔
نجی ٹی وی چینل آج نیوز دستاویزات کے مطابق گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 22 تک مجموعی طور پر 32 ہزار 70 آسامیاں ختم کی گئی ہیں، جن کا سالانہ مالیاتی بوجھ 30 ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کابینہ ڈویژن نے مزید 7 ہزار 826 ایسی ”ڈائنگ آسامیاں“ بھی شناخت کی ہیں، جو آہستہ آہستہ ختم کی جائیں گی۔ ان آسامیاں کا سالانہ مالیاتی حجم 6 ارب روپے سے زائد بتایا گیا ہے۔
لاہور: رواں سال کے 100دنوں میں موٹرسائیکل اور کار چوری کی4300 سے زائد وارداتیں
ختم کی گئی آسامیوں میں گریڈ 17 سے گریڈ 22 کی 1102 آسامیاں شامل ہیں جبکہ گریڈ 1 تا 16 کی 30 ہزار 968 آسامیاں بھی ختم کی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق گریڈ 1 کی 7305، گریڈ 2 کی 2853، گریڈ 4 کی 2456، گریڈ 5 کی 2887، گریڈ 14 کی 1274 اور گریڈ 16 کی 1340 آسامیاں ختم کی جا چکی ہیں۔
ان اقدامات کا مقصد سرکاری محکموں کو سست اور غیر ضروری بوجھ سے نجات دینا، ساتھ ہی مالی وسائل کی بچت اور کارکردگی میں بہتری لانا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ عمل مرحلہ وار جاری رہے گا۔
مزید :