وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا مائننگ اور صنعتوں کے فروغ کے لیے اہم اعلان
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
پشاور: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کاکہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے مائننگ کے شعبے کو جدید خطوط پر ترقی دینے کے لیے اپنی مائننگ کمپنی قائم کر لی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں ٹرانسمشن لائن بچھانے کا کام بھی جاری ہے جس سے صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ نے سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے وفد سے ملاقات کے دوران بتایا کہ پشاور میں ٹریفک کے مسائل کے حل کے لیے سات نئے انڈر پاسز جلد تعمیر کیے جائیں گے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے مقامی صنعتکاروں کو مائننگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاروں کو تمام سہولتیں فراہم کرنے کے لیے نیا قانون لایا جا رہا ہے، جس کے تحت ون ونڈو کے ذریعے تمام سہولتیں آن لائن فراہم کی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہاکہ صوبے میں زیر تعمیر بجلی گھروں سے اگلے چند سالوں میں تقریباً 800 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی، جو مقامی صنعتوں کو سستے نرخوں پر فراہم کی جائے گی، صوبائی حکومت سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی اور تجارتی شعبے کو فروغ دینے کے لیے نئی لیز پالیسی بھی لائی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
کراچی:ماہرین معدنیات کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
بدھ کو "پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع" کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں معدنی ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسمنٹ فسلیٹیشن کونسل کے قیام کے بعد پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کے شعبہ کان کنی کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے لکی سیمنٹ، لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد اب پاکستان میں کان کنی کا شعبے پر توجہ دی جارہی ہے۔ شعبہ کان کنی کی ترقی سے ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ناصرف خوشحالی لائی جاسکتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں بھی کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف چاغی میں سونے اور تانبے کے 1.3 ٹریلین کے ذخائر موجود ہیں۔ کان کنی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کان کنی کے صرف چند منصوبے کامیاب ہوجائیں تو معدنی ذخائر کی تلاش کے لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے قطاریں لگ جائیں گی۔
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت دھاتوں کی بے پناہ طلب ہے لیکن اس شعبے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سونے اور تانبے کی ٹیتھان کی بیلٹ ترکی، افغانستان، ایران سے ہوتی ہوئی پاکستان آتی ہے۔
شمس الدین نے کہا کہ ریکوڈک میں 7ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تانبا اور سونا موجود ہے۔ پاکستان معدنیات کے شعبے سے فی الوقت صرف 2ارب ڈالر کما رہا ہے تاہم سال 2030 تک پاکستان کی معدنی و کان کنی سے آمدنی کا حجم بڑھکر 6 سے 8ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شعبہ کان کنی میں مقامی وغیرملکی کمپنیوں کی دلچسپی دیکھی جارہی ہے، اس شعبے میں مقامی سرمایہ کاروں کو زیادہ دلچسپی لینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ 10سال بعد حاصل ہوتا ہے۔
فیڈیںلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لئے اس سے متعلق انشورنس اور مالیاتی کے شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنی افرادی قوت اور وسائل کو مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔