چیمپئنز ٹرافی کا سب سے بڑا مقابلہ: بھارت کیخلاف پاکستان کے دونوں اوپنرز آؤٹ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
چیمپئنز ٹرافی کا سب سے بڑا مقابلہ پاک بھارت ٹاکرا جاری ہے پاکستان ٹیم کی نصف سنچری مکمل ہونے سے قبل دونوں اوپنرز آؤٹ ہوچکے ہیں۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں سب سے بڑے مقابلہ دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں جاری ہے۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تاہم ٹیم کی نصف سنچری سے قبل ہی دونوں اوپنرز آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ چکے ہیں۔پاکستان کی جانب سے بابر اعظم اور امام الحق نے اننگ کا آغاز کیا اور 8 اوورز میں 41 رنز کا آغاز فراہم کیا۔ اس موقع پر بابر اعظم جو بڑی اننگ کھیلنے کے موڈ میں دکھائی دے رہے تھے وہ ہاردک پانڈیا کی گیند پر وکٹ کیپر کے ہاتھوں کاٹ بی ہائینڈ ہوگئے۔بابر اعظم نے 26 گیندوں پر 23 رنز کی اننگ کھیلی۔ ان کی مختصر اننگ میں پانچ چوکے شامل تھے اس کے فوری بعد امام الحق ایک غیر ضروری رن لینے کی کوشش میں رن آؤٹ ہو گئے۔ انہوں نے 26 گیندوں پر 10 رنز بنائے۔پاکستان کا مجموعی اسکور 10 اوورز میں 52 رنز ہوچکا ہے۔ کریز پر کپتان محمد رضوان (4) اور سعود شکیل (3) رنز کے ساتھ موجود ہیں۔آج کے میچ کے لیے پاکستان ٹیم میں ایک تبدیلی کی گئی ہے اور نیوزی لینڈ کیخلاف میچ میں زخمی ہوکر ٹورنامنٹ سے باہر ہونے والے فخر زمان کی جگہ امام الحق کو فائنل الیون میں شامل کیا گیا ہے جب کہ بھارت کی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ٹاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی کپتان محمد رضوان نے کہا کہ آج کا میچ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ کھلاڑی دبئی کی کنڈیشنز سے اچھی طرح واقف ہیں۔محمد رضوان نے مزید کہا کہ کوشش کریں گے کہ اچھا کھیل کر اسکور بورڈ پر اچھا ٹوٹل سجائیں۔بھارتی کپتان روہت شرما نے کہا کہ اس پچ پر ہدف کا تعاقب آسان نہیں۔ گزشتہ میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف ہمیں بھی ہدف کے تعاقب میں مشکل پیش آئی تھی۔آج کے میچ کے لیے دونوں ٹیمیں ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہیں۔
پاکستان:
محمد رضوان (کپتان)، سلمان علی آغا (نائب کپتان)، امام الحق، بابر اعظم، سعود شکیل، طیب طاہر، خوشدل شاہ، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، حارث رؤف، ابرار احمد۔
بھارت:
روہت شرما (کپتان)، شبھمن گل (نائب کپتان)، ویرات کوہلی، شریاس ائیر، اکشر پٹیل، کے ایل راہول، ہاردک پانڈیا، رویندرا جڈیجا، ہرشتھ رانا، محمد شامی، کلدیپ یادیو۔واضح رہے کہ پاکستان کو افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 60 رنز سے شکست ہوئی تھی جب کہ بھارت نے میگا ایونٹ کے اپنے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کو ہرا چکی ہے۔پاکستان جو ٹورنامنٹ کا دفاعی چیمپئن ہے۔ اس کو اپنے اعزاز کے دفاع کی مہم جاری رکھنے کے لیے اس کو آج کا میچ جیتنا لازمی ہے۔چیمپئنز ٹرافی میں روایتی حریفوں کے باہمی مقابلے میں پاکستان کا ریکارڈ بھارت سے بہتر ہے۔ دونوں ٹیموں نے میگا ایونٹ میں اب تک پانچ میچز کھیل رکھے ہیں۔ تین میچز میں گرین شرٹس جب کہ دو میچز میں بلیو شرٹس کامیاب رہی ہے۔2017 کی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان نے سرفراز احمد کی قیادت میں بھارت کو 180 رنز کے بھاری مارجن سے ہرا کر پہلی بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: چیمپئنز ٹرافی محمد رضوان امام الحق میچ میں
پڑھیں:
پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-4
محمد مطاہر خان
پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔
اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔
وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔
بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔