امن کی تلاش، دنیا سعودی عرب پر کیوں بھروسہ کرتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
گزشتہ ہفتے ریاض میں امریکی وزیر خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب کے مابین ہونے والی ملاقات نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ اس اہم سفارتی پیشرفت نے جہاں روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کے خاتمے کی امیدوں کو جِلا بخشی، وہیں 2 عظیم عالمی طاقتوں کے درمیان مصالحت کی نئی راہیں بھی ہموار کیں۔ اس تناظر میں ایک سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں ابھرا: دنیا ریاض پر کیوں اعتماد کرتی ہے؟
آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ مشرق و مغرب کے ممالک، دہائیوں سے تنازعات کے حل، کشیدگیوں کے خاتمے اور جنگوں کو ختم کرنے کے لیے ریاض کی طرف دیکھتے ہیں؟
بعض مبصرین اسے سعودی عرب کے سیاسی وزن سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن جب عالمی سیاست کے بڑے کھلاڑی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور ویٹو پاور رکھنے والے ممالک بھی ریاض کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں، تو معاملہ محض سیاسی اثر و رسوخ سے آگے بڑھ کر گہرے اسباب کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔
کچھ حلقے سعودی عرب کی مضبوط معیشت اور مستحکم مالی پوزیشن کو اس اعتماد کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تاہم اگر محض اقتصادی طاقت ہی اعتماد کا پیمانہ ہوتی، تو کئی بڑی معیشتیں ریاض جیسی عالمی پذیرائی اور مقام کی حامل ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتماد راتوں رات حاصل نہیں ہوا، بلکہ یہ عشروں پر محیط مستقل سفارتی کاوشوں، خلوص نیت، غیرجانبداری، اور انصاف پر مبنی فیصلوں کا ثمر ہے، جنہوں نے سعودی عرب کو عالمی سطح پر ایک قابل اعتماد ثالث کی حیثیت عطا کی۔
ریاض نے اپنی غیرمعمولی سفارت کاری، دیانت، اور پُرامن حل کی جستجو کے ذریعے ثابت کیا کہ وہ محض مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی امن واستحکام کا علمبردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحارب گروہ بھی سعودی وساطت کو قبول کرتے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ریاض کا کردار نہ صرف غیرجانبدار ہوتا ہے بلکہ دیرپا اور منصفانہ حل فراہم کرنے والا بھی ہوتا ہے۔
اگر ہم تاریخ کی روشنی میں جھانکیں تو بے شمار مثالیں سعودی عرب کے اس مقام کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1989 میں لبنان کی 15 سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ’طائف معاہدے‘ کے ذریعے ممکن ہوا، جس نے اس ملک میں امن اور سیاسی استحکام کی بنیاد رکھی۔
1990 میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی عرب نے نہ صرف کویت کی حمایت میں آواز بلند کی بلکہ بین الاقوامی اتحاد تشکیل دے کر کویت کی آزادی اور خودمختاری کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مراکش اور الجزائر کے درمیان 1980 کی دہائی میں جاری سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے میں بھی ریاض کی ثالثی اہم سنگ میل ثابت ہوئی، جس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات بحال ہوئے، سرحدیں کھلیں اور ویزا کی پابندیاں ختم ہوئیں۔
اسی طرح 1980 میں شام اور اردن کے درمیان سرحدی کشیدگی اُس وقت عروج پر پہنچی جب شامی افواج نے اردنی سرحد کے قریب 20 ہزار فوجی اور 6 سو ٹینک تعینات کیے۔ یہ سنگین بحران بھی اس وقت ختم ہوا جب سعودی عرب کے اُس وقت کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے اپنی دانشمندانہ سفارت کاری کے ذریعے شام کو افواج واپس بلانے پر آمادہ کیا، یوں علاقائی امن و استحکام کو نئی زندگی ملی۔
ریاض کی سفارت کاری کی کامیابیاں صرف جنگوں کو روکنے تک محدود نہیں رہیں، بلکہ اس نے امن کانفرنسوں کی میزبانی اور بین المذاہب مکالموں کی سرپرستی کے ذریعے بھی دنیا بھر میں ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیا۔ ان تمام کاوشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ریاض نہ صرف عالمی طاقتوں کا مرکزِ نگاہ ہے بلکہ ایک ایسا ثالث ہے جس پر متحارب فریق بھی اعتماد کرتے ہیں اور جو بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
دنیا کا یہ اعتماد محض تیل کی دولت یا اقتصادی خوشحالی پر مبنی نہیں بلکہ عشروں کی محنت، صداقت، اور انسانی اقدار کی پاسداری کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ امن و انصاف کا پرچم تھامے ہوئے ہے اور عالمی برادری اس کے کردار کو احترام اور اعتماد کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
کاتبِ مقالہ ’ڈاکٹر نایف العتیبی‘ پاکستان میں سعودی عرب کے پریس اتاشی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سعودی عرب کے سفارت کاری کے ذریعے ریاض کی
پڑھیں:
ایک کلیدی موڑ پر سربراہان مملکت کے درمیان گفتگو چین امریکہ تعلقات کی سمت کا تعین کرتی ہے۔سی ایم جی کا تبصرہ
ایک کلیدی موڑ پر سربراہان مملکت کے درمیان گفتگو چین امریکہ تعلقات کی سمت کا تعین کرتی ہے۔سی ایم جی کا تبصرہ WhatsAppFacebookTwitter 0 7 June, 2025 سب نیوز
بیجنگ : چینی اور امریکی سربراہان مملکت نے فون پر بات چیت کی جو چار ماہ سے زائد عرصے میں چینی اور امریکی سربراہان مملکت کے درمیان ہونے والی پہلی ٹیلیفونک بات چیت اور امریکی صدر ٹرمپ کی دعوت پر چین کے صدر شی جن پھنگ کو پہلی کال بھی تھی۔ گزشتہ ماہ جنیوا میں ہوانے والے چین-امریکہ اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔
چین نے ذمہ دارانہ انداز میں متعلقہ ٹیرف اور نان ٹیرف اقدامات کو منسوخ یا معطل کیا جو امریکی ” ریسیپروکل ٹیرف” کے تحت ہونے والے اقدامات کےخلاف اٹھائے گئے تھے ،لیکن امریکی فریق نے چین کے خلاف متواتر امتیازی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں۔اے آئی چپ ایکسپورٹ کنٹرول گائیڈ لائنز جاری کرنے سے لے کر چین کو چپ ڈیزائن سافٹ ویئر (EDA) کی فروخت روکنے اور چینی طلباء کے ویزوں کی منسوخی کا اعلان کرنے تک کے تمام اقدامات کا سلسلہ جنیوا میں ہونے والے اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے اتفاق رائے کی خلاف ورزی ہیں اور چین امریکہ تعلقات کی راہ میں مداخلت اوراس کے نقصان دہ ہیں ۔
اس کلیدی موڑ پر، دونوں سربراہان مملکت کے درمیان کال نے چین-امریکہ تعلقات کو درست راہ پر واپس لانے میں حالات پیدا کئے ہیں ۔ امریکی فریق نے کال کی درخواست میں پہل کی ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیرف اور تجارتی جنگ خود امریکہ کے لیے ایک تیزی سے “ناقابل برداشت بوجھ” بنتی جا رہی ہے۔ چین کی طرف سے کال میں جو خلوص دکھایا گیا اور جو اصول اپنائے گئے ،وہ چینی اور امریکی عوام اور یہاں تک کہ دنیا کے لوگوں کے لئے ذمہ داری کے اعلیٰ احساس کی عکاسی کرتے ہیں۔ چین نے واضح طور پر اختلافات کو دور کرنے کے لیے امریکا سے مشاورت پر آمادگی ظاہر کی، لیکن یہ بھی بتایا کہ چین نام نہاد معاہدے کے لیے اپنے اصولی موقف کو کبھی قربان نہیں کرے گا۔ امریکہ کے لیے اولین ترجیح خلوص کا اظہار ، جنیوا مذاکرات کے اتفاق رائے پر عمل درآمد اور چین کے خلاف تمام امتیازی سلوک اور منفی اقدامات کو منسوخ کرنا ہے ۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے ٹیلیفونک بات چیت میں اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ کو تائیوان کے امور کو احتیاط سے سنبھالنا چاہئے تاکہ “تائیوان کی علیحدگی ” کا ایجنڈا رکھنے والے مٹھی بھر علیحدگی پسندوں کو چین اور امریکہ کے مابین تنازعات اور تصادم کی خطرناک صورتحال میں گھسیٹنے سے روکا جا سکے۔ یہ امریکہ میں ان چند افراد کے لئے بھی ایک سخت انتباہ ہے جنہوں نے حال ہی میں اس حوالے سے خطرناک ریمارکس دئے ہیں۔
امید ہے کہ امریکہ قول و فعل میں مطابقت رکھے گا، دونوں سربراہان مملکت کے اہم اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنائے گا اور چین امریکہ تعلقات کو مشترکہ طور پر مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے عمل کو فروغ دے گا، جس سے دنیا میں مزید استحکام اور یقین پیدا ہو۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنوے فیصد افراد کا ماننا ہے کہ چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست انتخاب ہے، سی جی ٹی این سروے نوے فیصد افراد کا ماننا ہے کہ چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست انتخاب... چین اور یورپی یونین کے درمیان تین ” اہم معاملات ” میں پیش رفت چین-کینیڈا تعلقات غیر ضروری مداخلت کا شکار ہوئے، چینی وزیر اعظم چین کا جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر عالمی صنعتی چین کی حفاظت کو یقینی بنانے کا اعلان چینی صدر کی پانچن لاما ارتنی چوکی گیابو سے ملاقات چین امریکہ تعلقات ایک اہم تاریخی موڑ پر ہیں، چینی نائب صدرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم