کراچی ایئرپورٹ پر بھاری طیاروں کی لینڈنگ رواں برس کے اختتام تک ممکن ہوسکے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہیوی طیاروں کی لینڈنگ ممکن بنانے کے لیے جاری تعمیراتی کام رواں برس کے اختتام تک مکمل ہوجائے گا، جس کے بعد ایئرپورٹ پر 600 سیٹر ایئر بس کی لینڈنگ ممکن ہوجائے گی۔
ایئرپورٹ حکام کے مطابق کراچی ایئرپورٹ پر 600 سیٹر بڑے طیاروں کی لینڈنگ کے لیے تعمیراتی کام جاری ہے، ایئرپورٹ پر سب سے بڑے طیاروں کی لینڈنگ کے لیے ’07 ایل‘ رن وے کی اپ گریڈیشن کا کام تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ایئرپورٹ بینظیر بھٹو سے موسوم کیا جائے، گورنر خیبر پختونخوا نے وزیر اعظم کو خط لکھ دیا
ایئرپورٹ حکام کے مطابق نئے زیر تعمیر جدید رن وے کو رواں سال 2025 کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا، جس سے کراچی میں 600 سیٹر ایئر بس 380 طیارے کی لینڈنگ ممکن ہو سکے گی۔
ایئر پورٹ حکام کے مطابق نیا رن وے پرانے کو گرا کر بنایا جا رہا ہے، اور اس منصوبے کا مقصد ہوائی اڈے کی بڑی اور زیادہ فاصلے کی پروازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔
مزید پڑھیں: ملکی ایئرپورٹس کی توسیع اور اپگریڈیشن کے لیے اقدامات جاری
ایمریٹس سمیت کئی بین الاقوامی ایئر لائنز نے اپنے بڑے طیاروں کو لینڈ کرنے کے لیے اپ گریڈ شدہ رن وے کو استعمال کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
نیا رن وے کراچی کی اعلیٰ صلاحیت والی پروازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرے گا، جس سے ایک بڑے بین الاقوامی فضائی مرکز کے طور پر اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
600 سیٹر ایئر بس ایئرپورٹ حکام جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی لینڈنگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 600 سیٹر ایئر بس ایي رپورٹ حکام جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی لینڈنگ طیاروں کی لینڈنگ رپورٹ پر کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کی شرح پر قانونی جنگ شروع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
شہر قائد میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر 5 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کے بھاری جرمانوں پر مبنی ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) کو باقاعدہ طور پر سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے بعد دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی اس نظام کے خلاف آئینی درخواست دائر کردی گئی ہے، جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک ہی ملک میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مختلف شہروں میں جرمانوں کی شرح میں ناانصافی قابلِ قبول نہیں ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت اس کیس کا جائزہ لے کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔
دوسری جانب ماہرین قانون نے بھی اس نظام پر کئی بنیادی اور تکنیکی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ جدید نظام ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اسٹریٹ کرمنلز کو کیوں نہیں پکڑا جا سکتا؟ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ نظام شہریوں کی حفاظت کے بجائے حکومت کی آمدنی بڑھانے کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ماہرین نے اس چالان نظام کے تحت آن لائن فراڈ شروع ہونے کی اطلاعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور جرمانوں کے خلاف اپیل کے مشکل طریقہ کار پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ ای چالان سے حاصل ہونے والا ریونیو کہاں خرچ کیا جائے گا، اس بارے میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔