نیشنل لاجسٹکس کارپوریشن نے خلیجی ممالک کے لیے پہلی کنٹینرائزڈ پرچم بردار بحری سروس کا آغاز کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
لاہور ( طیبہ بخاری سے ) نیشنل لاجسٹکس کارپوریشن (این ایل سی) نے خلیجی ممالک کے لیے پہلی کنٹینرائزڈ پرچم بردار بحری سروس کا آغاز کر دیا ۔یہ سروس ابتدائی طور پر 2بحری جہازوں کے ساتھ کام کرے گی۔
تفصیلات کے مطابق مستقبل میں متوقع تجارتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مرحلہ وار توسیع کا منصوبہ بنایا گیا ہے، سروس کے اجراء کی مناسبت سے کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ (KGTL) پر تقریب کا انعقاد ہوا ۔ این ایل سی کے سینئر حکام،شپنگ لائن اور کاروباری برادری کے نمائندگان نے تقریب میں شرکت کی۔
بارڈر سے چینی افغانستان سمگل نہیں، برآمد ہو رہی ہے: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
بحری جہاز1120 فٹ مساوی کنٹینر شپ کے ذریعے 10 روزہ راؤنڈ ٹرپ شیڈول پر کام کرے گا ۔ کراچی، جبل علی (دبئی) اور دمام (سعودی عرب) کے درمیان سامان کی بحری راستوں کے ذریعے بلاتعطل نقل و حرکت کی جائے گی۔ کسی بھی پاکستانی ادارے اور شپنگ لائن کی جانب سے کراچی سے خلیج تک یہ پہلی سروس ہے ، اس سروس میں پاکستانی روپوں میں سلاٹ پیمنٹ کلیکشن کی سہولت موجود ہے۔ اس سہولت سے برآمد اور درآمد کنندگان کو نمایاں فوائد حاصل ہوں گے
سروس حکومت کی خلیجی ممالک کے ساتھ تجارتی فروغ کی پالیسی کے حصہ ہے، جو پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درآمد و برآمد کنندگان کےلیے کاروبار کو وسعت دینے اور نئے صارفین تک مؤثر طریقے سے پہنچنے کے مواقع فراہم کرے گی۔
آپ یہ کس طرح مجھ سے بات کررہے ہیں، خاموش رہیں،علیمہ خان کی نعیم پنجوتہ سے تلخ کلامی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔
آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔
صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔
نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔
صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔
صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔