بھارتی یونیورسٹیوں کا سابق وی سی عمان کا جعلی ہائی کمشنر بن بیٹھا
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
لاہور:
ہمارے پڑوس میں لالچ وہوس کے بطن سے انوکھے واقعات رونما ہونے لگے، بھارتی میڈیا کی رو سے ڈاکٹر کے ایس رانا یونیورسٹی آف ٹکنالوجی جے پور، میواڑ یونیورسٹی راجھستان، اترکھنڈ یونیورسٹی الموڑا اور کوماں یونیورسٹی نینی تال جیسی بڑی تعلیم گاہوں کا وائس چانسلر رہا۔
اگست 2024 ء میں ریٹائر ہوا تو وی آئی پی پروٹوکول پانے اور ’’ہٹو بچو‘‘کی صدائیں سننے کا اتنا دلداہ ہو چکا تھا کہ عمان کا جعلی ہائی کمشنر بن بیٹھا۔
اپنی لگڑری کار میں عمان کا جھنڈا اور دیگر نشانیاں لگوا لیں اور مختلف سرکاری ونجی تقریبات میں ہائی کمشنر بن کر جانے لگا۔
فراڈ کا بھانڈا یوں پھوٹا کہ ڈاکٹر کے سیکرٹری نے ضلع غازی آباد کے پولیس افسر کو خط لکھا اس کی آمد پر اسے پروٹوکول دیا جائے۔
افسر کو شک میں پڑ گیا کہ عمان تو دولت مشترکہ میں شامل ہی نہیں، پھر اس کے ہائی کمشنر کہاں سے آ گیا؟ چھان بین کی تو چھوٹی سی غلطی کی بدولت ڈاکٹر رانا کا راز فاش ہو گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہائی کمشنر
پڑھیں:
اے آئی کی مدد سے گرمی کا توڑ: پینٹ اے سی کی ضرورت کم کردے گا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسٹاک ہوم: دنیا بھر میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر اب سائنسدانوں نے اے آئی کی مدد سے ایک ایسا انقلابی پینٹ تیار کرلیا ہے جو شدید گرمی میں بھی عمارات کو ٹھنڈا رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یوں ایئر کنڈیشنر (اے سی) کے استعمال اور اس کے بھاری بلوں سے نجات دلانے میں معاون ہوسکتا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق امریکا، چین، سنگاپور اور سویڈن کی جامعات سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کی مشترکہ تحقیق نیچر جرنل میں شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس نئے پینٹ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سورج کی حرارت کو واپس منعکس کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں عمارت کی چھت اور دیواریں کم گرم ہوتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق یہ پینٹ عام پینٹ کے مقابلے میں دوپہر کے وقت عمارات کو 5 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک زیادہ ٹھنڈا رکھتا ہے، اس کا استعمال نہ صرف عمارتوں بلکہ گاڑیوں، ریل گاڑیوں، برقی مصنوعات اور دیگر اشیاء پر بھی کیا جا سکتا ہے تاکہ ان پر گرمی کے اثرات کم ہوں۔
ٹیکساس یونیورسٹی، شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور اور Umeå یونیورسٹی کے ماہرین نے اس پینٹ کا فارمولا اے آئی کے ذریعے چند دنوں میں تیار کیا، جس کے لیے ماضی میں کئی ماہ درکار ہوتے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگر اس پینٹ کو صرف ایک چار منزلہ عمارت کی چھت پر استعمال کیا جائے تو سال بھر میں 15,800 کلو واٹ بجلی کی بچت ممکن ہے۔ جبکہ اگر یہی ٹیکنالوجی ایک ہزار عمارات پر استعمال کی جائے تو اتنی بجلی بچائی جا سکتی ہے جو ایک سال میں 10 ہزار سے زائد اے سی چلانے کے لیے کافی ہو گی۔
یہ پیشرفت خاص طور پر ان علاقوں کے لیے اہم ہے جہاں شدید گرمی پڑتی ہے مگر اے سی کی سہولت یا تو دستیاب نہیں یا بجلی کی لوڈ شیڈنگ، مالی مشکلات یا توانائی کے بحران کے باعث ممکن نہیں ہوتی۔ ایسے میں یہ پینٹ سستا، ماحول دوست اور مؤثر متبادل بن سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جدید پینٹ کب اور کس پیمانے پر تجارتی سطح پر دستیاب ہوتا ہے، مگر بلاشبہ یہ دریافت آئندہ برسوں میں دنیا کے گرم علاقوں کے لیے راحت کا سامان بن سکتی ہے۔